گورنمنٹ کالج لاہور میں ہمارے ایک دوست فربہی میں اپنی مثال آپ تھے، لیکن ان کا حکمِ ناطق تھا کہ ’میں موٹا نہیں ہوں، دراصل میرے ارد گرد سب دوست بہت دُبلے پتلے ہیں‘ اس لیے دیکھنے والوں کو دھوکا ہوتا ہے ۔جب کہ ہمارا خیال تھا کہ ان کی پرسنیلٹی بہت گرینڈ تھی، جو چھوٹے جسم میں فِٹ آ ہی نہیں سکتی تھی۔ہمارے لحیم شحیم دوست کے وظائف و لطائف کی فہرست بھی جسیم ہے، مگر ہم یہاں خود کو ان کی بس ایک ’خوبی‘ تک محدود رکھیں گے کہ جب حضرت کالج کی معروف گھاٹی پر ٹہل رہے ہوتے تھے تو دیکھنے والوں پر عمیق غورو خوض کے بعد یہ عقدہ کھلتا کہ موصوف کھڑے کھڑے فقط تھرتھرا رہے ہیں، آ رہے ہیں کہ جا رہے ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت کا معاملہ بھی ہمارے اس دوست کے سرابی خرام جیسا ہی ہے، دیکھنے والوں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ جمہوریت آ رہی ہے کہ جا رہی ہے۔انتخابات ہو چکے، حکومتیں بن چکیں، مگر احباب بہ ضد ہیں کہ ملک میں جمہوریت کم زور ہو رہی ہے، پارلیمان ضعیف ہو رہی ہے، سویلین ادارے نڈھال ہوتے جا رہے ہیں۔ گیلپ کا ایک سروے نظر سے گزرا جس کے مطابق اس وقت ملک میں جمہوریت کے حامیوں اور مخالفوں کی تعداد برابر ہے، یعنی 38 فی صد عوام یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت بہ طور ایک سیاسی نظام انکے مسائل کا حل فراہم کرنے کی اہل ہے، جب کہ اتنی ہی تعداد میں لوگوں کا خیال ہے کہ جمہوری نظام ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس سروے کے چشم کشا اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کے پرستاروں میں بہ تدریج کمی واقع ہو رہی ہے، 2014 میںجمہوریت پر ایمان رکھنے والوں کی تعداد 73 فی صد تھی جو اب گھٹ کر اڑتیس فی صد رہ گئی ہے۔ اس سروے سے ہٹ کر اگر گزشتہ انتخاب کے لو ووٹر ٹرن آئوٹ پر نظر ڈالی جائے تو اس خیال کی مزید تصدیق ہوتی ہے۔

یہ نکتہ سمجھنے کے لیے ہمیں علمِ سیاسیات کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں کہ جس نظام کے تحت عوام کی زندگی آسان نہ ہو پائے، بلکہ مشکل تر ہو جائے، عوام اس سے بدظن ہونے لگتے ہیں۔ جس ملک کی لگ بھگ آدھی آبادی خطِ غربت عبور کر چکی ہو، بے روزگاری بڑھ رہی ہو، افراطِ زر بگٹٹ ہو چکا ہو، دو وقت کی روٹی تعیش قرار پائے، بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتیں ڈرائونا خواب بن جائیں، بنیادی تعلیم و صحت خوش حالوں کا شغل قرار پائے، اشرافیہ 17.4 بلین ڈالر کی سب سڈی کھا جائے، غریب غریب تر ہوتا جائے، اس ملک میں جمہوریت کے حامی کم نہیں ہوں گے تواور کیا ہو گا؟ یاد رہے کہ بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات سے بھی بڑا عفریت جو اس ملک میں بسنے والوں کو درپیش ہے وہ احساسِ عدم تحفظ ہے، اپنا حال اور اپنے بچوں کا مستقبل غیر محفوظ ہونے کا شدید احساس ۔ دنیا میں کوئی ایک جمہوری ملک بھی ایسا نہیں جس کے عوام ایسی بلائوں کے نرغے میں ہوں، اور شہری ’’جمہوریت زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے ہوں۔ بلکہ اس وقت تو اچھی بھلی جمی جمائی جمہوریتیں ابتری کا شکار نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل Global Democratic Recession کی اصطلاح مسلسل سننے میں آتی ہے۔

