مسئلہ سیاسی ہو یاعدالتی، صحافتی ہویا انتظامی، ہمارے ہاں تقسیم اس قدر زیادہ ہے کہ فوراً یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ یہ تیرے جج ہیں یا میرے جج ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے ریاستی مداخلت پر احتجاج کیا تو ایک بارپھر تضادستان کی تقسیم واضح ہو گئی۔ یہ جائزہ لیا جانے لگا کہ یہ تیرے جج ہیں یا میرے جج؟حالانکہ میرے ،تیرے کو چھوڑ کر انہیں ہمارے جج ہی کہنا ،سوچنا اور لکھنا چاہئے ۔یہی تقسیم صحافیوں کے بارے میں بھی اپنالی گئی ہے۔ انصافیوں نے کچھ کو میرے صحافی اور کچھ کو تیرے صحافی بنا رکھا ہے۔ میرے صحافی جھوٹ، پراپیگنڈا اور فیک نیوز بھی دیں تو واہ واہ اورتیرے صحافی سچ بھی لکھیں تو لفافے۔ یہی حال سیاست دانوں نے بیوروکریسی کا بنا رکھا ہے میرے افسر اور تیرے افسر کی تقسیم ایسی ہے کہ جو نئی حکومت آتی ہے وہ ماضی میں تعینات افسروں کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور اپنے پسندیدہ افسروں کو تعینات کر دیتی ہے۔بدقسمتی سے جرنیلوں کے بارے میں بھی یہی رویہ ہے کہ ایک زمانے میں انصافی جنرل باجوہ کی تعریفیں کرتےنہیں تھکتے تھے آج کل ان پر الزام لگاتے نہیں تھکتے ۔نونی بھی ججوں، جرنیلوں،افسروں اور صحافیوں کے بارے میں اسی افراط و تفریط کا شکار ہیں ،جب تک تضادستان میں یہ تقسیم رہے گی یہاں بہتری نہیں آئے گی ہم سب کو دل بڑا کرنا چاہئے کہ کوئی جج، افسر ،جرنیل یا صحافی ہمارے خلاف فیصلہ کر دے یا کچھ لکھ دے تو اسے بھی قبول کرنا چاہئے۔ معاشرے اختلاف کو قبول کرکے زندہ رہتے ہیں مگر اختلاف کو جرم بنانا، قومی بیماری کے مترادف ہے، یاد رکھیے کل کے دشمن آج کے دوست ہوتے ہیں اور کل کے دوست آج کے دشمن بھی ہوسکتے ہیں، اس لئے کسی بھی شخص، چاہے وہ جج ہو یا جرنیل ،صحافی ہو یا افسر ،کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے اسے غلطی کا مارجن دیں ہر ایک کو بے ایمان، بے انصاف اور بکا ئو مال قرارنہ دے دیں ،ہو سکتا ہے کہ اس کی ایماندارانہ رائے ہی آپ کے خلاف ہو ۔چھ ججوں کی شکایت کو دیکھیں یہ نہ دیکھیں کہ وہ تیرے جج ہیں یا میرے ؟ان کی شکایت کا ازالہ اور تفتیش ہونی چاہئے نہ کہ ہم ان کے ماضی کو کھنگالنا شروع کردیں۔

تضادستان تاریخ کے اس موڑ پر ہے کہ جہاں ہمیں اپنے تضادات ختم کرنا ہونگے یہ ’’تیرا، میرا‘‘ مہذب معاشروں میں نہیں چلتا معاشرے کا سب کچھ ہمارا ہوتا ہے۔جس قدر جلدی ہم اس حقیقت کو اپنالیں گے بحیثیت قوم ہمارے لئے اتنا ہی بہتر ہو گا۔

