گزشتہ دو سال سے، اسلام آباد مسلسل مطالبہ کرتا رہا ہے کہ کابل حکومت تحریک طالبان پاکستان کو لگام دے۔انہیں پاکستانی فوجیوں اور شہریوں پر حملے کرنے سے روکنےکیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرےیااس کے خلاف کارروائی کرے۔اس مطالبے پر طالبان حکومت کا ردعمل کچھ ایسا رہا کہ ٹی ٹی پی کی الٹا حوصلہ افزائی ہوئی۔ہفتے کے روز، ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھرا ٹرک شمالی وزیرستان کے ضلع میں فوجی چوکی سے ٹکرا دیا، جس میں ہمارےسات فوجی شہید ہو ئے۔ اس حملے کی ذمہ داری جیشِ فرقانِ محمد گروپ نے قبول کی اس تنظیم میں کچھ ٹی ٹی پی کے ارکان ہیں کچھ افغان طالبان ۔پاکستان نے جوابی کارروائی فضائی حملے سے کی ۔اپنی فورسز اس لئے نہیں بھیجیں کہ کابل یہ نہ سمجھے کہ پاکستان نے افغانستان پرباقاعدہ حملہ کردیا ہے۔یہ حملہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں انٹیلی جنس پر مبنی انسداد دہشت گردی کی کارروائی تھی۔پاکستان کی سب سے بڑی تشویش دہشت گرد گروہوں، خاص طور پر ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیموں سےہے، جن کی افغانستان کے اندر محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور انہوں نے پاکستانی سرزمین کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ بہر حال پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کا استعمال اب پاکستان کیلئےناقابل برداشت ہوچکا ہے ، صبر کی کوئی حد ہوتی ہے۔افغان سرحد کیساتھ سیکورٹی کی صورتحال کافی عرصہ سےناگفتہ بہ ہےاور افغان حکومت ہمیشہ پاکستان سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کیلئے وقت مانگتی رہی ہےجو ایک بہانے کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔"

تحریک طالبان پاکستان، افغان طالبان کی پاکستان میں ایک مددگار تنظیم کے طور سامنے آئی اور اس نے افغان امریکہ جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر پاکستانی ریاست کے خلاف ایک قاتلانہ مہم شروع کی۔ جس کا آغاز خود کش دھماکوں سے ہوا۔ اس تنظیم نے پاکستان بھر میں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ اس نےسب سے مہلک حملہ پشاور کے اسکول پر کیا جس میں تقریباً ڈیڑھ سوکے قریب لوگ شہید ہوئے تھے جن میں زیادہ تر بچے تھے۔ ان دہشت گردحملوں میں ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ برسوں میں ٹی ٹی پی کے خلاف کئی فوجی آپریشن کیے مگر یہ لوگ ہمیشہ افغانستان بھاگ گئے اور افغان طالبان انہیں پناہ فراہم کرتے رہے۔ بے شک موجودہ کارروائی کے سبب افغان طالبان ناراض ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں سپر پاورز کے خلاف لڑنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔ ہم کسی کو بھی اپنی سرزمین پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے مگر ہم ٹی ٹی پی کے خطرے کو مزید نظر انداز نہیں کر سکتے۔ بے شک اس وقت عوام اور افواج پاکستان عمران خان کے مسئلہ پر ایک پیج پر نہیں ہیں مگر دہشت گردی کے معاملہ پر پورا پاکستان افواج پاکستان کے ساتھ ہے عمران خان تک۔ ہم نے افغانستان کے لوگوں کا بہت احترام کیا، ہر مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دیا مگر اس وقت کابل حکومت ٹی ٹی پی کی سرپرستی فرما رہی ہے۔ اسے اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ بیگناہ پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کا ساتھ دے گی یا پاکستانی عوام کا۔اب اسے واضح طور پرانتخاب کرنا ہو گا۔ اب دونوں طرف کھیلنا ممکن نہیں رہا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستانیوں کی ایک دہشت گرد تنظیم ہےتو پھر ہر دھماکے کے پیچھے افغانی ہی کیوں نکلتے ہیں۔کسی درگاہ پہ دھماکہ ہو نقش ِ پا افغانیوں کے ملتے ہیں۔کسی امام بارگاہ میں دھماکہ ہو تفتیش افغانیوں تک جا پہنچتی ہے۔کسی بازار میں دھماکہ ہو پیچھے سے افغانی برآمدہوتا ہے۔کسی سیکورٹی ادارے پر حملہ ہو پیچھے کوئی افغانی دکھائی دیتا ہے۔کسی فوجی چیک پوسٹ پر حملہ ہو پیچھے افغانی نکلتا ہے۔یہی بات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ افغان عبوری حکومت نہ صرف دہشت گردوں کو اسلحہ مہیاکر رہی ہےبلکہ انہیں محفوظ پناہ گاہیں اور پاکستان میں داخل ہونے کے محفوظ راستے بھی فراہم کرتی ہے ۔یعنی وہ پوری طرح پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے۔

میں نےچار اگست دوہزار تیئس کو اپنے کالم میں لکھا تھا۔’’افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان دونوں ایک پیج پر ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد دونوں نے طریقہ کار بدل لیا ہے۔ انہیں اپنے آقائوں نے ’’دروغ مصلحت آمیز‘‘ کا سبق رٹا دیا ہے۔ یعنی اب وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ۔ سو پاکستان کے پاس اور کوئی حل نہیں۔ کراچی سے ازبکستان کی سرحد تک ایک وسیع و عریض آپریشن کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو چن چن کر ختم کرنا ہماری قومی سلامتی کیلئے ناگزیر ہوگیا ہے‘‘۔

