انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے 70 کروڑ ڈالر قرض کی اگلی قسط حاصل کرنے اور چھ ارب ڈالر کا طویل المدت بیل آوٹ پیکج حاصل کرنےکیلئے حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ابتک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق بجلی کی قیمت میں پانچ سے سات روپے فی یونٹ جبکہ گیس کی قیمت میں 350روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک اضافے کی تجاویز زیر غور ہیں۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ عام آدمی، کمرشل صارفین اور انڈسٹری بجلی و گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پہلے ہی شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت اپنی سہولت کیلئے آئی ایم ایف سے لئے گئے قرض کی ادائیگی کیلئے مزید مالی بوجھ ان پر ڈالنے کا سوچ رہی ہے تو اسے کسی بھی لحاظ سے قابل تحسین اقدام قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے بھی افسوسناک ہے کہ عام انتخابات سے قبل موجودہ حکومتی اتحاد بجلی کی قیمت میں کمی کے وعدے اور یقین دہانیاں کرواتا رہا ہے۔ تاہم حکومت ملتے ہی انہوں نے پھر وہی روایتی طرز حکومت ہی جاری رکھنے کو ترجیح دی ہے جس کی وجہ سے گزشتہ 76 سال سے ملک کی معیشت کھوکھلی ہو چکی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے جہاں انڈسٹری میں کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے وہیں عام آدمی کے ساتھ ساتھ صنعتکاروں اور تاجروں کیلئے بھی بجلی کے بلوں کی ادائیگی سب سے بڑا معاشی مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ صورتحال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ گزشتہ تین دہائیوں کی بدانتظامی اور غلط پالیسیوں کا خمیازہ ہے جسے ہم آج بھگت رہے ہیں۔ ایسے میں اگر موجودہ حکومت بھی اس پرانی روش کو برقرار رکھنے کی پالیسی پر عمل جاری رکھتی ہے تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ بہت جلد یہ معاشی مسئلہ ملک میں انارکی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈسٹری کو جس ریٹ پر بجلی اور گیس فراہم کی جا رہی ہے اس کے ہوتے ہوئے انڈسٹری کیلئے پیداواری عمل جاری رکھنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ماضی میں بھی ہر حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بعد سود کی ادائیگی کیلئےبجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھاتی رہی ہے لیکن اس طرز عمل کا آج تک ملک یا قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ اس وقت ملک میں رائج کم از کم اجرت کے قانون کے تحت بھی اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ 30سے 40 ہزار روپے ماہانہ کمانے والے گھرانوں کیلئے یہ ممکن ہی نہیں رہا ہے کہ وہ ماہانہ ہزاروں روپے بجلی اور گیس کے بل کی مدمیں اضافی ادا کریں۔دوسری طرف پاکستان میں انرجی سیکٹر کا ایک اور بڑا پالیسی تضاد یہ ہے کہ گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ ان کے زیادہ استعمال پر صارفین کو سہولت فراہم کرنے کی بجائے ریٹ مزید بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ گیس کے حوالے سے یہ پالیسی کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے کہ گیس کے قدرتی ذخائر میں کمی کے باعث پاکستان کو اپنے استعمال کیلئےایل این جی بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہے اس لئے گیس کی راشنگ یا استعمال میں بچت ضروری ہے۔ تاہم بجلی کے معاملے میں یہ پالیسی کسی طرح بھی مستحسن قرار نہیں دی جا سکتی ۔اگر حکومت نے کیپسٹی چارجز کے نام پر بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کو ان کی پوری استعداد کے مطابق ہی ادائیگیاں کرنی ہیں تو پھر اس بجلی کو استعمال میں لانا چاہئے ناکہ بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں بجلی بنائے بغیر ہی کیپسٹی چارجز کے نام پر اپنی جیبیں بھرتی رہیں۔

اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ بجلی کی اضافی پیداوار کی کھپت کے لئے بجلی کی قیمتوں میں کمی کرے تاکہ صارفین کو کسی حد تک ریلیف مل سکے۔ اس وقت پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی مجموعی استعداد 46ہزار میگاواٹ سے زائد ہے جبکہ بجلی کی مجموعی کھپت یا استعمال 37 سے 41 ہزار میگاواٹ تک محدود ہے۔ ایسے میں اگر حکومت صنعتی اور گھریلو صارفین کیلئے بجلی کی قیمت کم کر دے تو ناصرف بجلی کی پوری پیداوار استعمال کی جا سکے گی بلکہ پاکستان کو ایل پی جی گیس کی درآمد پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالرز کی بھی بچت ہو گی۔ ماضی کے ریکارڈ کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بجلی کی اضافی پیداوار کے کیپسٹی چارجز ادا کرنے کیلئےبجلی کی قیمت میں اضافے کی پالیسی سے ملک کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوا ہے۔ اس پالیسی کے باعث بجلی کے استعمال میں مزید کمی کی وجہ سےکیپسٹی چارجز کا حجم مزید بڑھتا جا رہا ہے اور صارفین کیلئےبجلی بھی مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس اگر گیس کی قیمت میں اضافہ کر کے بجلی کی قیمت کم کر دی جائے تو لوگ خودبخود گیس کے مقابلے میں بجلی کے استعمال کو ترجیح دیں گے اور حکومت کو کیپسٹی چارجز کی مد میں ادا کی جانے والی اضافی ادائیگیوں سے بھی نجات مل جائے گی۔ علاوہ ازیں اس وقت پاکستان کو جن معاشی چیلنجز کا سامنا ہے ان کا تقاضا ہے کہ جب تک عوام کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتیں حکومت مہنگے اور غیر پیداواری ترقیاتی منصوبوں پر قومی وسائل ضائع نہ کرے۔ یہ اقدامات اس لئے بھی انتہائی ضروری ہیں کہ اگر حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا تو لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور پھر انہیں قابو کرنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔

سینئر رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر کا کہنا ہے کہ الیکشن میں تحریک انصاف کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا۔

سعودی عرب، مصر، اردن اور قطر سمیت دیگر تمام عرب ممالک کے ساتھ کام کررہے ہیں، امریکی صدر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ریلی میں شیر افضل مروت کی ایک شخص کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے سابق ٹی ٹوئنٹی کپتان شاہین آفریدی کو کوئی بھی بیان جاری کرنے سے روک دیا۔

کراچی میں یومِ علی کے موقع پر پولیس نے ٹریفک پلان جاری کردیا۔

لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 38 پیسے کمی کردی گئی، لائٹ ڈیزل آئل کی نئی قیمت 167روپے 80 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی۔

اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی برائے فلسطین فرانسسکا البانیز کی رپورٹ پر اقوام متحدہ انسانی حقوق دفتر میں جرح کی گئی۔

وزیر خزانہ کی توجہ ملک میں اسٹیل درآمدات کی اسمگلنگ، انڈر انوائسنگ کی جانب مبذول کروائی جائے گی۔

خورشید شاہ نے یہ بھی کہا کہ معیشت کو بہتر کرنے کیلئے مؤثر اور دیرپا فیصلے کرنے ہوں گے۔

ملک بھر کے 300 سے زائد وکلاء نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق کل شہری عاطف علی کی درخواست پر سماعت کریں گے، رجسٹرار آفس نے کاز لسٹ جاری کردی۔

پی سی بی نے شاہین آفریدی سے منسوب بیان پریس ریلیز میں جاری کیا تھا۔

جیو نیوز پشاور کے بیورو چیف شکیل فرمان علی سے ڈکیتی کی واردات ہوگئی۔

اداکار اجے دیو گن اور انکی اہلیہ کاجول بالی ووڈ کی بہت زیادہ پسند کی جانے والی فلمی جوڑیوں میں شامل ہے۔

وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سینیٹ انتخابات کے بائیکاٹ کا بہانہ بنا رہی ہے۔

بھارتی گلوکار، لائیو پرفارمر، کمپوزر، اداکار اور ٹیلی ویژن میزبان شان تانو مکھرجی المعروف شان نے کہا ہے کہ بھارتی موسیقی میں اس وقت تبدیلی کا عمل کا جاری ہے۔

QOSHE - کاشف اشفاق - کاشف اشفاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کاشف اشفاق

11 1
01.04.2024

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے 70 کروڑ ڈالر قرض کی اگلی قسط حاصل کرنے اور چھ ارب ڈالر کا طویل المدت بیل آوٹ پیکج حاصل کرنےکیلئے حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ابتک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق بجلی کی قیمت میں پانچ سے سات روپے فی یونٹ جبکہ گیس کی قیمت میں 350روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک اضافے کی تجاویز زیر غور ہیں۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ عام آدمی، کمرشل صارفین اور انڈسٹری بجلی و گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پہلے ہی شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت اپنی سہولت کیلئے آئی ایم ایف سے لئے گئے قرض کی ادائیگی کیلئے مزید مالی بوجھ ان پر ڈالنے کا سوچ رہی ہے تو اسے کسی بھی لحاظ سے قابل تحسین اقدام قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے بھی افسوسناک ہے کہ عام انتخابات سے قبل موجودہ حکومتی اتحاد بجلی کی قیمت میں کمی کے وعدے اور یقین دہانیاں کرواتا رہا ہے۔ تاہم حکومت ملتے ہی انہوں نے پھر وہی روایتی طرز حکومت ہی جاری رکھنے کو ترجیح دی ہے جس کی وجہ سے گزشتہ 76 سال سے ملک کی معیشت کھوکھلی ہو چکی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے جہاں انڈسٹری میں کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے وہیں عام آدمی کے ساتھ ساتھ صنعتکاروں اور تاجروں کیلئے بھی بجلی کے بلوں کی ادائیگی سب سے بڑا معاشی مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ صورتحال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ گزشتہ تین دہائیوں کی بدانتظامی اور غلط پالیسیوں کا خمیازہ ہے جسے ہم آج بھگت رہے ہیں۔ ایسے میں اگر موجودہ حکومت بھی اس پرانی روش کو برقرار رکھنے کی پالیسی پر عمل جاری رکھتی ہے تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ بہت........

© Daily Jang


Get it on Google Play