وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں شامل وفاقی وزراء کے حلف اٹھانےکے بعد حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہو گیاہے۔ اب نئی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ مزید وقت ضائع کئے بغیر معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے واضح اہداف طے کر کے ان کے حصول کیلئے مصروف عمل ہو جائے۔ اگرچہ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ پاکستان کو درپیش معاشی بحران کو حل کرنا ان کی اولین ترجیح ہے۔ اس بات کا اعادہ انہوں نے وزیر اعظم کے منصب کا حلف اٹھانے کے چند گھنٹے بعد اپنی صدارت میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ کہہ کر بھی کیا تھا کہ انہیں معیشت میں اصلاحات کا مینڈیٹ ملا ہے۔ تاہم اب ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ان زبانی وعدوں کو عمل شکل میں ڈھالنے کا فوری آغاز کر دیں۔

اس سلسلے میں ابتک سامنے آنے والی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا سرمایہ کاری کو فروغ دینے، ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے اور برآمدات بڑھانےکیلئے ویلیو ایڈیشن کو فروغ دینے کے نکات پر توجہ دے رہی ہے۔ علاوہ ازیں قومی خزانے پر بوجھ بننے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کے ساتھ ساتھ بینکوں اور مالیاتی اداروں کو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دینے کے پروگرام شروع کرنے کی بھی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ تاہم یہ وہ اقدامات ہیں جن کے بارے میں ماضی کی حکومتیں بھی بلندبانگ دعوے کرتی رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بلند ترین مارک اپ کی شرح اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ہر قسم کی انڈسٹری اور کاروبار شدید مندی کا شکار ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پہلے سے چلنے والی فیکٹریاں اور ملیں پیداواری لاگت بڑھنے کی وجہ سے بند ہو رہی ہوں نئی سرمایہ کاری کہاں سے آئے گی۔

حکومتی زعما کو یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ صنعتیں مسلسل بجلی کی فراہمی پر زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ ایسے میں اگر بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافے کا سدباب نہیں کیا جاتا تو کسی بھی انڈسٹری کیلئے مینوفیکچرنگ جاری رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس طرح توانائی کا یہ بحران سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان میں طویل المدتی منصوبوں پر کام کرنے سے روکتا ہے۔ موجودہ حالات میں وہ صنعتیں جن کو توانائی کی مستحکم فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے، جیسا کہ بھاری مینوفیکچرنگ اور ٹیکنالوجی کے شعبے، وہاں سرمایہ کار قیمتوں میں غیر متوقع اضافے کی وجہ سے سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہموار سپلائی چین آپریشن پر انحصار کرنے والی صنعتیں بھی توانائی کی قیمتوں میں ناہمواری کی وجہ سے متاثر ہوتی ہیں۔ اس وقت نقل و حمل اور لاجسٹکس کے اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ خام مال کی ترسیل اور تیار مصنوعات کی ڈسٹری بیوشن بھی ایک چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ اس لئے اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ پہلے سے لگی ہوئی صنعتیں چلتی رہیں اور مقامی و غیر ملکی سرمایہ کار مینوفیکچرنگ کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کریں تو اس کیلئے ضروری ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کو معاشی پالیسی کا بنیادی نکتہ بنایا جائے۔ اس بحران سے نمٹنا صنعتی شعبے کی بحالی اور ملک میں پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دینےکیلئےبہت ضروری ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بینکوں کی طرف سے مارک اپ میں اضافے کی وجہ سے بھی صنعتی عمل اور معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔ ایک طرف بینک مارک اپ میں اضافے کی وجہ سے سالانہ اربوں روپے کا اضافی منافع حاصل کر رہے ہیں اور دوسری طرف انڈسٹری کو ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر اور’’زیرو ریٹنگ‘‘ کی سہولت ختم ہونے کی وجہ سے سرمائے کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں بینکوں کوتنبیہ کرکے اچھا اقدام کیا ہے لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مارک اپ کی شرح کو دوبارہ سنگل ڈیجٹ پر لانے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ مارک اپ کی بلند شرح کے باعث کاروباری اداروں کو بینکوں اور مالیاتی اداروں سے حاصل کردہ قرضوں اور کریڈٹ سہولتوں پر زیادہ سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب مارک اپ میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے بڑی صنعتوں کے ساتھ ساتھ اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز بھی متاثر ہوتی ہیں اور عام صارفین کی قوت خرید بھی کم ہو جاتی ہے۔ اس لئے انڈسٹری میں نئی سرمایہ کاری رک جاتی ہے جبکہ عام شہریوں کی طرف سے گھر، ذاتی سواری، بچوں کی تعلیم اور دیگر ضروریات پر اخراجات کم ہو جاتے ہیں۔

