ایک ایسے شخص کا تصور کریں جس کا بال بال قرض میں جکڑا ہو، گھر میں کھانے پینے کے لالے پڑے ہوں، اُس کی بیوی ان پڑھ ہو، اُس کے تیرہ بچے ہوں جن میں سب سے بڑے بچے کی عمر سولہ سال اور سب سے چھوٹی بچی ابھی گود میں ہو،وہ شخص جو کماتا ہو سودکی ادائیگی میں نکل جاتا ہو اور ہر تین ماہ بعد اسے نیا قرض لے کر گھر کا خرچ چلانا پڑتا ہو...وہ شخص اگر کہے کہ میں نے اپنے بچوں کو،مزید قرض لے کر، امریکی جامعات میں پڑھنے کیلئے بھیجنا ہے تو سننے والے شاید اُس کے جذبے کی داد تو دیں مگر ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دیں گے کہ پہلے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کا بندوبست تو کرلو پھر یہ خواب بھی پورا کر لینا۔جی ہاں، ہمارا حال بھی اسی شخص جیسا ہے، گھر میں دانے نہیں اور چپے چپے پر یونیورسٹیاں کھول رکھی ہیں،سوا دو کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے اور نارووال میں ہم نے یونیورسٹی بنا دی ہے۔

ہمارے لیڈران کے پسندیدہ نعروں میں سے ایک یہ ہے کہ ’ہم اِس شہر میں یونیورسٹی بنائیں گے ‘ ۔اگر کوئی انہیں سمجھانے کی کوشش کرے کہ جناب یونیورسٹیاں کھمبیوں کی طرح نہیں اگائی جاتیں تو جواب میں کہتے ہیں کیا نارووال کے عوام کا حق نہیں کہ وہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں!یہ اِس قدر کھوکھلی بات ہے کہ جس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔چلیے اعداد و شمار سے بات کرتے ہیں۔پورے پاکستان میں اِس وقت 154 جامعات ہیں جن میں سے 51 میں رئیس الجامعہ (وائس چانسلر)ہی موجود نہیں ، اِن جامعات میں یہ ذمہ داری ’عارضی ‘طور پر کسی پروفیسر کے پاس ہے۔اِن پروفیسر خواتین و حضرات کی قابلیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک یونیورسٹی میں ایسی ہی خاتون پروفیسرکو وی سی کا عارضی چارج دیا گیا ہے جن کی اپنی بھرتی ہی مشکوک تھی۔سلیکشن بورڈ نےاُنہیں بھرتی کرتے وقت اپنی سفارشات میں لکھا تھا کہ موصوفہ نے انٹرویو میں پوچھے گئے کسی سوال کا جواب نہیں دیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اپنے ہی شعبےیعنی نباتیات کے بارے میں کچھ علم نہیں تاہم یونیورسٹی کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے امیدوار کوہمدردانہ بنیادوں پر گریڈ بیس میں اِس امید کے ساتھ ایسوسی ایٹ پروفیسر بھرتی کیا جاتا ہے کہ یہ اپنے مضمون کاعلم حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔مجھے اِس بات پر کبھی یقین نہ آتا اگر میں نے اپنی آنکھوں سے سلیکشن بورڈ کی سفارشات نہ پڑھی ہوتیں اور اِس بابت اخبار میں خبرنہ دیکھی ہوتی۔یہ ہیں وہ حالات جن میں ہم روزانہ ایک نئی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرتے ہیں۔

