میرے بچپن میں وزیر آباد میں بہروپیئے بہت ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے یہ آئے روز بہروپ بدلتے کبھی ڈاکیہ بن کر آجاتے کبھی پولیس کا سپاہی بنتے اور کبھی پاگل کے روپ میں سامنے آتے۔ان کا بہروپ اتنا ’’ایگزیکٹ ‘‘ہوتا کہ لوگ دنگ رہ جاتے بیشتر اوقات یہ اپنی اصلیت خود ظاہر کرتے اور اس کے ساتھ ہی ’’مولا خوش رکھے‘‘ کہتے ہوئے اپنے ہنر کی داد اور انعام وصول کرتے ۔

اپنے بچپن کے بعد اس عمر میں آکر یہ بہروپیئے ایک بار پھر دیکھے ہیں اور انتخابات کے دنوں میں دیکھے ہیں، فرق اگر ہے تو صرف اتنا کہ وہ بہروپیئے مفلوک الحال تھے یہ بہروپیئے خاصے خوشحال ہیں وہ خود کو بہروپیا تسلیم کرتے تھے یہ بہروپیا کہلانے سے انکار ی ہیں۔میرا اشارہ سیاسی رہنمائوں کی طرف ہے میں ان دنوں روزانہ ٹی وی خبرنامہ میں ان کے جلسوں کی کوریج دیکھتا، یہ جس علاقے میں جاتے وہاں کے عام آدمی کا روپ دھار لیتے ۔چنانچہ یہ کبھی سندھی ٹوپی اور اجرک اوڑھے دکھائی دیتے ،کبھی پنجاب کی پگ ان کے سروں پر نظر آتی ،کبھی پٹھانوں کا کلاہ ان کے سر پر ہوتا اور کبھی انہوں نے بلوچی لباس زیب تن کیا ہوتا اس نوع کے روپ دھارنے کے بعد بہروپیوں کی طرح یہ بھی ’’مولا خوش رکھے‘‘ کہتے ہوئے عوام سے اپنے ہنر کی داد اور انعام چاہتے، فرق صرف یہ ہے کہ یہ پیسے نہیں ووٹ مانگ رہے ہوتے ہیں کہ یہ بہروپیئے پیسے مانگتے نہیں انتخاب جیتنے کے بعد پیسے بناتے ہیں۔

میں نے ان بہروپیوں کے بہت عجیب روپ دیکھے ہیں ان میں سے ایک پاکستان کا بادشاہ تھا مگر وہ سائیکل پر دفتر آتا تھا۔اس کا سائیکل پر دفتر آنا خود کو عوام میں سے ثابت کرنے کیلئے تھا مگر یہ بہروپ صرف دو دن جاری رہا کہ یہ کوئی آسان بہروپ نہیں تھا ایک اور بہروپیا ہمارا حکمران تھا وہ خود کو عوام میں سے ثابت کرنے کیلئے اپنے مخالفوں کو جلسہ عام میں ماں، بہن کی گالیاں دینے لگتا تھا ہماری تسبیح بدست خاتون حکمران نے عوام دوستی کے بہروپ میںعوام کا کچومر نکال دیا ۔ہم پر سوشلسٹ بہروپیئے اسلام پسند بہروپیئے اور جمہوری بہروپیئے حکومت کرتے چلے آئے ہیں یہ مختلف حلیوں میں عوام کے سامنے آتے ہیں ان کا دل بہلاتے ہیں اور پھر انعام کے طور پر ان کی بچی کھچی خوشیاں بھی سمیٹ کر لےجاتے ہیں۔

