یوم پاکستان کی پریڈ اور اس سے منسلک تقریبات کو صرف اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ پاکستان بطور ریاست قرار داد لاہور ( پاکستان ) کو یاد کر رہا ہے یا کوئی آئینی سنگ میل عبور کیا گیا تھا اور اس کامیابی پر اظہار فخر کے طور پر اس دن کو منایا جا رہا ہے بلکہ اس میں کئے گئے ہر اقدام یا گفتگو کی پاکستان کی قومی پالیسی میں واضح اہمیت ہوتی ہے ۔ پاکستان ڈے پریڈ میں چینی افواج کے دستے کی شرکت نے اس بات کو زیادہ دل چسپ اور دیگر عالمی طاقتوں کیلئے اہم بنا دیا ہے کہ پاکستان چین سے فوجی شراکت داری کو باقاعدہ مزید وسعت دینے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔ 23 مارچ کو ہی مجھ سے میرے ایک امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ امریکی دوست نے رابطہ قائم کیا اور دوران گفتگو ان کا بنیادی سوال یہ ہی تھا کہ پاکستان اس اقدام کو صرف علامتی طور پر رکھنا چاہتا ہے یا یہ دنیا کیلئے ایک اشارہ ہے کہ پاکستان اب فوجی طور پر چین کے مزید قریب ہونے کی سوچ پر گامزن ہو چکا ہے ۔ بلاشبہ پاکستان اور چین کے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے تعلقات دونوں ممالک کیلئے حد درجہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان کو اس سے بھی زیادہ توانا ہونا چاہئے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور چین بھی اپنے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کی نزاکت اور اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ پاکستان اور دنیا بھر کیلئے امریکہ کی اہمیت مسلمہ ہے اور میرے امریکی دوست یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ پاکستان کو وقت ضائع کئے بنا امریکہ کو اس حوالے سے اعتماد میں لینا چاہئے بلکہ آن بورڈ لینا چاہئے اور اگر سفارتی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا جائے تو یہ ممکن بھی ہے ورنہ یہ حقیقت پاکستان کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ امریکہ میں اس حوالے سے بد گمانی بڑھ سکتی ہے ۔ اس صورت حال کا ابتدائی منظر نامہ پاکستانی انتخابات کے حوالے سے امریکہ میں سماعت میں ہے اور اگر یہ صورت حال بدستور جوں کی توں رہی تو اس سے مستقبل قریب میں پاکستان کو مسائل کا سامنا کرنا پر سکتا ہے ۔ ابھی تو اس سماعت سے زیادہ اہمیت دنیا نے بھارت کی جانب سے دیگر ممالک میں سکھوں کے قتل کے معاملہ کو دی ہے۔

