کائنات کے صحن میں بکھرے زندگی کے اُجلے سَت رنگے جلوووں اور میلے کچیلے داغ داغ پھٹے پرانے کپڑوں سے بنی چادر تلے زندگی کا احساس پناہ گزین ہے ، درد جس کا سرمایہ اور بے چینی جس کی میراث ہے ، کم نگاہ نہ خود کو دریافت کرتے ہیں نہ اس چادر کو ہٹا کر حیات کا اصل چہرہ دیکھنے کی تگ و دو کرتے ہیں، وہ گہری نیند سوئے شعور کے احترام میں،’’ لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے‘‘ کی سرگوشی کرتے چلے جاتے ہیں،اُن کے آس پاس دِیا بن کے جلتی پِگھلتی اُجالے بانٹتی لو کے سُروں پر رقص کرتی درد کے سانچے میں ڈھلتی زندگی آوازیں دیتی اور اشارے کرتی اپنی سمت بلاتی رہتی ہے مگر بے حسی کی طاقتور غنودگی بصارت اور بصیرت کی کھڑکی کھولنے کی ہمت ہی نہیں دیتی ،بہار کے پھولوں کو کھلتے دیکھنا جتنا مسرور کن ،اتنا ہی بکھرتے اور مرجھاتے دیکھنا درد انگیز کہ اس بکھرنے سنورنے میں ذات بھی سِلتی اُدھڑتی رہتی ہے\۔عام ڈگر پر عام انداز میں دِکھتی زندگی کے بارے میں لفظ لکھ لکھ کر ورق سیاہ کئے جاتے رہتے ہیں مگر مصنوعی لفظ اور گھڑے ہوئے ظاہری منظر تک محدود خیالی کردار دھڑکن اور درد سے بے نیاز ہوتے ہیں، پس پشت اُلجھنوں اور سلوٹوں کے پار کی اصلیت دیکھنے اور کہانی کی صورت لکھنے والے دیر سے پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کی گونج صدیوں سنائی دیتی رہتی ہے۔معاشرے کا اصل چہرہ دکھانے اور سچ لکھنے کا جو سلسلہ منٹو نے شروع کیا وہ اسی پر کیوں رُک گیا، وقت نے یہ سوال بارہا ادب کی درگاہوں پر تمکنت سے براجمان مجسموں کی سمت اچھالا مگر ہربار خود نمائی کے آئینوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا ۔ میرے خیال میں وہ سلسلہ اس لئے آگے نہ بڑھ سکا کہ خیالی کہانی بُننا آسان تر ہوتا ہے، کردار اور انجام قلم کے تابع ہوتا ہے مگر حقیقت کو افسانے میں ڈھالنے کیلئے جوگ لینا پڑتا ہے، جتن کرنے پڑتے ہیں اور معنی کے کڑوے ذائقوں کے گرد لفظوں کی ڈھال بنانی پڑتی ہے، یہ سب ہم پر جہانِ روشن کے عمیق مطالعے کے بعد کُھلا کہ سرسری نگاہ ان افسانوں کو پڑھنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، تحریر کے ساتھ مخلص ہونا پہلی شرط ہے، دھیان کو مصنف کی فکر اور تخیل کے ساتھ باندھ کے رکھنا پڑتا ہے ورنہ ایک پیرا گراف نہیں ایک جملہ بے دھیانی کی نذر ہو گیا تو کہانی کا لطف بھی ادھورا اور حاصل وصول بھی۔ عمر عادل وہ ہرفن مولا فرد ہے جو پردے کے پیچھے دیکھنا، محسوس کرنا اور ان کو اظہار کے قابل بنانا جانتا ہے، مجھ پرکئی سال سے یہ راز کُھل چکا تھا کہ اُس کے دل و دماغ میں معلومات اور گیان کے کئی صندوق دھرے ہیں،اسلئے اکثر اسے اِن کی تحریری شکل میں نمائش پر قائل کرنے کی کوشش کرتی رہتی تھی مگر وہ ہربار ٹال جاتا تھا، کیونکہ مشکل سفر شروع کر چکا تھا جہاں پھونک پھونک کر حرف لکھا اور لفظ بنایا جاتا ہے۔ جہانِ روشن کی کہانیاں ایک ایسی دنیا کے بارے میں ہیں جہاں اُجلے چہرے اورکھنکتی مٹی دیکھی جاتی ہے، میک اپ کی تہہ کے نیچے چھپائے کرب اور کرچی کرچی احساس نہیں ،دوسروں کی نیندوں کو معطر کرنے والے خواب فروشوں کو خود خواب دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی، دوسروں کے جذبات ابھارنے والوں کے اپنے احساسات بنجر رہ جاتے ہیں۔ خوشبوئیں بانٹنے والوں کو اُجرت میں بدبوؤں کے بھبھکے وصول کرنا پڑتے ہیں ،مجبوریوں اور سمجھوتوں کی بے اعتبار رہگزر پر کُچلی تمناوں پر پاؤں رکھ کر بے رحم رشتوں کا بوجھ اٹھائے تھکے ہارے، معصومیت سے استحصال کی طرف گامزن کرداروں سے مل کر احساس ہوا کہ اب تک انکے بارے میں تمام تر رسائی سینما کی سکرین کی حد تک تھی، کن مرحلوں سے گزر کر کہانی فلم میں ڈھلی اس کے بارے میں بھی پتہ چل ہی جاتا ہے مگر فلم کے دوران کس پر کیا بیتی یہ نہیں کُھلتا۔مادی خواہشات اور شہرت کے حصول کے لئےکریہہ اور شاطر تاجروں کے ہاتھوں بدن کی مٹی کی بے توقیری پر کئی بار میرے آنسو چھلکے، دل ڈگمگایا اور روح سسکی خوبصورت جملوں، شرارتی بیانیے اور مزاحیہ چٹکلوں نے ماحول کو کھلکھلا دیا ،ایک بات میں بہت وثوق سے کہنا چاہتی ہوں کہ ڈاکٹر عمر عادل نے جس فنکارانہ مہارت سے معاشرے کے سچ کو دکھایا اور سمجھایا ہے اس نے اسے منٹو سے اگلی منزل عطا کردی ہے ، کیونکہ ان کہانیوں کا جمالیاتی اور فکری رنگ بہت منفرد اور وسیع تر معنی کا متحمل ہے، اردو افسانوں میں پنجابی کی دلکش ملاوٹ، شوخی شرارت، ہنسی مزاح،عمدہ جملوں کی سحرانگیزاثرانگیزی، ڈرامائی تاثر قاری کی توجہ باندھے رکھتا ہے، تلاشے لفظوں کے پیوند لگانے کی بجائے کرداروں کی نفسیات کی عکاسی کرتی زبان برتی گئی ہے لیکن جہاں معاملے کو رمز اور علامت میں بیان کرنے کی ضرورت پڑی وہ ذومعنی لفظ بَرتے کہ راز بھی کھل گیا اور تحریر کا بھرم بھی قائم رہااس کتاب میں بہت کچھ ایسا ہے جو کالم میں لکھا نہیں جا سکتا اسلئے جہانِ روشن خریدئیے اور پہلے تحریر کا لطف لیجئے اور پھر اس آئینے میں سماج کا چہرہ دیکھئے۔