مجھے سیاسی بہروپیوں کا ایک بہروپ ہمیشہ بہت مضحکہ خیز لگا ہے اور وہ روپ اس وقت سامنے آتا ہے جب یہ کسی اعلیٰ مقصد یعنی اقتدار کے حصول کیلئے مشترکہ محاذ بناتے ہیں ۔اس قسم کے اتحادوں میں اندرونی بوالعجیبوں کے علاوہ ظاہری ہیئت کذائی اس وقت دیدنی ہوتی ہے جب یہ اتحاد کا مظاہرہ کرنے کیلئے کسی جلسہ عام میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر فضا میں بلند کرتے ہیں اس وقت یہ رہنما اگر صرف بنیانوں میں ہوں تو یہ گمان گزرے کہ شاید یہ بغلیں صاف کرانے کیلئے کھڑے ہیں۔ان رہنمائوں میں کوئی بڑا ہوتا ہے کوئی چھوٹا ہوتا ہے کوئی موٹا ہوتا ہے چنانچہ ہاتھ فضا میں بلند کرتے وقت پست قامت کو اپنی ایڑھیوں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے بلند قامت تھوڑا سا جھک جاتا ہے اور بچارے موٹے لیڈر کی بہرصور ت جان پر بن جاتی ہے کہ اس کا سانس دھونکنی کی طر ح چلنے لگتا ہے ۔جعلی اتحاد کا یہ مظاہرہ بھی ان رہنمائوں کے بہروپ ہی کی ذیل میں آتا ہے کہ اندر سے تو یہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوتے ہیں، بہروپیئے پن کا یہ مظاہرہ باہمی اتحاد ظاہر کرنے کیلئے ان دنوں مذہبی جماعتوں کے رہنما بھی کرتے ہیں جو ان کی ثقاہت نہیں سیاست زیادہ اہم ہے چنانچہ آپ وہ دن بھی آیا ہی سمجھیں جب ہمارے یہ علماء عیدمیلادالنبی ؐیا ایسے ہی کسی دوسرے متبرک تہوار پر ایک دوسرے کو اس طرح مبارکباد دیں گے جس طرح کرکٹ کے کھلاڑی اپنی جگہ سے اچھلتے ہوئے فضا میں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر مبارک دیتے ہیں ۔

میں نے کالم کے شروع میں بتایا تھا کہ میرے بچپن میں جو بہروپیئے ہوتے تھے انہیں عوام اکثر اوقات پہچان نہیں پاتے تھے چنانچہ یہ بہروپیئے اپنی اصلیت خود ظاہر کرتے جس پر عوام خوش ہو کر انہیں انعام دیتے۔ہمارے آج کے بہروپیئے اپنے فن میں اناڑی ہیں کیونکہ عوام اب انہیں ہر روپ میں پہچاننے لگے ہیں کیا ان کیلئے یہ بہتر نہیں کہ وہ یہ پیشہ ترک کردیں ویسے بھی کمپیٹیشن بہت ہو گیا ہے اب علماء، فضلاء ، دانشور ،صحافی ، ادیب بھی بہروپیئے بن گئے ہیں۔اتنے سارے بہروپیوں میں سیاسی بہروپیوں کی انفرادیت ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔نیز اس کام میں دن بدن منافع بھی کم ہونے کا امکان ہے چنانچہ آئندہ جو حکومتیں بنیں گی اس کے ارکان بہت کم ’’مارجن‘‘ پر کرپشن کر سکیں گے کہ اس میں حصے دار کچھ زیادہ ہیں باقی یہ لوگ جو مناسب سمجھیں صائب مشورہ تو یہی تھا جو میں نے ابھی عرض کیا ہے!

ملیکہ بخاری نے اپنی بڑی بہن کی بیماری کےحوالے سے بیرون ملک جانے کی اپیل کی تھی۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ہفتے کی دوپہر سے پہاڑی علاقے میں لگی آگ نے شدت اختیار کرلی ہے۔

پاکستان اور اردن کے درمیان فیفا ورلڈ کپ کوالیفائر میچ اکیس مارچ کو اسلام آباد میں ہوگا جس کے لیے ٹیم کے مقامی ممکنہ کھلاڑیوں کا تربیتی کیمپ لاہور میں جاری ہے۔

اے آر رحمان کے اس فیصلے پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے تاہم وہ اپنے اس فیصلے کے دفاع میں سامنے بھی آگئے۔

بانی پی ٹی آئی نے امریکا میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) دفتر کے باہر پارٹی کے احتجاج کو بھی درست قرار دے دیا۔