پاکستان میںجمہوریت کے منکرین میں اضافے کی ایک بنیادی وجہ معاشرے میںحد سے بڑھتی ہوئی پولرائزیشن بھی قرار دی جاتی ہے، یہ ہماری آنکھوں دیکھی بات ہے، قوم ’یوتھیوں‘ اور ’پٹواریوں‘ میں تقسیم ہو گئی جو بلا مبالغہ ایک دوسرے کی نظر میں نیم انسان ہیں۔اور جب ہمیں یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ہمارا سیاسی ’’دشمن‘‘ ہمارے وجود کو مٹانا چاہتا ہے تو حکومت کو کھلی چھٹی مل جاتی ہے کہ وہ شیطانی اپوزیشن کی مشکیں کسنے کے لیے طے شدہ جمہوری اصولوں کی نفی کرے، اور اپوزیشن بھی ابلیسی حکومت سے نجات کے لیے ’’جہاد‘‘ پر آمادہ ہو جاتی ہے، اور شہری ان تمام غیر جمہوری حرکات کو دیکھ کر بھی اپنی اپنی پارٹی سے وفادار رہتے ہیں، ’’اپنے اپنے‘‘ ججوں کی مدح کرتے ہیں، ’’اپنے اپنے‘‘ صحافیوں کو آزادی اظہار کا امام بتاتے ہیں۔ نتیجتاً جمہوریت سے جواب دہی کا تصور ختم ہوتا جاتا ہے، اور اکائونٹ ایبلیٹی کے بغیرجمہوریت کم زور اور بے ثمر ہونے لگتی ہے، اور بہ طور ایک سیاسی نظام عوام میں اعتماد کھوبیٹھتی ہے۔

جمہوریت کی جڑیں کاٹنے میں جو سب سے تیزدھار درانتی استعمال ہو رہی ہے اس کا نام ہے پاپولزم، ساری دنیا کی طرح پاکستان کو بھی اس کا سامنا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد یار لوگوں نے ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ کا نعرہ بلند کر دیا، مگر لبرل ڈیموکریسی کی چند معاشی ناکامیوں نے جلد ہی ایک نئے حریف کو جنم دیا، یہ لیڈر عوام کے نام پر سیاست کرتے ہیں، مگر ان کے تمام اطوار جمہوریت گریز ہیں، یہ بہ ظاہرجمہوریت کی زبان بولتے ہیں، مگرجمہوری اصولوں سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے، جمہوری راستے سے حکومت میں آتے ہیں اور پھر ’’قانونی‘‘ طور پر جمہوریت کو مسخ کرتے ہیں، پیچیدہ مسائل کے سادہ حل بتاتے ہیں، مثلاً، لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی اور سب مسئلے حل ہو جائیں گے، سمندر پار پاکستانی ڈالر بھیجیں گے اور سب ٹھیک ہو جائے گا، اناپ شناپ، یعنی کچھ بھی۔ ابھی پچھلے ہفتے گنڈا پور صاحب نے کرپشن ختم کرنے کا ایک مجرب نسخہ بتایا ہے، کہ اگر کوئی رشوت مانگے تو اس کے سر پر اینٹ دے ماریں۔پاپولزم بہت خوش نما نعرے بلند کرتا ہے، ڈلیوری نہیں کر سکتا، جس سے لوگ جمہوری نظام سے مزید متنفر ہوتے ہیں۔

چلتے چلتے، ایک سوال کا ایمان داری سے جواب دیجیے، آپ کو کیا لگ رہا ہے، پاکستان میں جمہوریت آ رہی ہے کہ جا رہی ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

اسرائیلی اخبار نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے ریزرو فوجی بھی طلب کرلیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قائد عوام کا عدالتی قتل در اصل تیز رفتاری سے ترقی کرنے والے ملک کی پیٹھ میں خنجر گھوپنے کی طرح تھا۔

بھارتی حکومت پر واضح کیا ہے کہ ہم ان سے مکمل تحقیقات دیکھنا چاہتے ہیں، ان تحقیقات کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں، امریکا

پولیس کے مطابق ڈاکوؤں نے کوچ میں مسافروں سے لوٹ مار کرکے ایک شخص کو اغوا بھی کرلیا ہے۔

میٹا نے ایک بیان میں سروس ڈاؤن ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انجینئرنگ ٹیم معاملے کی تحقیقات کررہی ہیں۔

جاپانی مٹسوتیکے مشروم دنیا میں سب مہنگی مشروم ہے اسکے ایک پائونڈ کی قیمت پانچ سو امریکی ڈالرز کے مساوی ہے، یہ ٹرفلز مشروم کی حریف ہے اور اسے جاپانی کھانوں میں سب قیمتی جزو تصور کیا جاتا ہے۔