مگر پھر بھی پاکستان کے حوالے سے سماعت کی ایک اپنی حیثیت ہے ۔ ویسے بھی گزشتہ کچھ عرصہ میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی پاکستان کی سیاست میں امریکہ کو گڈ مڈ کرنے کے رویے نے امریکہ کے اعلیٰ سطح کے حکام میں پاکستانیوں کے حوالے سے ایک تشویش پیدا کردی ہے ۔ جب سائفر کا معاملہ سامنے آیا تو امریکی پاکستانیوں کی ایک قابل ذکر تعداد نے اس راگ کو الاپنا شروع کردیا اور امریکہ کو برا بھلا کہنا شروع کردیا حالاں کہ وہ امریکہ میں ہی مقیم تھے ۔ امریکیوں سے اس دوران جب بھی ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک بات بیان کی کہ اس رویے نے امریکہ میں اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ امریکی پاکستانی کوئی بھی غلط فیصلہ امریکہ کے حوالے سے کر سکتے ہیں ۔ ایک نے تو یہاں تک کہا کہ جو پاکستانی امریکا میں رہائش پذیر ہیں وہ اپنی مرضی بلکہ دیرینہ خواہش کے سبب امریکہ میں ہیں ، ہم کوئی ان کو زبر دستی تو امریکہ نہیں لے کر آیا ہے ۔ اس تمام صورت حال میں پاکستان کو بہت پھونک پھونک کے قدم اٹھانا چاہئے ۔ کامیاب خارجہ پالیسی تو سادہ الفاظ میں یہ ہوتی ہے کہ اپنے دشمنوں کی تعداد کو کم سے کم کیا جائے اور دنیا بھر سے زیادہ سے زیادہ معاشی مفادات کے حصول کو ممکن بنایا جائے ۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے یہ بالکل درست طور پر کہا ہے کہ بھارت سے تجارتی تعلقات کی بحالی پر غور کرنا چاہئے کیوں کہ یہ صرف بھارت کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ پاکستان کے مفادات بھی اب اس سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اس حوالے سے کسی شک کی سرے سے گنجائش موجود نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے بڑے کارو باری افراد باہمی تجارت کی بحالی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور اگر کاروباری مفادات یا تجارتی سفارت کاری کا راستہ اختیار کیا جائے تو کشمیر سمیت تمام تر مسائل کو حل کرنے کی جانب بڑھنا ممکن ہے ۔ اور تجارتی سفارت کاری کے حوالے سے وزیر خارجہ اسحاق ڈار معیشت اور سفارت کاری کے حوالے سے تجربہ اور معلومات رکھنے کے باعث اس پر بہت موثر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ویسے بھی اس وقت ہر طرف یہ ہی غلغلہ مچا ہوا ہے کہ پاکستان کے تمام دوست ممالک امداد دینے کی بجائے کاروبار کو وسعت دینے کی سوچ کو زیادہ بہتر تصور کرتے ہیں ۔ پاکستان ڈے پریڈ میں سعودی عرب کے مہمان کی آمد بھی انہی تصورات کو مضبوط کر رہی ہے کہ سعودی عرب بھی اب زیادہ توجہ پاکستان میں سرمایہ کاری پر ہی رکھنا چاہتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مڈل ایسٹ میں فلسطین کے حالات کے باوجود بڑی تزویراتی تبدیلیوں کے لئے کوشش جاری ہے۔ ابھی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سعودی عرب سے اسرائیلی تعلقات کے قیام کے حوالے سے پھر امید ظاہر کی ہے ۔ چین ، امریکہ ، بھارت سے لے کر مڈل ایسٹ تک جو ہو رہا ہے اور جو ہو سکتا ہے اس سب پر ہماری گہری نظر ہونی چاہئے تا کہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہم ہر قدم بر وقت اٹھانے کے قابل ہوں۔

اجلاس میں پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں کی سیکورٹی سے متعلق امور پر غور ہوگا۔

میزبان اُردن کی ٹیم کے کھلاڑیوں نے پاکستانی گول پر حملے کیےجس کے نتیجے میں اُنہیں پہلی کامیابی پندرہویں منٹ میں ملی۔

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ ہر ایک کو مشورہ دیتے ہیں، ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے امریکی پابندیوں کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو انٹیلی جنس ادارے کی مداخلت کا بتانے پر 11 اکتوبر 2018 کو برطرف کیا گیا، سپریم کورٹ نے 22 مارچ کے فیصلے میں جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو غلط قرار دیا اور انہیں ریٹائرڈ جج کہا، خط

گورنر کی جانب اجلاس طلب کرنا غیرآئینی عمل تھا، اس لیے عمل نہیں ہوسکتا، خط

عدالت نے معاوضے کی ادائیگی کا حکم فیٹل ایکسڈنٹ ایکٹ 1855 کے تحت دیا ہے۔

کوئٹہ میں دکی کے علاقے منڈے ٹک میں کار کھائی میں گر گئی پولیس کے مطابق 3 نوجوان جاں بحق ہوگئے۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جینیبر نے اسیت مودی کے خلاف جنسی ہراسانی کا کیس دائر کیا تھا جس کا فیصلہ سامنے آگیا۔

