فیصل آباد میں پتنگ اڑانے کیلئے استعمال ہونے والی دھاتی ڈور گلے پر پھرنے سے ایک نوجوان کی المناک موت نے ایک طرف جہاں پورے شہر کو سوگوار کیا ہوا ہے وہیں یہ سانحہ اس اہم مسئلے پر قابو پانے کے حوالے سے انتظامیہ اور حکومت کی کوششوں پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اپنے والدنواز شریف کے ہمراہ اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے نوجوان کے ورثا سے اظہار تعزیت کیلئے فیصل آباد کا دورہ کر کے بہت اچھا اقدام کیا ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقبل میں ایسے اقدامات کئے جائیں کہ آئندہ کوئی شخص اس قاتل ڈور کا نشانہ نہ بنے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے نوٹس لینے اور ملزموں کی گرفتاری کیلئے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دینے کے بعد پولیس نے بھی اس واقعہ کے مبینہ ملزم گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔ تاہم اس سانحے کے اصل ذمے دار وہ کسٹم افسران ہیں جن کی اشیر باد سے یہ دھاتی ڈور بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہے اور اب تک اس سے ان گنت زندگیاں ضائع ہو چکی ہیں جبکہ آئے روز کوئی نہ کوئی شہری اس کی زد میں آ کر زخمی ہو جاتا ہے۔ اسلئے اگر حکومت اس خونیں کھیل کو واقعی ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ صرف دھاتی ڈور سے پتنگ اڑانے کے مرتکب مبینہ ملزموں کی گرفتاری تک محدود نہ رہے بلکہ اس ڈور کو فروخت کرنے والوں، اسے درآمد کرنے والوں اور اس کو کسٹم کلیرنس دینے والے کسٹم افسران کو بھی ٹریس کر کے قرار واقعی سزائیں دےتاکہ آئندہ کوئی اس گھناونے کھیل کا حصہ نہ بن سکے۔ حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر دھاتی ڈور بیرون ملک سے درآمد ہی نہ ہو سکے گی تو اس کی فروخت اور اس سے پتنگ بازی بھی ممکن نہیں رہے گی لیکن اگر ماضی کی طرح اب بھی سارا زور پتنگ اڑانے والوں کی گرفتاریوں تک محدور رہا تو یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ کچھ عرصے بعد خدانخواستہ پھر کوئی ایسا حادثہ ہو گا اور ہم ایک اور جان کے ضیاع پر آنسو بہا رہے ہوں گے۔

اگر حکومت اس خونیں کھیل کو روکنے میںواقعی سنجیدہ ہے تو اسے اس ناسور کےمستقل خاتمے کیلئے اس کی جڑیں ختم کرنا ہوں گی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے ان کسٹم افسران کی فہرستیں تیار کی جانی چاہئیں جو دھاتی ڈور کی بیرون ملک سے کسٹم کلیرنس یا سمگلنگ کرنے والوں کی سرپرستی میں ملوث ہیں۔ کسٹم کی یہ کالی بھیڑیں دھاتی ڈور کو فش نیٹ اور فشنگ راڈ میں استعمال کرنے والی ڈوری کے طور پر کسٹم کلیرنس دے کر لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے دیگر متعلقہ محکموں کو بھی یہ ہدایات جاری کی جا سکتی ہیں کہ دھاتی ڈور یا اسے بنانے کا خام مال کسی بھی شکل میں بیرون ملک سے درآمد یا سمگل نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح پولیس کے محکمے کو بھی اس حوالے سے اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ عمومی طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ جب بھی حکومت یا عدالت کی طرف سے پتنگ بازی اور دھاتی ڈور کے باعث کسی شہری کی موت پرنوٹس لیا جاتا ہے۔ پولیس حکام اس موقع پر اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے بہت سے بیگناہوں کو بھی پکڑ کر اندر کر دیتے ہیں ، اس طرح اعلیٰ حکام کی جانب سے ہونے والی سرزنش سے بھی بچ جاتے ہیں اور اپنے لئے اوپر کی کمائی کا ایک اور راستہ بھی نکال لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ انٹیلی جنس اداروں اور پولیس کی خفیہ برانچ کی مدد سے پتنگیں بنانے اور دھاتی ڈور کی تیاری اور فروخت میں ملوث افراد کی نشاندہی کرکے ان کا قلع قمع کرے۔

اسی طرح اب یہ بحث بھی ختم ہو جانی چاہیے کہ پتنگ بازی یا بسنت ایک تہوار ہے اور اسے کسی نہ کسی شکل میں جاری رہنا چاہیے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسے کسی کھیل یا تفریح کی اجازت کا کوئی تصور نہیں ہے جو دوسروں کی زندگی کیلئے خطرہ بن جائے اور اس کی وجہ سے لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہو جائیں۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو دھاتی ڈور سے پتنگ اڑانے والے بھی اس موت کے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنا کہ اسے فروخت کرنے والے، بنانے والے اور کسٹم کلیرنس دینے والے ہیں۔ اگر پتنگ بازی کے شوقین افراد اس تفریح کو ایک محفوظ کھیل کے طور پر جاری رکھنا چاہتے تو اس کے بہت سے راستے نکالے جا سکتے تھے لیکن ایک دوسرے سے مقابلے اور آگے نکلنے کی دوڑ میں پتنگ بازی کے شوقین افراد نے ہی دھاتی ڈور کے استعمال کو زیادہ سے زیادہ عام کیا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب ایک عشرہ قبل انسانی جانوں کے ضیاع کو دیکھتے ہوئے عدالت نے اس پر پابندی لگائی تھی تو پتنگ بازی کے شوقین افراد کو خود رضاکارانہ طور پر عمل کرنا چاہیے تھا لیکن جس طرح ہر سال لاکھوں، کروڑوں روپے اس کام پر ضائع کئے جاتے ہیں۔