سو میں، افواج پاکستان نےافغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جو کارروائیاں کی ہیں، اس پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ساتھ درخواست گزار ہوں کہ جب تک ان دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہوتا ان کارروائیوں کو جاری رہنا چاہئے اور اگر افغان طالبان راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں بھی سبق سکھانا چاہئے۔ اسی میں ہم سب کی بقا ہے ۔اسی میں پوری دنیا کی سلامتی ہے۔ اسی میں دینِ حق کی فتح ہے۔

مکہ مکرمہ میں تیز رفتار گاڑی افطار دسترخوان پر بیٹھے افراد پر چڑھ گئی، ایک شخص جاں بحق 21 زخمی ہوگئے۔

ایس ایس پی راجہ عرفان سلیم نے برٹش فیملیز لوٹنے والے خطرناک گروہ کو پکڑا تھا۔

کراچی میں ایک سو کی تعداد میں 100 منزلہ عمارتوں کے لیے بھی کام کا آغاز کیا جائے گا، کامران ٹیسوری

رپورٹس کے مطابق یہ درخواستیں آئندہ مالی سال کے لیے 6 بجلی تقسیم کار کمپنیوں نے جمع کرائی ہیں۔

پاک بحریہ، پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی (پی ایم ایس اے) اور کسٹمز نے مشترکہ آپریشن کرکے تقریباً 146 ملین روپے کی4000 سے زائد شراب کی بوتلیں ضبط کرلیں۔

پی ایم ایس اے کے جہاز کا بھارتی ماہی گیروں کی کشتیوں سے آمنا سامنا ہوا۔

گوہر اپنے شوہر زید دربار کے ہمراہ اس وقت مکہ مکرمہ میں عمرہ کی ادائیگی کےلیے موجود ہیں۔

ایسا شاید ہونا تھا، لڑکیاں کہتی تھیں "میں درمیان میں ہوں، مجھے آگے رہنا ہے"، تو ایسا ہوا، بھارتی اداکارہ

فلم کی کہانی ایک عام آدمی کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔

4 ماہ قبل ملزم کی خاتون کے ساتھ نازیبا حرکت کرنے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

گزشتہ برس پی ایس ایل کے دوران ویمن ٹیموں کے تین میچز ہوئے تھے، اس مرتبہ ویمن میچز کا کیا ہوا؟ سابق کپتان

مرکزی بینک کے مطابق 15 مارچ کو ختم ہوئے ہفتے تک ملکی زرمبادلہ ذخائر 13 ارب 39 کروڑ ڈالر رہے۔

میئر کراچی نے کہا کہ 8 کروڑ کی لاگت سے اورنگی ٹاؤن میں گلیوں کو پختہ کیا جائے گا۔

حصص بازار میں آج 38 کروڑ 96 لاکھ شیئرز کے سودے ہوئے جن کی مالیت 11 ارب 38 کروڑ روپے سے زائد رہی۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کل اسرائیل جائیں گے۔

QOSHE - منصور آفاق - منصور آفاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

منصور آفاق

18 0
22.03.2024

گزشتہ دو سال سے، اسلام آباد مسلسل مطالبہ کرتا رہا ہے کہ کابل حکومت تحریک طالبان پاکستان کو لگام دے۔انہیں پاکستانی فوجیوں اور شہریوں پر حملے کرنے سے روکنےکیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرےیااس کے خلاف کارروائی کرے۔اس مطالبے پر طالبان حکومت کا ردعمل کچھ ایسا رہا کہ ٹی ٹی پی کی الٹا حوصلہ افزائی ہوئی۔ہفتے کے روز، ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھرا ٹرک شمالی وزیرستان کے ضلع میں فوجی چوکی سے ٹکرا دیا، جس میں ہمارےسات فوجی شہید ہو ئے۔ اس حملے کی ذمہ داری جیشِ فرقانِ محمد گروپ نے قبول کی اس تنظیم میں کچھ ٹی ٹی پی کے ارکان ہیں کچھ افغان طالبان ۔پاکستان نے جوابی کارروائی فضائی حملے سے کی ۔اپنی فورسز اس لئے نہیں بھیجیں کہ کابل یہ نہ سمجھے کہ پاکستان نے افغانستان پرباقاعدہ حملہ کردیا ہے۔یہ حملہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں انٹیلی جنس پر مبنی انسداد دہشت گردی کی کارروائی تھی۔پاکستان کی سب سے بڑی تشویش دہشت گرد گروہوں، خاص طور پر ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیموں سےہے، جن کی افغانستان کے اندر محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور انہوں نے پاکستانی سرزمین کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ بہر حال پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کا استعمال اب پاکستان کیلئےناقابل برداشت ہوچکا ہے ، صبر کی کوئی حد ہوتی ہے۔افغان سرحد کیساتھ سیکورٹی کی صورتحال کافی عرصہ سےناگفتہ بہ ہےاور افغان حکومت ہمیشہ پاکستان سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کیلئے وقت مانگتی رہی ہےجو ایک بہانے کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔"

تحریک طالبان پاکستان، افغان طالبان کی پاکستان میں ایک مددگار تنظیم کے........

© Daily Jang


Get it on Google Play