میں ایک اشتہار بچپن سے آج تک دیکھتا چلا آرہا ہوں ’’کمزور حضرات متوجہ ہوں‘‘ مجھے بچپن میں صحیح طور سے اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ اس اشتہار کا مطلب کیا ہے چنانچہ میں اپنے دبلے پتلے اور کمزور سے نظر آنے والے دوستوں کو اس اشتہار کا مخاطب سمجھا کرتا تھا ۔میں ان دنوں وزیر آباد میں گورو کوھٹھے کے پاس واقع مجید پہلوان کے اکھاڑے میں ڈنڈ پیلنے اور اپنے دوستوں کے ساتھ کشتیاں کرنے بھی جایا کرتا تھا میں جب کبھی چت ہو جاتا تو مجھے لگتا اس اشتہار کا مخاطب میں بھی ہوں چنانچہ ایک دو دفعہ میں نے اشتہار میں درج ایڈریس پر جانے کا ارادہ بھی کیا اور میں نے مجید پہلوان کو اپنے ارادے سے مطلع کیا تو وہ بری طرح ہنسنے لگا تھوڑی دیر بعد وہ سنجیدہ ہو گیا اور اس نے میرے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا برخوردار تمہیں وہاں جانے کی ضرورت نہیں اور نہ کبھی ضرورت پڑے گی بس روزانہ ڈنڈ بیٹھکیں نکالو اور سردائی پیتے رہو‘‘

پھر جب میں تھوڑا سا اور بڑا ہوا تو میں نے سوچا کسی دانا شخص سے اس اشتہار کا مطلب پوچھنا چاہئے ۔چنانچہ میں ماسٹر رحمت کے پاس گیا تھوڑی دیر پہلے ان کے شاگرد خاص ساجد سونڈی نے ان کے لئے حقہ تازہ کیا تھا اب وہ تہبند باندھے چارپائی پہ بیٹھے حقے کے کش لگا رہے تھے میں نے ان سے پوچھا ’’ماسٹر جی کمزور حضرات کون ہوتے ہیں بولے کمزور وہ ہوتے ہیں جو خود کو کمزور سمجھتے ہیں مجھے ان کی یہ بات کچھ خاص سمجھ نہ آئی لیکن اس سلسلے میں کوئی مزید سوال مناسب نہیں تھا کیونکہ اس کے بعد جواب ماسٹر رحمت کی بجائے ان کا ’’مولا بخش‘‘ دیا کرتا تھا ۔لاہور آکر کالج میں داخلہ لیا تو یہ اشتہار شہر کی ہر دیوار پر نظر آنے لگا اور یوں میرے تجسس میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا ایک دن میں نے اپنے کالج کے ایک پروفیسر صاحب سے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا کہ سر یہ کمزور حضرات کون ہوتے ہیں ’’بولے‘‘ جو ذاتی وجوہات کی بنا پر امن کا نعرہ لگائیں ‘‘ مجھے پروفیسر صاحب کا جواب پسند نہ آیا کیونکہ اس کی زد میں ،میں خود آتا تھا۔صرف ایک روز پہلے میرے ایک کلاس فیلو نے مجھے پوری کلاس کے سامنے گالیاں دی تھیں اور میرے گریبان پر بھی ہاتھ ڈالا تھا مگر میں بظاہر خود کو امن پسند ثابت کرنے کیلئے خاموش رہا ۔دوستوں نے میری اس خاموشی کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا ’’میں نے یونین کے الیکشن میں بطور صدارتی امیدوار کھڑے ہونا ہے مجھے اس بدتمیز شخص کی الیکشن میں ضرورت پڑے گی۔‘‘