دنیا بھرمیں یونیورسٹیاں تدریس و تحقیق دونوں کام کرتی ہیں، ابتدائی تعلیم کیلئے اسکول اور اُس کے بعدکالج ہوتے ہیں جبکہ جامعات کالجوں سے مختلف ہوتی ہیں،وہاں دو قسم کے کام ہوتے ہیں ،ایک تو وہ انڈر گریجویٹس پیدا کرتی ہیں جو مختلف شعبوں کے پروفیشنل بن کر معاشرے کے مفید شہری بنتے ہیں جبکہ یونیورسٹیوں کا دوسرا اور اصل کام تحقیق ہوتا ہے جو ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے طلبا اپنے اساتذہ کی زیر نگرانی کرتے ہیں ۔ اِس تحقیق کے نتیجے میں یونیورسٹی سے نت نئے آئیڈیاز جنم لیتے ہیں جیسے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی وجہ سے سلیکون ویلی بنی اوروہاںگوگل ، فیس بک، یاہو، ایپل او ر مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کی بنیاد پڑی،یہ سلیکون ویلی دراصل اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی مرہون منت ہے ۔ اسی طرح کووڈ کی مشہور زمانہ ویکسین ایسٹرا زینیکا آکسفورڈ یونیورسٹی میں تیار کی گئی جس کی فروخت سے اربوں ڈالر کمائے گئے ،یہ کمائی آکسفورڈ یونیورسٹی کی بدولت ممکن ہوئی۔ ایسی یونیورسٹیاں صرف ملکی پیداوار بڑھانے کا ہی سبب نہیں بنتیں بلکہ وہاں سے دانشور ، محقق، سائنسدان، فلسفی اور ایسے ہنر مند افراد فارغ التحصیل ہوکر نکلتے ہیں جو نہ صرف اُس شہر بلکہ اپنے ملک کی پیداوار میں حصہ ڈالتے ہیں۔بہاولپور یونیورسٹی کے ایک نوجوان پروفیسر سعید احمد بزدار نے اِس موضوع پر ’علم کی راہداریاں‘ کے نام سے نہایت عمدہ کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے دنیا کی اُن دس غیر معمولی یونیورسٹیوں کا حال لکھا ہے جنہوں نے دنیا بدل ڈالی۔

جب بھی دنیا کی یونیورسٹیوں کی مثال دی جا ئے تو جواب میں ہمارے وی سی صاحبان ایک ہی بات کرتے ہیںکہ صاحب اسٹینفورڈ اور آکسفورڈ کا بجٹ دیکھیں اور ہمارا، اگر ہمیں بھی آپ اتنے پیسے دیں تو پھر دیکھیں ہم ٹوپی میں سے کبوتر نکال کر دکھا دیں گے۔پہلےہم حب الوطنی کے جذبےسے سرشار ہو کراِس ’دلیل ‘ سے قائل ہوجاتے تھے مگر اب نہیں،اگرا ٓپ کسی یونیورسٹی میں ایک دن گزار کر دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ وسائل اور پیسے کا وہاں کس طرح ضیاع ہوتا ہے ۔ویسے بھی تخلیقی آئیڈیا پیسے کا محتاج نہیں ہوتا، پاکستان کی کوئی ایک بھی یونیورسٹی یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اُس نے حکومت کو معاشی بدحالی سے نکلنے کا منصوبہ بنا کردیا تھا مگر حکومت نے اُس پر عمل نہیں کیا ،دوسری طرف اگر آپ معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی فہرست نکال کر دیکھیں گے تو پتاچلے گا کہ مردان سے لے کر نارووال تک ہر گلی میں ایک پی ایچ ڈی موجود ہے ۔ویسے تو یہ ایک مثال ہی اِن جامعات کی بد انتظامی اور نالائقی کا ثبوت دینے کیلئے کافی ہے مگر خواتین جامعات کا حال اِس سے بھی برا ہے ، لڑکیوں کی بہت سی یونیورسٹیاں ایسی ہیں جہاں خواہ مخواہ مرد اسٹاف بھرتی کر لیا گیا ہے ، اُن اسامیوں پر بھی مرد ٹھونس دئیے گئے ہیں جہاں عورتوں کو باآسانی نوکری مل سکتی تھی ۔ اصولاً تو خواتین یونیورسٹی کی تمام اسامیوں پر ،پروفیسر سے لے کر نائب قاصد تک، خواتین کو بھرتی کیا جانا چاہیے لیکن اُس نالائقی کا کیا کریں جس کی بنیاد پر اِن خواتین یونیورسٹیوں کی رئیس الجامعات کی مسندوں پر عورتوں کی بجائے مرد بٹھا دیئے گئے۔اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کو عورتوں کی یونیورسٹی میں اِس لیے داخل کرواتا ہے کہ وہ مخلوط تعلیم کے ادارے میں اسے نہیں بھیجنا چاہتا تو ایسی یونیورسٹی، جہاں کمپیوٹر آپریٹر سے لےکر رجسٹرار تک اور خاکروب سے لے کر خزانچی تک، سب مرد ہی بیٹھے ہوں تو کیا فائدہ عورتوں کیلئے یونیورسٹی بنانے کا!

