ہم بد قسمت لوگ ہیں، ہم تاریخ اور معاشرے کے ساتھ انصاف نہ کر سکے اور نہ ہی ایوارڈز کے ساتھ انصاف کر سکے بلکہ ایک بزرگ دوست کا کہنا ہے کہ جس معاشرے کی بنیاد نا انصافی پر رکھی گئی ہو وہاں انصاف کیسے؟ پاکستان قائم ہوا تو ابتدائی دنوں میں کلیم کا چکر چلنے لگا، کلیم کے چکر میں "پودینے کے باغات" والوں کو لمبی چوڑی زمینیں الاٹ کر دی گئیں پھر پرمٹ کا کھیل شروع ہوا، کلیم اور پرمٹ نے نا انصافی کے بیج بوئے۔ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی سو قیام پاکستان کے بعد کچھ سالوں تک 23مارچ یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا رہا پھر جنرل اسکندر مرزا آ گئے تو پہلی مرتبہ سوال اٹھا کہ اب یوم جمہوریہ کا کیا کیا جائے؟ بیوروکریٹس کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں، ایک سینئر بیوروکریٹ نے راستہ نکالا کہ اب 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کی بجائے یوم قرارداد پاکستان منایا جائے، اسی راستے پر چلتے ہوئے کچھ عرصہ بعد مزید نکھار لایا گیا اور 23 مارچ کو یوم پاکستان بنا دیا گیا۔ عجیب تلخ سچائیاں ہیں کہ 1955ء تک سرکاری سطح پر نصابی حساب سے یوم آزادی 15 اگست کو منایا جاتا رہا پھر کسی دانشور بیوروکریٹ کو یہ سوجھی کہ 15 اگست کو تو ہندوستان والے یوم آزادی مناتے ہیں سو ہمیں اپنی تاریخ 14 اگست کر لینی چاہئے، بس پھر ہمارا یوم آزادی 14 اگست بن گیا۔ 1960ء تک سرکاری نصاب میں پڑھایا جاتا رہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ٹھٹھہ کے قریب ایک قصبے جھرک میں پیدا ہوئے مگر پھر 60ء کی دہائی کی ابتدا میں حیدرآباد کے اردو بولنے والے ایک کمشنر نے قائد اعظم کا جائے پیدائش کراچی بنا دیا، بس پھر نصابی طور پر سرکاری بات مان لی گئی اور قائد اعظم کا جائے پیدائش کراچی قرار پایا۔ عرصہ ہوا، 23 مارچ کو یوم پاکستان منایا جاتا ہے، اس روز توپوں کی سلامی اور پاک افواج کی پریڈ ہوتی ہے، اسی روز دوپہر کے بعد ایوان صدر میں تقسیمِ ایوارڈز کی تقریب سجتی ہے، اسی طرح کی تقریبات تمام صوبوں کے گورنر ہاؤسز میں ہوتی ہیں، کبھی یہ ایوارڈز معتبر ہوا کرتے تھے مگر گزشتہ بیس پچیس سالوں سے ان ایوارڈز کی ایسی بندر بانٹ ہوئی ہے کہ یہ بے حیثیت سے ہو کر رہ گئے ہیں، اس دوران جن شخصیات کو ایوارڈز سے نوازا گیا، میں ان شخصیات پر تبصرہ نہیں کروں گا، نہ ان کی کارکردگی پہ بات کروں گا اور نہ ہی ان کی ناقابلِ فراموش "خدمات" کا تذکرہ کروں گا، یہ سب کچھ قوم کے سامنے ہے کس طرح سیاسی پارٹیاں اپنے ورکرز اور خدمت گاروں کو قومی اعزازات سے نواز کر ان اعزازات کی بے توقیری کا باعث بن رہی ہیں۔ مجھے کچھ واقعات یاد آ رہے ہیں، پندرہ سال پہلے آصف علی زرداری صدر تھے اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم، مجھے کسی نے کہا کہ آپ فلاں ایوارڈ کے لئے اپلائی کریں اور اپنے کاغذات کے دو سیٹ دے دیں، میں نے عرض کیا کہ میں ایسے عمل پر لعنت بھیجتا ہوں کہ مجھے کسی ایوارڈ کے لئے درخواست دینا پڑے پھر ایک مرتبہ یہ قصہ عمران خان کے عہد میں تازہ ہوا، میں نے پھر سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑا ایوارڈ عوامی ہوتا ہے، میں خود کو سرکاری ایوارڈ کا اہل نہیں سمجھتا۔ میرے ایک دوست کے سامنے چودہ پندرہ سال پہلے ایک بیوروکریٹ نے کسی شخصیت کو فون کیا کہ حکومت آپ کو فلاں ایوارڈ دینا چاہتی ہے تو جواباً اس شخصیت نے کہا میں یہ نہیں بلکہ فلاں ایوارڈ لینا چاہتا ہوں پھر حکومت نے یہ فرمائش بھی پوری کر دی۔ ایک باکسر کو وزارت کھیل کے ایڈیشنل سیکرٹری کہنے لگے "آپ کا ریکارڈ شاندار ہے، میں آپ کا فلاں ایوارڈ کے لئے نام بھیجتا ہوں لیکن ایک بات طے کرو کہ ایوارڈ آپ کا اور جو ساتھ دس لاکھ ملیں گے وہ میرے"۔ باکسر ہکا بکا رہ گیا اور اس نے کہا "میں یہ ایوارڈ نہیں لینا چاہتا"۔ آپ کو پچھلے بیس پچیس سالوں میں کچھ شخصیات ایسی بھی نظر آئی ہوں گی جنہیں اس عرصہ میں چار چار پانچ پانچ قومی اعزازات دیئے گئے، ایسا لگتا ہے کہ قومی اعزازات کے روپ میں ان شخصیات کو گزارہ الاؤنس دیا جا رہا ہے۔ مقام فکر ہے کہ پاکستان کی آبادی چوبیس کروڑ ہے اور اس سال 829 افراد کو سول اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد ہے وہاں صرف 132 افراد کو سول ایوارڈز دیئے گئے ہیں، پاکستان اتنے ذہین ترین افراد کی موجودگی میں ترقی کیوں نہیں کر رہا؟ منیر نیازی یاد آ گئے کہ