ایئر کموڈور ایم ایم عالم نے 1965 کی جنگ میں 1 منٹ سے بھی کم وقت میں بھارتی فضائیہ کے 5 جیٹ طیاروں کو مار گرایا تھا۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ریکارڈ پانچویں بار صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرلی ہے۔

پولیس کے مطابق آنسو گیس کے شیل کافی پرانے ہیں اور ان کی تعداد 40 سے زائد ہے۔

آئی ایم ایف مشن کا 18 مارچ تک پاکستان میں قیام شیڈول ہے، ضرورت پڑنے پر مذاکرات میں ایک دن کی توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔

امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر وہ صدر منتخب نہ ہوئے تو خونریزی ہوگی۔

کراچی کے علاقے گھگھر پھاٹک کے قریب واٹر بورڈ کی لائن میں بچی گرگئی، تلاش کے لیے ریسکیو حکام نے آپریشن شروع کیا لیکن بچی نہیں مل سکی۔

ایلیسا پیری کی ہٹ سے نمائش میں رکھی کار کا شیشہ ٹوٹا اور کمپنی نے وہ شیشہ فریم کروا کے ایلیسا کو تحفے میں دے دیا۔

ترجمان رینجرز نے بتایا کہ ملزمان اور برآمد شدہ سامان کسٹمز حکام کے حوالے کردیا گیا ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اکلوتا جوان بیٹا وطن پر قربان ہوگیا، باپ کاحوصلہ ہمالیہ سے بھی بلند ہے۔ اسلام آباد سے جاری بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ 25 کروڑ کی یہ قوم اس باپ کا مل کر بھی احسان نہیں اتار سکتی۔

شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں شہید ہونے والے افسران اور جوانوں کومکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز آج کوٹ لکھپت جیل پہنچیں اور قیدیوں کے ساتھ روزہ افطار کیا۔

وفاقی وزیر احسن اقبال نے تمام سیاسی جماعتوں سے قومی مقصد کےلیے تعاون مانگ لیا۔

وفاقی وزیر اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ رواں سال کے اختتام تک مایوسی کے بادل چھٹ چکے ہوں گے۔

گزشتہ برس دسمبر میں ریلیز ہونے والی فلم اینیمل میں زویا کا کردار ادا کرنے والی بالی ووڈ اداکارہ ترپتی دمری نے کہا ہے کہ ایک پر اعتماد عورت سے زیادہ کچھ بھی خوبصورت نہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ 15مارچ کو پی آئی اے ایئر ہوسٹس کی ڈیوٹی اسلام آباد ٹورانٹو پرواز پی کے 781 پر تھی۔

رمضان کے پہلے ہفتے میں مسجد نبویؐ میں آنے والے زائرین کی تعداد 50 لاکھ سے زائد ہوگئی۔

QOSHE - ڈاکٹر صغرا صدف - ڈاکٹر صغرا صدف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر صغرا صدف

17 0
18.03.2024

کائنات کے صحن میں بکھرے زندگی کے اُجلے سَت رنگے جلوووں اور میلے کچیلے داغ داغ پھٹے پرانے کپڑوں سے بنی چادر تلے زندگی کا احساس پناہ گزین ہے ، درد جس کا سرمایہ اور بے چینی جس کی میراث ہے ، کم نگاہ نہ خود کو دریافت کرتے ہیں نہ اس چادر کو ہٹا کر حیات کا اصل چہرہ دیکھنے کی تگ و دو کرتے ہیں، وہ گہری نیند سوئے شعور کے احترام میں،’’ لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے‘‘ کی سرگوشی کرتے چلے جاتے ہیں،اُن کے آس پاس دِیا بن کے جلتی پِگھلتی اُجالے بانٹتی لو کے سُروں پر رقص کرتی درد کے سانچے میں ڈھلتی زندگی آوازیں دیتی اور اشارے کرتی اپنی سمت بلاتی رہتی ہے مگر بے حسی کی طاقتور غنودگی بصارت اور بصیرت کی کھڑکی کھولنے کی ہمت ہی نہیں دیتی ،بہار کے پھولوں کو کھلتے دیکھنا جتنا مسرور کن ،اتنا ہی بکھرتے اور مرجھاتے دیکھنا درد انگیز کہ اس بکھرنے سنورنے میں ذات بھی سِلتی اُدھڑتی رہتی ہے\۔عام ڈگر پر عام انداز میں دِکھتی زندگی کے بارے میں لفظ لکھ لکھ کر ورق سیاہ کئے جاتے رہتے ہیں مگر مصنوعی لفظ اور گھڑے ہوئے ظاہری منظر تک محدود خیالی کردار دھڑکن اور درد سے بے نیاز ہوتے ہیں، پس پشت اُلجھنوں اور سلوٹوں کے پار کی اصلیت دیکھنے اور کہانی کی صورت لکھنے والے دیر سے پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کی گونج صدیوں سنائی دیتی رہتی ہے۔معاشرے کا اصل چہرہ دکھانے اور سچ لکھنے کا جو سلسلہ منٹو نے شروع کیا وہ اسی پر کیوں رُک گیا، وقت نے یہ سوال بارہا ادب کی درگاہوں پر تمکنت سے براجمان مجسموں کی سمت اچھالا مگر ہربار خود نمائی کے آئینوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا ۔ میرے خیال میں وہ سلسلہ اس لئے آگے نہ بڑھ سکا کہ خیالی کہانی بُننا آسان تر ہوتا ہے، کردار اور انجام قلم کے تابع ہوتا ہے مگر حقیقت کو افسانے میں........

© Daily Jang


Get it on Google Play