میری نیند کچھ ایسی ہے کہ ایک گھنٹہ آنکھ لگتی ہے تو دو گھنٹے جاگتارہتا ہوں۔ اکثر خوشگوارخواب دیکھتا ہوںتو کبھی کبھی سوگوار بھی۔ خوابوں میں والدہ مرحومہ سے بھی ملاقات رہتی ہے۔ دوست ، رشتے دار، چاہنے اور نفرت و حسد کرنے والے بھی نظروں سے گزرتے ہیں۔ اکثر خواب صرف خواب ہی ہوتے ہیں۔ جو یاد رہتے ہیں تو اثرات دل و دماغ سے نہیں جاتے۔ زندگی میں خواب پورے ہوتے بھی دیکھے ، ٹوٹتے بھی۔ صرف ایک بار ہی ایسا ہوا ہے کہ میں کسی ذاتی مسئلے میں ایسا اُلجھا کہ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیسے حل ہو؟ ایسے میں والدہ مرحومہ مسلسل تین دن خواب میں آئیں ، میری ہمت بڑھائی ، حوصلہ دیا، پہلے دن کہنے لگیں تم بات کرو، میں نے جواب دیا، جی اچھا! دوسرے دن پھر خواب میں آئیں توکہا تم بات کیوں نہیں کرتے؟ میں نے پھرکہا ،جی اچھا! تیسرے دن تشریف لائیں تو اس بار لہجہ تھوڑا سخت تھا۔ کہنے لگیں ، تم بات کیوں نہیں کرتے؟ تم بات کرو؟ میں نے ہمت کی ، بات ہوئی، اللّٰہ کی مدد سے مسئلے کا جو صحیح حل تھا نکل آیا۔ ایسا خواب پھرکبھی نہیں دیکھا۔ خواب سچے بھی ہوتے ہیں اور محض واہمات کا مجموعہ بھی لیکن ہر خواب کے پیچھے کوئی نہ کوئی لاشعوری حقیقت ضرور ہوتی ہے جو آپ کے دل و دماغ پر آشکار کی جاتی ہے۔ یہ تین اور چار رمضان المبارک کی درمیانی شب گیارہ بجے کا وقت ہے ، نیند سے آنکھیں بوجھل ہیں یہ سوچ کر سونے کی کوشش کررہا ہوں کہ سحری سے قبل ہی آنکھ کھلے گی کہ گہری نیند میں منظر کچھ یوں نظر آنے لگا کہ میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی دعوت پر ان کی رہائش گاہ پر موجود ہوں۔ ہال نما پنڈال میں لوگ دریوں پراور میاں صاحب ایک کرسی پر کسی گہری سوچ میں گم سم بیٹھے ہیں۔ ماحول کچھ ایسا تھا کہ ہمیں پنڈال کے بیرونی دروازے پرجوتے اتار کر تقریب میں شریک ہونا پڑا۔ ہم کچھ اس ترتیب سے بیٹھے کہ میری نشست میاں صاحب کے بالکل برابر آگئی۔ ابھی باقاعدہ گفتگو یا پریس کانفرنس کا آغاز نہیں ہو ا تھا کہ میاں صاحب سے گفتگو کچھ اس طرح شروع ہوئی کہ جیسے ہم ایک دوسرے کے بہت قریبی دوست ہوں۔ میں نے کہا آپ کو مبارک ہو! شہباز شریف صاحب دوسری بار وزیراعظم بن گئے ہیں۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہئے لیکن آپ مسلسل اداس اور بالکل خاموش ہیں۔ میاں صاحب کہنے لگے ہاں یار! خوشی تو بہت ہے لیکن ذمے داری اس سے بھی بڑی ہے۔ اللہ کرے حکومت کامیاب ہو اور شہباز کچھ کر جائے۔ میں نے پوچھا کہ بڑے مولانا صاحب کے ساتھ انتخابات میں بہت بُرا ہوا۔ اب وہ آپ سب کو اس کا قصور وار ٹھہراتے ہیں۔مولانا تو آپ کے بہت اچھے دوست اور مہربان ہیں، کیا انتخابات کے بعد بھی ان سے کوئی ملاقات ہوئی، انہوں نے کوئی رابطہ کیا یا نہیں؟ اگرچہ انتخابی نتائج ان کے حق میں نہیں آئے مگر میں ان سے عقیدت کی حدتک پیار کرتا ہوں۔ وہ میرے محسن و مربی ہیں، پھر سے ان کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔ خواب کا منظر بدلتا ہے ، کچھ لوگ انہیں کرسی سے اٹھاتے ہیں، انہیں خاندان کی بزرگ خواتین جنہوں نے سیاہ لباس اور چادریں اوڑھ رکھی ہیں ان کے پاس بٹھادیتے ہیں۔ بزرگ خواتین انہیں تسلی اور حوصلہ دیتی ہیں۔ میاں صاحب پانی سے بھرا گلاس ایک ہی سانس میں پی جاتے ہیں۔ ان کے اردگردتقریباً سبھی لوگ پریشان ہیں، اچانک میاں صاحب مجھے پنجابی میں کہتے ہیں،” اُٹھ یار! باہر لان وچ چلئے دل کچھ ہولا ہووے۔“ ہم اٹھتے ہیں، اردگرد افراتفری کا ماحول ہے۔میں ان کے ہمراہ باہر لان کی طرف چلتاہوں۔ میاں صاحب کہنے لگے یار! ان لوگوں نے بہت بُرا کیا۔ اچھا بھلا نظام چلا رہے تھے، پاکستان تیزی سے ترقی کررہا تھا، کوئی ایسا بڑا مسئلہ بھی نہیں تھا کہ میری حکومت کو گرا دیا گیا۔ اب سب پچھتا رہے ہیں۔ نظام چل رہا ہے نہ معیشت اور حکومت۔ سب ستیاناس کر دیا گیا ہے۔ ہم گفتگو کرتے کرتے دو سیڑھیاں نیچے اتر کر لان میں لگے شامیانے کے داخلی راستے سے گزرتے ہیں، دائیں بائیں میاں صاحب کے والد حاجی محمد شریف، بیگم کلثوم نواز اور خاندان کے دیگر مرحومین کی تصاویر خوبصورت فریموں میں قطار در قطار لگی نظر آرہی ہیں۔ میاں صاحب ان تصاویر کو اداس نظروں سے دیکھتے ہیں اور اپنے والد مرحوم کی قبر مبارک کے سامنے بچھائے سرخ قالین پر جا بیٹھتے ہیں۔ وہ مجھے بھی اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ میاں صاحب کی آنکھوں سے آنسو پھر رواں ہیں، دل بوجھل ہے، وہ سامنے بیٹھے کسی شخص کو کہتے ہیں کہ یار کچھ ایسا کلام سنا کہ دل کو سکون ملے۔پھر خود ہی آسمان کی طرف مست ملنگ کی طرح ہاتھ بلند کرکے میاں محمد بخش کا یہ کلام