ہماری سب سے بڑی سماجی، انتظامی اور سیاسی خرابی یہی ہے کہ ہر کوئی دوسرے کے کام میں مداخلت کرتا ہے، سماج میں بھی ہمارا ایک دوسرے سے یہی رویہ ہے، اداروں کا بھی آپس میں یہی رویہ ہے ۔فوج، سیاست ،عدلیہ اور صحافت میں مداخلت کرتی آ رہی ہے سیاست دان فوج اور عدلیہ میں مداخلت کرتے آ رہے ہیں اور عدلیہ سیاست پر غلط طورسے اثرانداز ہوتی آئی ہے ۔ایک چیف جسٹس نےتو پوری انتظامی اور فوجی مشینری کو اس قدر بے بس کر دیا تھا کہ وہ خود بے تاج بادشاہ بن گیا تھا چاروں صوبوں کے افسر روزانہ اس کے دربار میں حاضری کے پابند تھے اور وہ اپنی من مرضی کے فیصلے دیکر ملک کو ’’درست‘‘ سمت دینے کی کوشش کرتا تھا ،پرائیویٹائزیشن کے عمل کو اس نے سبوتاژ کرکے رکھ دیا ،سیاست کی چولیں ہلا ڈالیں ۔اسی طرح کئی آمر جرنیلوں نے ملک کی ثقافت، سیاست اور معاشرت کو تباہ کرکے رکھ دیا ۔افسر شاہی بھی حکمرانوں کے چشمِ ابرو پر کام کرتے ہوئے بدعنوانی اور ناانصافی کی مرتکب ہوتی رہی ۔ہم صحافیوں میں سے بھی کئی آمروں کے کاسہ لیس بن کر انکی تعریفوں کے پل باندھتے رہے یہ سب کچھ غلط تھا مگر اس کو درست کرنے کےلئے گلوٹین لگانا، پھانسیوں پر چڑھانا یا ان سے نفرت کرنا مسئلے کا حل نہیں ۔اس کا حل یہی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کی معافی دی جائے اور آئندہ غلطیاں نہ کرنے کا وعدہ کیا جائے۔

جب معاشرہ ہماری طرح کی تقسیم کا شکار ہو تو ہر طبقہ دوسروں کو غلطیوں کا ذمہ دار قرار دیتا ہے مگر خود کو غلطیوں سے مبرا قرار دیتے ہوئے اپنے اعمال کا جواز پیش کر دیتا ہے۔ ہم صحافیوں کو لے لیں ہم میں سے کئی ایک نے مارشل لائوں کے جواز پیش کئے، کسی نے آمر کو اسلام کا سپاہی اور کسی کو روشن خیالی کا امام قرار دیا ،اداریوں اور کالموں میں ملک غلام محمد، اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف کے اقدامات کی تعریف کی جاتی رہی ۔جرنیلوں نے کسی سیاست دان کو ایماندار نہیں سمجھا ہر ایک پر انگلی اٹھائی حتیٰ کہ مشرقی پاکستان میں اپنی حکمت عملی کی ناکامی کا ذمہ دار بھی مجیب اور بھٹو کو قرار دیا۔ سیاست دانوں نے کارکردگی نہ دکھانے کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے یہ جواز پیش کیا کہ ہمیں کام کرنے نہیں دیا گیا۔ بیوروکریسی اپنی غلطیوں کی ذمہ داری فوجی اور سیاسی حکمرانوں پر ڈال دیتی ہے حالانکہ اگر معاشرے میں اصلی شعور آجائے تو ہر طبقہ اپنی اپنی غلطیوںکومانےاوران غلطیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ایک دوسرے کو غلط ٹھہرانے سے مسائل حل نہیں ہونگے مسائل اس دن حل ہونگے جب ہم سب یہ مانیں گے کہ ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اب سب نے ہی مل کرانہیں ٹھیک کرنا ہے۔