فلسطین کی فتح پارٹی کے ترجمان عبدالفتاح دولہ نے کہا کہ فلسطینیوں کے اندرونی مسائل میں ایران کی مداخلت ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے اپنے خط میں کہا کہ عدلیہ میں 31 سال سے خدمات انجام دے رہا ہوں، عدلیہ کے وقار کو بلند کرنے کے لیے میری غیر متزلزل خدمات ہیں۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ یکم جون سے شروع ہوگا۔

بالی ووڈ کی ایکشن فلموں کے معروف اداکار رندیپ ہودا نے 2019 میں اس وقت عالیہ بھٹ کا دفاع کیا تھا جب بالی ووڈ کی متنازع بیانات کے دینے حوالے سے معروف اداکارہ کنگنا رناوت کی جانب سے عالیہ کو انکی فلم گلی بوائے میں انکے کام پر انھیں معمولی اور اوسط درجے کی اداکارہ قرار دیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا طیارہ پیرس میں خراب ہوگیا۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس سے خبر ایجنسی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ سڑک کے راستے پیرس سے برسلز روانہ ہوئے۔

پاکستانیوں کی اکثریت نے جھوٹ بول کر حکومتی امداد اور مراعات لینے کی مخالفت کردی۔

بہاول نگر میں طالبہ کو اغوا کے بعد مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعے میں نیا موڑ آگیا۔

ابتدائی تفتیش کے مطابق خطوط پر اسٹیمپ سب ڈویژنل پوسٹ آفس سیٹلائٹ ٹاؤن کی ہے۔

QOSHE - حماد غزنوی - حماد غزنوی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

حماد غزنوی

17 1
04.04.2024

گورنمنٹ کالج لاہور میں ہمارے ایک دوست فربہی میں اپنی مثال آپ تھے، لیکن ان کا حکمِ ناطق تھا کہ ’میں موٹا نہیں ہوں، دراصل میرے ارد گرد سب دوست بہت دُبلے پتلے ہیں‘ اس لیے دیکھنے والوں کو دھوکا ہوتا ہے ۔جب کہ ہمارا خیال تھا کہ ان کی پرسنیلٹی بہت گرینڈ تھی، جو چھوٹے جسم میں فِٹ آ ہی نہیں سکتی تھی۔ہمارے لحیم شحیم دوست کے وظائف و لطائف کی فہرست بھی جسیم ہے، مگر ہم یہاں خود کو ان کی بس ایک ’خوبی‘ تک محدود رکھیں گے کہ جب حضرت کالج کی معروف گھاٹی پر ٹہل رہے ہوتے تھے تو دیکھنے والوں پر عمیق غورو خوض کے بعد یہ عقدہ کھلتا کہ موصوف کھڑے کھڑے فقط تھرتھرا رہے ہیں، آ رہے ہیں کہ جا رہے ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت کا معاملہ بھی ہمارے اس دوست کے سرابی خرام جیسا ہی ہے، دیکھنے والوں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ جمہوریت آ رہی ہے کہ جا رہی ہے۔انتخابات ہو چکے، حکومتیں بن چکیں، مگر احباب بہ ضد ہیں کہ ملک میں جمہوریت کم زور ہو رہی ہے، پارلیمان ضعیف ہو رہی ہے، سویلین ادارے نڈھال ہوتے جا رہے ہیں۔ گیلپ کا ایک سروے نظر سے گزرا جس کے مطابق اس وقت ملک میں جمہوریت کے حامیوں اور مخالفوں کی تعداد برابر ہے، یعنی 38 فی صد عوام یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت بہ طور ایک سیاسی نظام انکے مسائل کا حل فراہم کرنے کی اہل ہے، جب کہ اتنی ہی تعداد میں لوگوں کا خیال ہے کہ جمہوری نظام ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس سروے کے چشم کشا اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کے پرستاروں میں بہ تدریج کمی واقع ہو رہی ہے، 2014 میںجمہوریت پر ایمان رکھنے والوں کی تعداد 73 فی صد تھی جو اب گھٹ کر اڑتیس فی صد رہ گئی ہے۔ اس سروے سے ہٹ کر اگر گزشتہ انتخاب کے لو ووٹر ٹرن آئوٹ پر نظر ڈالی جائے تو اس خیال کی مزید تصدیق ہوتی ہے۔

یہ نکتہ سمجھنے کے لیے ہمیں علمِ سیاسیات کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں کہ جس........

© Daily Jang


Get it on Google Play