باپ مرے سر ننگا ہوندا،ویر مرن کنڈ خالی

ماواں باجھ محمد بخشا، کون کرے رکھوالی

پڑھتے ہیں۔ ماحول پہلے سے بھی زیادہ سوگوار ہوگیا ہے۔ میری آنکھ کھلتی ہے، دل پر ایسا بوجھ تھا کہ جیسے میں ابھی ابھی اس محفل سے اٹھ کر آیا ہوں۔ رات بارہ بجے، رمضان المبارک کی چوتھی شب، تحریر کالم ایک بج کر اٹھائیس منٹ، یہ سوچ کر لکھا جارہا ہے کہ خواب تو امانت ہوتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے یہ تو اللّٰہ ہی بہتر جانتا ہے ایک بات بالکل واضح ہے کہ بڑے میاں صاحب کے سینے میں بہت کچھ دفن ہے۔ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن بول نہیں پا رہے۔ یہ خاموشی اور اداسی بلاوجہ نہیں ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

رینجرز کی کندھ کوٹ میں کارروائی، 3 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کرلیا۔

محکمہ وائلڈ لائف کی ٹیم نے ننکانہ صاحب کے علاقے شاہکوٹ میں کارروائی کرتے ہوئے 4 ریچھ برآمد کرکے 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔

شوکت بسرا نے کہا کہ بانی تحریک انصاف کی قیادت میں پوری جماعت متحد ہے، فاروڈ بلاک کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

گجرات میں 4 مسلح موٹر سائیکل سواروں نے زیرحراست ملزم کو چھڑانے کی کوشش کی۔

ذرائع کے مطابق سابق سینیٹر مشتاق احمد اور پولیس اہلکاروں میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔

ادارہ منہاج القرآن انٹرنیشنل فرانس لاکورنو میں یوم پاکستان کی مناسبت سے منہاج ڈائیلاگ فورم (MDF) کی طرف سے عظیم الشان افطار کا اہتمام کیا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ مشتاق احمد غنی کی کابینہ میں شمولیت کےلیے بانی پی ٹی آئی سے بات کروں گا۔