ویسے تو ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور جامعات کوئی استثنیٰ نہیں ،اِسلئے صرف اِن پر تبرہ کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس واقعی اب اِن جامعات کو دینےکیلئے پیسے نہیںہوتے ہیں جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں کمیشن نے پورے پاکستان کے وی سی صاحبان کو میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں افطاری پر بلایا اور یہ اعلامیہ جاری کیا کہ اپنے اخراجات کم کریں۔ اِس سادگی پہ کون نہ مرجائے....وغیرہ وغیرہ۔

اعلامیہ کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے آئین کی بحالی، منصفانہ انتخابات کے بعد جمہوریت کی بحالی، عدلیہ کی آزادی اور سویلین اداروں کی بالادستی پر اتفاق کیا۔

متعدد اسلامی تنظیموں نے وائٹ ہاؤس کے باہر افطار تقریب کے اہتمام کا اعلان کیا ہے۔

لیویز حکام کا کہنا ہے کہ جدید آلات نہ ہونے کے باعث آگ بجھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

چٹوگرام ٹیسٹ کے چوتھے دن بنگلادیش نے سری لنکا کے 511 رنز کے تعاقب میں 7 وکٹ پر 268 رنز بنالیے ہیں۔

جمعیت علماء اسلام ف کے رہنما راشد سومرو نے کہا ہے کہ جے یو آئی نے 2018 کے انتخابات تسلیم نہیں کئے تھے، 2024 کے انتخابات بھی تسلیم نہیں ہیں اب فیصلے میدان میں ہوں گے، انہوں نے 2 مئی کو حکومت کے خلاف کراچی میں دھرنا دینے کا اعلان بھی کیا۔

ہالی ووڈ کے صف اول کی فلمی جوڑی جنیفر لوپز اور بین افلیک ان دنوں نیویارک میں گھر خریدنے کے لیے سرگرداں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف نے کہا کہ میرے خلاف پرانے کیسز کھولے جارہے ہيں۔

اسٹول اپنی جگہ سے ہل کر پیروں کے نیچے سے نکل گیا اور گلے میں رسی کا پھندا لگتے ہی اسکی موت واقع ہوگئی۔

بالی ووڈ کی سینیئر اداکارہ روینہ ٹنڈن کا کہنا ہے کہ اپنی نوجوانی کے دنوں میں جب وہ بالی ووڈ کی فلمی دنیا کا حصہ بنیں تو انھوں نے کئی فلمیں صرف اس وجہ سے نہیں کیں کیونکہ ان فلموں میں انھیں جو لباس پہننے کے لیے کہا جاتا یا رقص میں جو انداز اپنانے کو کہا جاتا تو انھوں نے اس کو غیر مناسب کہہ کر انکار کر دیا تھا۔

مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف نےحکومت سے بشریٰ بی بی کے طبی معائنے کامطالبہ کردیا۔

اس اقدام کا مقصد آٹزم میں مبتلا افراد اور ان کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کرنا ہے۔

بالی ووڈ کے معروف پروڈیوسر اور فلمساز بونی کپور نے کہا کہ انکے بیٹے ارجن کمار کی فلمی دنیا میں ترقی کے پیچھے سلمان خان ہیں، انھوں نے کہا کہ سلمان خان نے انھیں کہا تھا کہ ارجن ایک اداکار بن سکتا ہے اور اس میں یہ صلاحیت موجود ہے۔