اسرائیل غزہ کو تباہ کرنے کے لیے 2 جوہری بموں کے برابر 25 ہزار ٹن بارود استعمال کرچکا ہے۔

بھارتی ریاست اتر پردیش میں ہولی کے جلوس سے قبل 9 مساجد کو پلاسٹک اور ترپالوں سے ڈھانپ دیا گیا۔

ایس پی اقبال ٹاؤن لاہور اخلاق الله تارڑ نے کہا ہے کہ گردے فروخت کرنے والے گینگ میں شامل 6 ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔

انہوں نے وزن کم کرنے سے متعلق اپنے اہداف کا تعین کیا تھا جس کی وزن بڑھے ہوئے اور وزن کرنے کے بعد کی تصاویر شوشل میڈیا پر کی۔

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے27 لاکھ پاکستانیوں کے ڈیٹا چوری کے بڑے اسکینڈل کی تحقیقات مکمل ہوگئیں۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والے ایک انجینیئر دارشن بابو جوا کی لت میں مبتلا تھا جو اس کی اہلیہ کی موت کا سبب بن گیا۔

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ایک عینک (چشموں) میوزیم قائم ہے، پچاس برس تک قائم رہنے والا روگن میگنے ہکوبوٹسوکن یا اسپیکٹیکلز میوزیم ایکبورو (چشمے کا میوزیم) جاپانی دارالحکومت کے مینامی ایکبوکرو علاقے کے ہیگاشی ڈوری شاپنگ اسٹریٹ پر موجود رہا۔

QOSHE - محمد مہدی - محمد مہدی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد مہدی

14 1
27.03.2024

یوم پاکستان کی پریڈ اور اس سے منسلک تقریبات کو صرف اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ پاکستان بطور ریاست قرار داد لاہور ( پاکستان ) کو یاد کر رہا ہے یا کوئی آئینی سنگ میل عبور کیا گیا تھا اور اس کامیابی پر اظہار فخر کے طور پر اس دن کو منایا جا رہا ہے بلکہ اس میں کئے گئے ہر اقدام یا گفتگو کی پاکستان کی قومی پالیسی میں واضح اہمیت ہوتی ہے ۔ پاکستان ڈے پریڈ میں چینی افواج کے دستے کی شرکت نے اس بات کو زیادہ دل چسپ اور دیگر عالمی طاقتوں کیلئے اہم بنا دیا ہے کہ پاکستان چین سے فوجی شراکت داری کو باقاعدہ مزید وسعت دینے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔ 23 مارچ کو ہی مجھ سے میرے ایک امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ امریکی دوست نے رابطہ قائم کیا اور دوران گفتگو ان کا بنیادی سوال یہ ہی تھا کہ پاکستان اس اقدام کو صرف علامتی طور پر رکھنا چاہتا ہے یا یہ دنیا کیلئے ایک اشارہ ہے کہ پاکستان اب فوجی طور پر چین کے مزید قریب ہونے کی سوچ پر گامزن ہو چکا ہے ۔ بلاشبہ پاکستان اور چین کے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے تعلقات دونوں ممالک کیلئے حد درجہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان کو اس سے بھی زیادہ توانا ہونا چاہئے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور چین بھی اپنے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کی نزاکت اور اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ پاکستان اور دنیا بھر کیلئے امریکہ کی اہمیت مسلمہ ہے اور میرے امریکی دوست یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ پاکستان کو وقت ضائع کئے بنا امریکہ کو اس حوالے سے اعتماد میں لینا چاہئے بلکہ آن بورڈ لینا چاہئے اور اگر سفارتی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا جائے تو یہ ممکن بھی ہے ورنہ یہ حقیقت پاکستان کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ امریکہ میں اس حوالے سے بد گمانی بڑھ سکتی ہے ۔ اس صورت حال کا ابتدائی منظر نامہ پاکستانی........

© Daily Jang


Get it on Google Play