ایم پی اے ملک وحید اصرار کرتے ہیں کہ کیمرے کے سامنے معافی مانگو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔

رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ کاردار نے کہا ہے کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں، زیوارت چوری ہوئے ہیں۔

کندھ کوٹ کے علاقے کرم پور کے کچے میں استاد کے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کےلیے آپریشن چھٹے روز بھی جاری ہے۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے تینوں مسلح افواج کے 41 افسران کو ہلال امتیاز عسکری سے نوازا ہے۔

اسٹار کرکٹر شاہد آفریدی پر تنقید کو لے کر پی ٹی آئی رہنما اور سوشل میڈیا ٹیمز آمنے سامنے آگئیں۔

امریکی ریپر، گلوکار، گیت نگار، ریکارڈ پروڈیوسر اور فیشن ڈیزائنر کینی ویسٹ نے قانونی طور پر اپنا نام تبدیل کرکے یے (Ye) رکھ لیا ہے، انھوں نےذاتی وجوہات کی بنا پر 2021 میں اپنا نام تبدیل کیا۔

پولیس کا مزید کہنا تھا کہ شہد کی مکھیوں کے حملے سے خواتین و بچوں سمیت 10 افراد زخمی ہوگئے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ ائیرفورس سے بات کی ہے کہ ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنائی جائے، شہر میں ایک اور موٹر وےانٹر چینج بنایا جائے گا۔

QOSHE - عرفان اطہر قاضی - عرفان اطہر قاضی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

عرفان اطہر قاضی

13 1
25.03.2024

میری نیند کچھ ایسی ہے کہ ایک گھنٹہ آنکھ لگتی ہے تو دو گھنٹے جاگتارہتا ہوں۔ اکثر خوشگوارخواب دیکھتا ہوںتو کبھی کبھی سوگوار بھی۔ خوابوں میں والدہ مرحومہ سے بھی ملاقات رہتی ہے۔ دوست ، رشتے دار، چاہنے اور نفرت و حسد کرنے والے بھی نظروں سے گزرتے ہیں۔ اکثر خواب صرف خواب ہی ہوتے ہیں۔ جو یاد رہتے ہیں تو اثرات دل و دماغ سے نہیں جاتے۔ زندگی میں خواب پورے ہوتے بھی دیکھے ، ٹوٹتے بھی۔ صرف ایک بار ہی ایسا ہوا ہے کہ میں کسی ذاتی مسئلے میں ایسا اُلجھا کہ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیسے حل ہو؟ ایسے میں والدہ مرحومہ مسلسل تین دن خواب میں آئیں ، میری ہمت بڑھائی ، حوصلہ دیا، پہلے دن کہنے لگیں تم بات کرو، میں نے جواب دیا، جی اچھا! دوسرے دن پھر خواب میں آئیں توکہا تم بات کیوں نہیں کرتے؟ میں نے پھرکہا ،جی اچھا! تیسرے دن تشریف لائیں تو اس بار لہجہ تھوڑا سخت تھا۔ کہنے لگیں ، تم بات کیوں نہیں کرتے؟ تم بات کرو؟ میں نے ہمت کی ، بات ہوئی، اللّٰہ کی مدد سے مسئلے کا جو صحیح حل تھا نکل آیا۔ ایسا خواب پھرکبھی نہیں دیکھا۔ خواب سچے بھی ہوتے ہیں اور محض واہمات کا مجموعہ بھی لیکن ہر خواب کے پیچھے کوئی نہ کوئی لاشعوری حقیقت ضرور ہوتی ہے جو آپ کے دل و دماغ پر آشکار کی جاتی ہے۔ یہ تین اور چار رمضان المبارک کی درمیانی شب گیارہ بجے کا وقت ہے ، نیند سے آنکھیں بوجھل ہیں یہ سوچ کر سونے کی کوشش کررہا ہوں کہ سحری سے قبل ہی آنکھ کھلے گی کہ گہری نیند میں منظر کچھ یوں نظر آنے لگا کہ میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی دعوت پر ان کی رہائش گاہ پر موجود ہوں۔ ہال نما پنڈال میں لوگ دریوں پراور میاں صاحب ایک کرسی پر کسی گہری سوچ میں گم سم بیٹھے ہیں۔ ماحول کچھ ایسا تھا کہ ہمیں پنڈال کے بیرونی دروازے پرجوتے اتار کر تقریب میں شریک ہونا........

© Daily Jang


Get it on Google Play