غلطیوں کو ماننا ہی اصل بہادری اور اصل سچائی ہے دنیا کی جس قوم نے بھی ترقی کی ہے اس نے پہلے اپنی غلطیوں کو مانا ہے اور پھر ان کو ٹھیک کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ 6ججوں نے جو مسئلہ اٹھایا ہے اسے ایک نئی صبح کا آغاز سمجھنا چاہئے اور جس طرح سے سپریم کورٹ نے فوری ایکشن لیا ہے وہ بھی قابل تحسین ہے۔ وزیر اعظم سے فوری ملاقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ کو اس معاملے پر تشویش ہے، توقع یہی کرنی چاہئے کہ اس مسئلے کا حل نکال کر ہم بہتری کی طرف گامزن ہونگے۔

معاملہ صرف عدلیہ میں ایجنسیوں کی مداخلت کا نہیں ہے بلکہ ہر ایک شعبہ کی دوسرے میں مداخلت کا ہے، اس حوالے سے آئین میں ہر ادارے کی حدود اور ذمہ داریوں کا تعین کر دیا گیا ہے جو کوئی بھی دستور سے ہٹتا ہے اس کا محاسبہ کرنا چاہئے، ہمیں یہ طے کر لینا چاہئے کہ دستور ہی وہ واحد چیز ہے جس پر چل کر ہم سیاست ،معیشت، عدالت اور صحافت کو بہتر کرسکتے ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس تحریر شدہ متفقہ دستور موجود ہے جس میں ہر طبقے کی ذمہ داریوں اور حدود کا تعین کر دیا گیا ہے ہم سب کو بار بار دستور پڑھنا چاہئے اور طے کرنا چاہئے کہ ہم نے ہو بہو اسی پر عمل کرنا ہے یہی فلاح اور ترقی کا واحد راستہ ہے۔

تحریک انصاف نے ضمنی الیکشن کے لئے پی پی 93 بھکر میں محمد افضل خان ڈھانڈلہ کا ٹکٹ کینسل کردیا، حماد اظہر کا کہنا ہے کہ افضل ڈھانڈلہ کا ٹکٹ سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد کینسل کیا گیا ہے۔

غیر قانونی سرگرمیوں خلاف اقدامات سے متعلق اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، صوبائی وزرائے اعلیٰ سمیت اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

شاہین آفریدی موجودہ صورتحال سے نالاں نظر آتے ہیں، فٹنس کیمپ کے دوران بھی کھلاڑیوں کا موضوع گفتگو کپتانی ہی ہے۔

بالی ووڈ فلم اسٹار اور اداکار رنبیر کپور کی اہلیہ عالیہ بھت لندن کے ہوپ گالا میں ہیرے کی بیس کروڑ روپے مالیت کی جیولری پہنی نظر آئیں۔

نیشنل ایوارڈ جتینے والی دہلی سے تعلق رکھنے والی کیرتی سینن بھی بالی ووڈ میں ایک آؤڈ سائیڈر تھیں۔

عطا تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ نیک نام اور اچھی ساکھ والے ججز کے نام پر کون اعتراض کرے گا، اچھے طریقے سے یہ معاملات چل رہے ہیں۔

عنایہ کے دل میں پیدائشی سوراخ تھا، والدین علاج کی سکت نہیں رکھتے تھے، نواز شریف نے ننھی عنایہ کا علاج ذاتی خرچ پر کروایا۔

سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پاکستان خطرات سے نکل آیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کور کمیٹی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر نے مزید کہا کہ میرے بیگ سے میرا قیمتی سامان اور تحائف چوری ہوگئے ہیں۔

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ عدالتوں میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ہزاروں ارب کے کیسز فیصلوں کے منتظر ہیں۔

دنیا کی سب سے قیمتی اور مہنگا چاکلیٹ براعظم جنوبی امریکا کے ہسپانوی بولنے والے ملک ایکواڈور میں دستیاب ہے۔

لبنان کی عسکریت پسند مزاحمتی ملیشیا حزب اللہ نے کہا ہے کہ جنوبی لبنان کے ٹاؤن بازوریہ پر اسرائیلی بمباری میں حزب اللہ کے سینئیر کمانڈر علی نعیم شہید ہوگئے۔