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر جلد شروع کریں گے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری قرارداد پر عملدرآمد کے لیے اسرائیل پر کس طرح زور ڈالتی ہے، ترجمان حماس

انہوں نے کہا کہ امید ہے اسرائیل کے وحشیانہ حملے ختم اور مستقل جنگ بندی یقینی بنائی جاسکے گی۔

وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے سرجانی ٹاؤن میں موبائل چھینے کے واقعے میں نوجوان کی ہلاکت پر ایکشن لیتے ہوئے کا ایس ایچ او سرجانی کو فوری معطل کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔

مغربی ہواؤں کا ایک سسٹم آج بلوچستان میں داخل ہوگا جس سے صوبے کے پانچ اضلاع میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ کہیں ہلکی اور کہیں تیز بارش کا امکان ہے۔

دا پورٹ لینڈ سی ڈاگس نے ٹیم ورک کا مظاہرہ کرتے ہوئے مین ووپی پائی فیسٹیول میں یہ ریکارڈ بنایا۔

شیر افضل مروت نے کہا کہ اجلاس میں بحث کو پارٹی میں اختلافات کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

عظمیٰ کاردار نے کہا کہ کلب کے متعدد ممبرز نے چوریوں کی شکایت کی، انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

بالی ووڈ اداکارہ نے اپنے شوہر سیف علی خان اور دونوں بیٹوں تیمور اور جہانگیر علی خان کے ہمراہ افریقی ملک تنزانیہ میں تعطیلات کی نئی تصاویر شیئر کی ہیں اور ہولی کے موقع پر پرستاروں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ تصو

اسرائیل اور امریکا میں تناؤ میں اضافہ ہوگیا ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اسرائیلی وفد کا دورہ امریکا منسوخ کر دیا۔

ایلبم کی پروموشن کے موقع پر نامور گلوکارہ سے دلچسپ سوال کرلیا گیا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے نوٹ میں تحریر کیا کہ18ویں ترمیم کا جائزہ لیتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کا ایچی سن کالج میں احد چیمہ کے بچوں کی فیس معافی کےلیے اقدام کالج کے مروجہ قانون کی شق (3)5 کےمطابق ہے۔

برطانیہ نے چین پر سائبر حملوں کا الزام لگا دیا۔ لندن میں پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اولیور ڈاؤڈن نے کہا چینی حکومت سے وابستہ کرداروں نے جمہوری اداروں اور ارکان پارلیمنٹ کو نشانہ بنایا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ زخمی شخص کی حالت خطرے میں ہے، جس کا جناح اسپتال میں علاج جاری ہے۔

QOSHE - مظہر برلاس - مظہر برلاس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مظہر برلاس

28 1
26.03.2024

ہم بد قسمت لوگ ہیں، ہم تاریخ اور معاشرے کے ساتھ انصاف نہ کر سکے اور نہ ہی ایوارڈز کے ساتھ انصاف کر سکے بلکہ ایک بزرگ دوست کا کہنا ہے کہ جس معاشرے کی بنیاد نا انصافی پر رکھی گئی ہو وہاں انصاف کیسے؟ پاکستان قائم ہوا تو ابتدائی دنوں میں کلیم کا چکر چلنے لگا، کلیم کے چکر میں "پودینے کے باغات" والوں کو لمبی چوڑی زمینیں الاٹ کر دی گئیں پھر پرمٹ کا کھیل شروع ہوا، کلیم اور پرمٹ نے نا انصافی کے بیج بوئے۔ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی سو قیام پاکستان کے بعد کچھ سالوں تک 23مارچ یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا رہا پھر جنرل اسکندر مرزا آ گئے تو پہلی مرتبہ سوال اٹھا کہ اب یوم جمہوریہ کا کیا کیا جائے؟ بیوروکریٹس کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں، ایک سینئر بیوروکریٹ نے راستہ نکالا کہ اب 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کی بجائے یوم قرارداد پاکستان منایا جائے، اسی راستے پر چلتے ہوئے کچھ عرصہ بعد مزید نکھار لایا گیا اور 23 مارچ کو یوم پاکستان بنا دیا گیا۔ عجیب تلخ سچائیاں ہیں کہ 1955ء تک سرکاری سطح پر نصابی حساب سے یوم آزادی 15 اگست کو منایا جاتا رہا پھر کسی دانشور بیوروکریٹ کو یہ سوجھی کہ 15 اگست کو تو ہندوستان والے یوم آزادی مناتے ہیں سو ہمیں اپنی تاریخ 14 اگست کر لینی چاہئے، بس پھر ہمارا یوم آزادی 14 اگست بن گیا۔ 1960ء تک سرکاری نصاب میں پڑھایا جاتا رہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ٹھٹھہ کے قریب ایک قصبے جھرک میں پیدا ہوئے مگر پھر 60ء کی دہائی کی ابتدا میں حیدرآباد کے اردو بولنے والے ایک کمشنر نے قائد اعظم کا جائے پیدائش کراچی بنا دیا، بس پھر نصابی طور پر سرکاری بات مان لی گئی........

© Daily Jang


Get it on Google Play