عطاء تارڑ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے ہیں۔

خواتین بھی بہت باصلاحیت ہیں جس کی سالوں سے میں معترف ہوں، بھارتی اداکارہ

پولیس حکام کے مطابق نوجوان کی شناخت عبدالرحمان کے نام سے ہوئی ہے جو تھر کا رہائشی ہے 9 سال سے گھریلو ملازم کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔

ترجمان این ٹی ڈی سی نے مزید بتایا کہ 3 منصوبوں سے 2400 میگاواٹ شمسی توانائی حاصل ہوگی۔

میں محسوس کرنا چاہتی ہوں یہ لوگ روزے رکھ کر شام میں کرکٹ کیسے کھیلتے ہیں؟، اسپن بولنگ کوچ ملتان سلطانز

پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے اقدامات کی قرار داد کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے۔

وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی نے مبارک باد کا ٹیلیفون کیا ہے۔

ن کی نمازجنازہ مسجد جامع امام ترکی بن عبد اللّٰہ میں ادا کی گئی۔

بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق بھارتی ریاستوں میں مرحلہ وار ووٹنگ ہوگی، بھارت میں ووٹوں کی گنتی 4 جون کو شروع ہوگی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے سیاسی، لیگل بحران پیدا کرنے کی کوشش کی۔

صائم ایوب نے 73 رنز کی دھواں دار اننگز کھیلی، محمد حارث 40 جبکہ کپتان بابر اعظم 25 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔

QOSHE - عطا ء الحق قاسمی - عطا ء الحق قاسمی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

عطا ء الحق قاسمی

30 6
17.03.2024

میرے بچپن میں وزیر آباد میں بہروپیئے بہت ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے یہ آئے روز بہروپ بدلتے کبھی ڈاکیہ بن کر آجاتے کبھی پولیس کا سپاہی بنتے اور کبھی پاگل کے روپ میں سامنے آتے۔ان کا بہروپ اتنا ’’ایگزیکٹ ‘‘ہوتا کہ لوگ دنگ رہ جاتے بیشتر اوقات یہ اپنی اصلیت خود ظاہر کرتے اور اس کے ساتھ ہی ’’مولا خوش رکھے‘‘ کہتے ہوئے اپنے ہنر کی داد اور انعام وصول کرتے ۔

اپنے بچپن کے بعد اس عمر میں آکر یہ بہروپیئے ایک بار پھر دیکھے ہیں اور انتخابات کے دنوں میں دیکھے ہیں، فرق اگر ہے تو صرف اتنا کہ وہ بہروپیئے مفلوک الحال تھے یہ بہروپیئے خاصے خوشحال ہیں وہ خود کو بہروپیا تسلیم کرتے تھے یہ بہروپیا کہلانے سے انکار ی ہیں۔میرا اشارہ سیاسی رہنمائوں کی طرف ہے میں ان دنوں روزانہ ٹی وی خبرنامہ میں ان کے جلسوں کی کوریج دیکھتا، یہ جس علاقے میں جاتے وہاں کے عام آدمی کا روپ دھار لیتے ۔چنانچہ یہ کبھی سندھی ٹوپی اور اجرک اوڑھے دکھائی دیتے ،کبھی پنجاب کی پگ ان کے سروں پر نظر آتی ،کبھی پٹھانوں کا کلاہ ان کے سر پر ہوتا اور کبھی انہوں نے بلوچی لباس زیب تن کیا ہوتا اس نوع کے روپ دھارنے کے بعد بہروپیوں کی طرح یہ بھی ’’مولا خوش رکھے‘‘ کہتے ہوئے عوام سے اپنے ہنر کی داد اور انعام چاہتے، فرق صرف یہ ہے کہ یہ پیسے نہیں ووٹ مانگ رہے ہوتے ہیں کہ یہ بہروپیئے پیسے مانگتے نہیں انتخاب جیتنے کے بعد پیسے بناتے ہیں۔

میں نے ان بہروپیوں کے بہت عجیب روپ دیکھے ہیں ان میں سے ایک پاکستان کا بادشاہ تھا مگر وہ سائیکل پر دفتر آتا تھا۔اس کا سائیکل پر دفتر آنا خود کو عوام میں سے ثابت کرنے کیلئے تھا........

© Daily Jang


Get it on Google Play