خیبرپختونخوا ریونیو اتھارٹی نے رواں سال کے پہلے 9 ماہ میں 30اعشاریہ3 ارب روپے کے محاصل اکٹھے کر لئےجو گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں 35 فی صد زیادہ ہیں۔

ویسٹ انڈیز ویمن کرکٹ ٹیم کے خلاف سیریز کےلیے پاکستان ویمن کرکٹرز کا کیمپ منگل کے روز کراچی کے حنیف محمد ہائی پرفارمنس سینٹر میں شروع ہوگیا۔

ملزم سے درزی کی دکان سے چوری کیے گئے 12 سوٹ برآمد کرلیے گئے ہیں۔

QOSHE - یاسر پیر زادہ - یاسر پیر زادہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

یاسر پیر زادہ

40 1
03.04.2024

ایک ایسے شخص کا تصور کریں جس کا بال بال قرض میں جکڑا ہو، گھر میں کھانے پینے کے لالے پڑے ہوں، اُس کی بیوی ان پڑھ ہو، اُس کے تیرہ بچے ہوں جن میں سب سے بڑے بچے کی عمر سولہ سال اور سب سے چھوٹی بچی ابھی گود میں ہو،وہ شخص جو کماتا ہو سودکی ادائیگی میں نکل جاتا ہو اور ہر تین ماہ بعد اسے نیا قرض لے کر گھر کا خرچ چلانا پڑتا ہو...وہ شخص اگر کہے کہ میں نے اپنے بچوں کو،مزید قرض لے کر، امریکی جامعات میں پڑھنے کیلئے بھیجنا ہے تو سننے والے شاید اُس کے جذبے کی داد تو دیں مگر ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دیں گے کہ پہلے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کا بندوبست تو کرلو پھر یہ خواب بھی پورا کر لینا۔جی ہاں، ہمارا حال بھی اسی شخص جیسا ہے، گھر میں دانے نہیں اور چپے چپے پر یونیورسٹیاں کھول رکھی ہیں،سوا دو کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے اور نارووال میں ہم نے یونیورسٹی بنا دی ہے۔

ہمارے لیڈران کے پسندیدہ نعروں میں سے ایک یہ ہے کہ ’ہم اِس شہر میں یونیورسٹی بنائیں گے ‘ ۔اگر کوئی انہیں سمجھانے کی کوشش کرے کہ جناب یونیورسٹیاں کھمبیوں کی طرح نہیں اگائی جاتیں تو جواب میں کہتے ہیں کیا نارووال کے عوام کا حق نہیں کہ وہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں!یہ اِس قدر کھوکھلی بات ہے کہ جس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔چلیے اعداد و شمار سے بات کرتے ہیں۔پورے پاکستان میں اِس وقت 154 جامعات ہیں جن میں سے 51 میں رئیس الجامعہ (وائس چانسلر)ہی موجود نہیں ، اِن جامعات میں یہ ذمہ داری ’عارضی ‘طور پر کسی پروفیسر کے پاس ہے۔اِن پروفیسر خواتین و حضرات کی قابلیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک یونیورسٹی میں ایسی ہی خاتون پروفیسرکو وی سی کا عارضی چارج دیا گیا ہے جن کی اپنی بھرتی ہی مشکوک تھی۔سلیکشن بورڈ نےاُنہیں بھرتی کرتے وقت اپنی سفارشات میں لکھا تھا کہ موصوفہ نے انٹرویو میں پوچھے گئے کسی سوال کا جواب نہیں دیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اپنے ہی شعبےیعنی نباتیات کے بارے میں کچھ علم نہیں تاہم یونیورسٹی کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے امیدوار کوہمدردانہ بنیادوں پر گریڈ بیس میں اِس امید کے ساتھ ایسوسی ایٹ پروفیسر بھرتی کیا جاتا ہے کہ یہ اپنے مضمون کاعلم حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔مجھے اِس بات پر کبھی یقین........

© Daily Jang


Get it on Google Play