اسرائیلی فورسز نے وحشیانہ حملوں کے 175روز مکمل کر لیے۔ عرب میڈیا کے مطابق غزہ سے فلسطینی میڈیا آفس نے اپنے بیان میں کہا کہ 7 اکتوبر سے ابتک اسرائیلی فورسز نے غزہ کی پٹی میں 2 ہزار 888 وحشیانہ حملے کیے۔

برطانوی آرمی نے سپاہیوں اور افسران کو داڑھی رکھنے کی اجازت دے دی۔

QOSHE - سہیل وڑائچ - سہیل وڑائچ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سہیل وڑائچ

39 18
30.03.2024

مسئلہ سیاسی ہو یاعدالتی، صحافتی ہویا انتظامی، ہمارے ہاں تقسیم اس قدر زیادہ ہے کہ فوراً یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ یہ تیرے جج ہیں یا میرے جج ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے ریاستی مداخلت پر احتجاج کیا تو ایک بارپھر تضادستان کی تقسیم واضح ہو گئی۔ یہ جائزہ لیا جانے لگا کہ یہ تیرے جج ہیں یا میرے جج؟حالانکہ میرے ،تیرے کو چھوڑ کر انہیں ہمارے جج ہی کہنا ،سوچنا اور لکھنا چاہئے ۔یہی تقسیم صحافیوں کے بارے میں بھی اپنالی گئی ہے۔ انصافیوں نے کچھ کو میرے صحافی اور کچھ کو تیرے صحافی بنا رکھا ہے۔ میرے صحافی جھوٹ، پراپیگنڈا اور فیک نیوز بھی دیں تو واہ واہ اورتیرے صحافی سچ بھی لکھیں تو لفافے۔ یہی حال سیاست دانوں نے بیوروکریسی کا بنا رکھا ہے میرے افسر اور تیرے افسر کی تقسیم ایسی ہے کہ جو نئی حکومت آتی ہے وہ ماضی میں تعینات افسروں کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور اپنے پسندیدہ افسروں کو تعینات کر دیتی ہے۔بدقسمتی سے جرنیلوں کے بارے میں بھی یہی رویہ ہے کہ ایک زمانے میں انصافی جنرل باجوہ کی تعریفیں کرتےنہیں تھکتے تھے آج کل ان پر الزام لگاتے نہیں تھکتے ۔نونی بھی ججوں، جرنیلوں،افسروں اور صحافیوں کے بارے میں اسی افراط و تفریط کا شکار ہیں ،جب تک تضادستان میں یہ تقسیم رہے گی یہاں بہتری نہیں آئے گی ہم سب کو دل بڑا کرنا چاہئے کہ کوئی جج، افسر ،جرنیل یا صحافی ہمارے خلاف فیصلہ کر دے یا کچھ لکھ دے تو اسے بھی قبول کرنا چاہئے۔ معاشرے اختلاف کو قبول کرکے زندہ رہتے ہیں مگر اختلاف کو جرم بنانا، قومی بیماری کے مترادف ہے، یاد رکھیے کل کے دشمن آج کے دوست ہوتے ہیں اور کل کے دوست آج کے دشمن بھی ہوسکتے ہیں، اس لئے کسی بھی شخص، چاہے وہ جج ہو یا جرنیل ،صحافی ہو یا افسر ،کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے اسے غلطی کا مارجن دیں ہر ایک کو بے ایمان، بے انصاف اور بکا ئو مال قرارنہ دے دیں ،ہو سکتا ہے کہ اس کی ایماندارانہ رائے ہی آپ کے خلاف ہو ۔چھ ججوں کی شکایت کو دیکھیں یہ نہ دیکھیں کہ وہ تیرے جج ہیں یا میرے ؟ان کی شکایت کا ازالہ اور تفتیش ہونی چاہئے نہ کہ ہم ان کے ماضی کو کھنگالنا شروع........

© Daily Jang


Get it on Google Play