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بحیثیت قوم ہم اپنی تفریح کیلئے کسی کی جان لینے کو بھی تیار ہیں جو کسی بھی صورت قابل تحسین نہیں۔ اس حوالے سے والدین کا کردار سب سے اہم ہے اگر وہ اپنے بچوں کے شوق کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے سختی سے انہیں اس کام سے باز رکھنے کا عہد کر لیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ اس خونیں کھیل سے جڑی تمام تر معاشی سرگرمیاں اپنی موت آپ مر جائیں گی اور آئندہ کسی ماں کا لعل اس طرح راہ چلتے گلے پر ڈور پھرنے سے سرراہ تڑپ تڑپ کر اپنی جان نہیں گنوائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

سینئر رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر کا کہنا ہے کہ الیکشن میں تحریک انصاف کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ریلی میں شیر افضل مروت کی ایک شخص کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے سابق ٹی ٹوئنٹی کپتان شاہین آفریدی کو کوئی بھی بیان جاری کرنے سے روک دیا۔

کراچی میں یومِ علی کے موقع پر پولیس نے ٹریفک پلان جاری کردیا۔

لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 38 پیسے کمی کردی گئی، لائٹ ڈیزل آئل کی نئی قیمت 167روپے 80 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی۔

اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی برائے فلسطین فرانسسکا البانیز کی رپورٹ پر اقوام متحدہ انسانی حقوق دفتر میں جرح کی گئی۔

وزیر خزانہ کی توجہ ملک میں اسٹیل درآمدات کی اسمگلنگ، انڈر انوائسنگ کی جانب مبذول کروائی جائے گی۔

خورشید شاہ نے یہ بھی کہا کہ معیشت کو بہتر کرنے کیلئے مؤثر اور دیرپا فیصلے کرنے ہوں گے۔

ملک بھر کے 300 سے زائد وکلاء نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق کل شہری عاطف علی کی درخواست پر سماعت کریں گے، رجسٹرار آفس نے کاز لسٹ جاری کردی۔

پی سی بی نے شاہین آفریدی سے منسوب بیان پریس ریلیز میں جاری کیا تھا۔

جیو نیوز پشاور کے بیورو چیف شکیل فرمان علی سے ڈکیتی کی واردات ہوگئی۔

اداکار اجے دیو گن اور انکی اہلیہ کاجول بالی ووڈ کی بہت زیادہ پسند کی جانے والی فلمی جوڑیوں میں شامل ہے۔

وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سینیٹ انتخابات کے بائیکاٹ کا بہانہ بنا رہی ہے۔

قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے کہا ہے کہ بحیثیت کپتان شاہین آفریدی کے مشوروں کی قدر کی ہے۔

بھارتی گلوکار، لائیو پرفارمر، کمپوزر، اداکار اور ٹیلی ویژن میزبان شان تانو مکھرجی المعروف شان نے کہا ہے کہ بھارتی موسیقی میں اس وقت تبدیلی کا عمل کا جاری ہے۔

QOSHE - چوہدری سلامت علی - چوہدری سلامت علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

چوہدری سلامت علی

8 1
01.04.2024

فیصل آباد میں پتنگ اڑانے کیلئے استعمال ہونے والی دھاتی ڈور گلے پر پھرنے سے ایک نوجوان کی المناک موت نے ایک طرف جہاں پورے شہر کو سوگوار کیا ہوا ہے وہیں یہ سانحہ اس اہم مسئلے پر قابو پانے کے حوالے سے انتظامیہ اور حکومت کی کوششوں پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اپنے والدنواز شریف کے ہمراہ اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے نوجوان کے ورثا سے اظہار تعزیت کیلئے فیصل آباد کا دورہ کر کے بہت اچھا اقدام کیا ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقبل میں ایسے اقدامات کئے جائیں کہ آئندہ کوئی شخص اس قاتل ڈور کا نشانہ نہ بنے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے نوٹس لینے اور ملزموں کی گرفتاری کیلئے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دینے کے بعد پولیس نے بھی اس واقعہ کے مبینہ ملزم گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔ تاہم اس سانحے کے اصل ذمے دار وہ کسٹم افسران ہیں جن کی اشیر باد سے یہ دھاتی ڈور بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہے اور اب تک اس سے ان گنت زندگیاں ضائع ہو چکی ہیں جبکہ آئے روز کوئی نہ کوئی شہری اس کی زد میں آ کر زخمی ہو جاتا ہے۔ اسلئے اگر حکومت اس خونیں کھیل کو واقعی ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ صرف دھاتی ڈور سے پتنگ اڑانے کے مرتکب مبینہ ملزموں کی گرفتاری تک محدود نہ رہے بلکہ اس ڈور کو فروخت کرنے والوں، اسے درآمد کرنے والوں اور اس کو کسٹم کلیرنس دینے والے کسٹم افسران کو بھی ٹریس کر کے قرار واقعی سزائیں دےتاکہ آئندہ کوئی اس گھناونے کھیل کا حصہ نہ بن سکے۔ حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر دھاتی ڈور بیرون ملک سے درآمد ہی نہ ہو سکے گی تو اس کی فروخت اور اس سے پتنگ بازی بھی ممکن نہیں رہے گی لیکن اگر ماضی کی طرح اب بھی سارا زور پتنگ اڑانے والوں کی گرفتاریوں تک محدور رہا تو یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے........

© Daily Jang


Get it on Google Play