یونیورسٹی کے زمانے میں بھی یہ اشتہار شہر کے درودیوار اور اخباروں میں بہت نمایاں طور پر نظر آیا، اس عرصے میں میرے تجسس میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا میں نے سوچا اس دفعہ اس حوالے سے کسی اور طبقے کے نمایاں فرد سے رائے لینا چاہئے چنانچہ میں ایک اخبار کے چیف رپورٹر کے پاس گیا اور پوچھا ’’جناب کمزور حضرات کون ہوتے ہیں ’’بولے ’’جو حکومت یا طاقتور طبقوں کا دبائو برداشت نہ کرسکیں‘‘ مگر میں مطمئن نہ ہوا پھر میں نے مسلسل مختلف طبقوں کے سرکردہ افراد سے رائے لینا شروع کر دی ۔ایک دانشور نے کہا ’’کمزور حضرات وہ ہوتے ہیں جن کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی چنانچہ ان اندھی توپوں کا رخ بوقت ضرورت کسی بھی طرف موڑا جا سکتا ہے‘‘ ایک سیاسی کارکن کا کہنا تھا ’’کمزور حضرات کی نشانی یہ ہے کہ وہ صرف طاقتور کے ساتھ ہوتے ہیں جب ایک طاقت کے سوتے خشک ہوتے ہیں تو وہ فوراً اس کی جگہ لینے والی دوسری طاقت کی پناہ میں چلے جاتے ہیں ‘‘ ایک جہادی جماعت کے رہنما نے کہا ’’وہ جہاد سے بچنے کے لئے جہاد اکبر کا نعرہ لگانے لگتے ہیں‘‘ایک حکیم صاحب نے کہا ’’بہت زیادہ کھانے سے ان کا معدہ خراب ہو جاتا ہے اور پھر وہ کمزور ہوجاتے ہیں ‘‘ اپنے سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں اور مجھے ابھی تک اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا، ایک صاحب نے اس کا جواب دیا لیکن میں اس سے بھی مطمئن نہیں ہوں چنانچہ آخر میں ،میں چاہوں گا کہ کمزور حضرات میں سے کوئی صاحب خود بتائیں کہ اس سے کیا مراد ہے وہ بتانے سے جھجکیںنہیں ان کی گفتگو صیغہ راز رکھی جائے گی!

آخر میں اپنے شعری کلیات ملاقاتوں کے بعد میں سےایک غزل:

بلا کے صبح کو خوش رنگیاں سنائی گئیں

ہوئی جو شام تو ویرانیاں دکھائی گئیں

میں جانتا ہوں کہ اس ایک شخص کی خاطر

کہاں کہاں سے یہ آسانیاں لائی گئیں

مجھے تو یاد نہیں شکل اپنے منصف کی

مجھے تو یاد سزائیں ہیں جو سنائی گئیں

ہمارے بچوں کا پرسان حال کوئی نہ تھا

ہماری یاد میں شمعیں بہت جلائی گئیں

پڑا جو کام تو پائوں میں آکے بیٹھ گے

پھر اس کے بعد تو آنکھیں نہیں ملائی گئیں

بنا کے کشتیاں کاغذ کی شاہزادوں نے

ہمارے واسطے طغیانیوں میں لائی گئیں

ہماری دنیا کو دوزخ بنا دیا اور پھر

زمین پہ اپنے لئے جنتیں بسائی گئیں

خدا کے نام پہ ہم نے بسائی جو بستی

خدا کے نام پہ واں بستیاں جلائی گئیں

حقیقتوں کو چھپانے کی کاوشوں میں عطاء

کہانیاں ہمیں کیا کیا نہیں سنائی گئیں

مکہ مکرمہ میں تیز رفتار گاڑی افطار دسترخوان پر بیٹھے افراد پر چڑھ گئی، ایک شخص جاں بحق 21 زخمی ہوگئے۔

ایس ایس پی راجہ عرفان سلیم نے برٹش فیملیز لوٹنے والے خطرناک گروہ کو پکڑا تھا۔

کراچی میں ایک سو کی تعداد میں 100 منزلہ عمارتوں کے لیے بھی کام کا آغاز کیا جائے گا، کامران ٹیسوری

رپورٹس کے مطابق یہ درخواستیں آئندہ مالی سال کے لیے 6 بجلی تقسیم کار کمپنیوں نے جمع کرائی ہیں۔

پاک بحریہ، پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی (پی ایم ایس اے) اور کسٹمز نے مشترکہ آپریشن کرکے تقریباً 146 ملین روپے کی4000 سے زائد شراب کی بوتلیں ضبط کرلیں۔