علاوہ ازیں برآمدات بڑھانےکیلئے ویلیو ایڈیشن کو فروغ دینے کی باتیں بھی گزشتہ حکومتوں کی طرف سے ہوتی رہی ہیں لیکن عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنے خطے کے دیگر ممالک سے بھی بہت پیچھے ہے۔ اس وقت ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں جن موضوعات پر تحقیق ہو رہی ہے ان میں سے زیادہ تر کا موضوع انڈسٹری کو درپیش مسائل اور ان کا حل ہونا چاہیے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس حوالے سے صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اسی طرح حکومتی سطح پر قائم ادارے بھی صرف خانہ پری اور ڈنگ ٹپائو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی ملک کی ترقی کی بنیاد اس کی برآمدات ہوتی ہیں اس لئے معاشی پالیسی کا بنیادی محور یہی ہونا چاہیے کہ برآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکے۔

مسلم لیگ ن کی رہنما سائرہ افضل تارڑ مخصوص نشست پر ایم این اے منتخب ہوگئیں، ضلع حافظ آباد میں خواتین ایم این ایز کی تعداد تین ہوگئی ہے۔

سیہون کے نواحی گاؤں کرم پور میں پاگل کتوں کی بہتات، 12 گھنٹوں میں پاگل کتوں کے حملے میں 7 بچے زخمی ہوگئے۔

سیاسی اختلافات اپنی جگہ حافظ نعیم الرحمٰن میرے بڑے ہیں، مرتضیٰ وہاب

زلزلے کا مرکز خضدار سے 72 کلومیٹر شمال مشرق میں تھا۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ بچہ جس مین ہول میں گرا اس کا ڈھکن حال ہی میں ٹوٹا۔

20 مارچ 2024 کو آٹھ دہشت گردوں کے ایک گروہ نے گوادر میں پورٹ اتھارٹی کالونی میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے کامیابی سے ناکام بنادیا، آئی ایس پی آر

برطانیہ میں مہنگائی بڑھنے کی شرح ڈھائی برس کی کم ترین سطح پر آگئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی سی بی کے مائیک ہیسن، جسٹن لینگر اور گیری کرسٹن سے رابطے ہوئے ہیں۔

9 مئی کے مقدمات میں اشتہاری شخص ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے، وزیر اطلاعات پنجاب

سی ای او ریلویز کا مزید کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی تو ہم بھی عید پر کرائے کم کریں گے۔

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کو پارلیمنٹ بلانے پر وضاحت کردی۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) آئی جی سندھ کی تقرری کے معاملے پر آمنے سامنے آگئیں۔

جاوید اختر اور سلیم خان کی جوڑی سلیم-جاوید کے نام سے مشہور تھی، جس نے کئی نامور فلمیں لکھیں جن میں شعلے، زنجیر، دیوار، ڈان اور نام جیسے بلاک بسٹر فلمیں شامل ہیں۔

خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وفاقی حکومت کو دھمکی دے دی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے قوم سے جھوٹ بولا تھا۔

متاثرہ خاتون کا موقف ہے کہ 15 سال سے گھر میں ملزم ہیں، چوری نہیں کی۔

QOSHE - چوہدری سلامت علی - چوہدری سلامت علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

چوہدری سلامت علی

11 12
21.03.2024

وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں شامل وفاقی وزراء کے حلف اٹھانےکے بعد حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہو گیاہے۔ اب نئی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ مزید وقت ضائع کئے بغیر معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے واضح اہداف طے کر کے ان کے حصول کیلئے مصروف عمل ہو جائے۔ اگرچہ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ پاکستان کو درپیش معاشی بحران کو حل کرنا ان کی اولین ترجیح ہے۔ اس بات کا اعادہ انہوں نے وزیر اعظم کے منصب کا حلف اٹھانے کے چند گھنٹے بعد اپنی صدارت میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ کہہ کر بھی کیا تھا کہ انہیں معیشت میں اصلاحات کا مینڈیٹ ملا ہے۔ تاہم اب ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ان زبانی وعدوں کو عمل شکل میں ڈھالنے کا فوری آغاز کر دیں۔

اس سلسلے میں ابتک سامنے آنے والی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا سرمایہ کاری کو فروغ دینے، ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے اور برآمدات بڑھانےکیلئے ویلیو ایڈیشن کو فروغ دینے کے نکات پر توجہ دے رہی ہے۔ علاوہ ازیں قومی خزانے پر بوجھ بننے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کے ساتھ ساتھ بینکوں اور مالیاتی اداروں کو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دینے کے پروگرام شروع کرنے کی بھی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ تاہم یہ وہ اقدامات ہیں جن کے بارے میں ماضی کی حکومتیں بھی بلندبانگ دعوے کرتی رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بلند ترین مارک اپ کی شرح اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ہر قسم کی انڈسٹری اور کاروبار شدید مندی کا شکار ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پہلے سے چلنے والی فیکٹریاں اور ملیں پیداواری لاگت بڑھنے کی وجہ سے بند ہو رہی ہوں نئی سرمایہ کاری کہاں سے آئے گی۔

حکومتی زعما کو یہ بات ذہن نشین کرنے........

© Daily Jang


Get it on Google Play