پی ایم ایس اے کے جہاز کا بھارتی ماہی گیروں کی کشتیوں سے آمنا سامنا ہوا۔

گوہر اپنے شوہر زید دربار کے ہمراہ اس وقت مکہ مکرمہ میں عمرہ کی ادائیگی کےلیے موجود ہیں۔

ایسا شاید ہونا تھا، لڑکیاں کہتی تھیں "میں درمیان میں ہوں، مجھے آگے رہنا ہے"، تو ایسا ہوا، بھارتی اداکارہ

فلم کی کہانی ایک عام آدمی کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔

4 ماہ قبل ملزم کی خاتون کے ساتھ نازیبا حرکت کرنے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

گزشتہ برس پی ایس ایل کے دوران ویمن ٹیموں کے تین میچز ہوئے تھے، اس مرتبہ ویمن میچز کا کیا ہوا؟ سابق کپتان

مرکزی بینک کے مطابق 15 مارچ کو ختم ہوئے ہفتے تک ملکی زرمبادلہ ذخائر 13 ارب 39 کروڑ ڈالر رہے۔

میئر کراچی نے کہا کہ 8 کروڑ کی لاگت سے اورنگی ٹاؤن میں گلیوں کو پختہ کیا جائے گا۔

حصص بازار میں آج 38 کروڑ 96 لاکھ شیئرز کے سودے ہوئے جن کی مالیت 11 ارب 38 کروڑ روپے سے زائد رہی۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کل اسرائیل جائیں گے۔

QOSHE - عطا ء الحق قاسمی - عطا ء الحق قاسمی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

عطا ء الحق قاسمی

36 1
22.03.2024

میں ایک اشتہار بچپن سے آج تک دیکھتا چلا آرہا ہوں ’’کمزور حضرات متوجہ ہوں‘‘ مجھے بچپن میں صحیح طور سے اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ اس اشتہار کا مطلب کیا ہے چنانچہ میں اپنے دبلے پتلے اور کمزور سے نظر آنے والے دوستوں کو اس اشتہار کا مخاطب سمجھا کرتا تھا ۔میں ان دنوں وزیر آباد میں گورو کوھٹھے کے پاس واقع مجید پہلوان کے اکھاڑے میں ڈنڈ پیلنے اور اپنے دوستوں کے ساتھ کشتیاں کرنے بھی جایا کرتا تھا میں جب کبھی چت ہو جاتا تو مجھے لگتا اس اشتہار کا مخاطب میں بھی ہوں چنانچہ ایک دو دفعہ میں نے اشتہار میں درج ایڈریس پر جانے کا ارادہ بھی کیا اور میں نے مجید پہلوان کو اپنے ارادے سے مطلع کیا تو وہ بری طرح ہنسنے لگا تھوڑی دیر بعد وہ سنجیدہ ہو گیا اور اس نے میرے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا برخوردار تمہیں وہاں جانے کی ضرورت نہیں اور نہ کبھی ضرورت پڑے گی بس روزانہ ڈنڈ بیٹھکیں نکالو اور سردائی پیتے رہو‘‘

پھر جب میں تھوڑا سا اور بڑا ہوا تو میں نے سوچا کسی دانا شخص سے اس اشتہار کا مطلب پوچھنا چاہئے ۔چنانچہ میں ماسٹر رحمت کے پاس گیا تھوڑی دیر پہلے ان کے شاگرد خاص ساجد سونڈی نے ان کے لئے حقہ تازہ کیا تھا اب وہ تہبند باندھے چارپائی پہ بیٹھے حقے کے کش لگا رہے تھے میں نے ان سے پوچھا ’’ماسٹر جی کمزور حضرات کون ہوتے ہیں بولے کمزور وہ ہوتے ہیں جو خود کو کمزور سمجھتے ہیں مجھے ان کی یہ بات کچھ خاص سمجھ نہ آئی لیکن اس سلسلے میں کوئی مزید سوال مناسب نہیں تھا کیونکہ اس کے بعد جواب ماسٹر رحمت کی بجائے ان کا ’’مولا بخش‘‘ دیا کرتا تھا ۔لاہور آکر کالج میں داخلہ لیا تو یہ اشتہار شہر کی ہر دیوار پر نظر........

© Daily Jang


Get it on Google Play