کچے کے ڈاکوؤں کے بارے میں تو آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ وہ کس طرح سرعام شہریوں، سیکورٹی و ریسکیو اہلکاروں کو اغوا کرکے جسمانی تشدد کی ویڈیوز بناتے اور اہل خانہ سے کروڑوں روپے تاوان مانگتے،وصول کرتے ہیں۔ تاوان نہ ملنے کی صورت میں اغوا کنندہ کو بے دردی سے قتل کرکے لاش ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے جبکہ پنجاب ، سندھ کی پولیس ابھی تک ان پرقابو پانے میں ناکام ہے۔ بھارتی سرحدی علاقےسے منسلک کچے کے علاقے میں ان ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین بھارتی اسلحہ، راکٹ لانچر سندھ پنجاب پولیس سے چھینی گئی بکتر بند گاڑیاں، وائرلیس سسٹم تک موجود ہیں۔ وہ ایک حکمت عملی کے تحت لوٹ مار کا باقاعدہ نظام چلا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ جب پورے ملک میں سیکورٹی خدشات کے نام پر انٹرنیٹ سروس معطل کردی جاتی ہے کچے کے ڈاکو بلاتعطل اس سہولت سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ کچے کے ڈاکوؤں کو کوئی وفاقی ادارہ پوچھ سکتا ہے نہ دو صوبوں کی پولیس ان پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ کچھ اہلکار ان کے سہولت کار بھی ہیں۔ خدشہ یہی نظرآتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈاکو طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند کالعدم مسلح تنظیموں کی طرح ریاست کیلئے بہت بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ خوف اور دہشت کی بنیاد پر ایسی مسلح تحریک بھی شروع کر دیں جس کے پیچھے ہم بھارت کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں اور ریاست ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے اور خدانخواستہ ایسا وقت نہ آجائے کہ کچے کے ڈاکوؤں سے ان کی شرائط پر مذاکرات کرکے انہیں قومی دھارے میں لانے کے نعرے، دعوے سننا پڑجائیں۔ محو حیرت ہوں کچے کے ڈاکو سرعام شہریوں پر تشدد کی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں ریاست کو للکارتے اور مذاق اڑاتے ہیں لیکن ریاست پھر بھی خاموش ہے۔ کہنے کو تو ریاست سے زیادہ طاقت ور کوئی نہیں ہوسکتا۔ کچے کے ڈاکو کس کھیت کی مولی ہیں کہ انہیں کچلا نہیں جاسکتا۔ ہم نے ماضی قریب میں ایسے بہت ٹوپی ڈرامے دیکھے ہیں، نام نہاد پولیس آپریشنز کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔ وزرائے اعلیٰ مورچوں کا دورہ کرکے اہلکاروں کو شاباش دیتے ہیں، کروڑوں کے بجٹ، اسلحہ گولہ بارود، خصوصی الاؤنسز کے نام پر خرچ کردیئے جاتے ہیں نتیجہ صفر جمع صفر، جواب صفر۔ ہماری تو عقل یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئی جاتی ہے کہ جنہیں ہم کچے کے ڈاکو کہتے ہیں دراصل یہ مستقبل کے دہشت گرد ہیں طرفہ تماشا دیکھئے کہ افغان و پاکستانی طالبان گٹھ جوڑ دن رات تباہی کررہا ہے، بلوچستان میں کالعدم بی ایل اے سمیت علیحدگی پسندی کے نام پر دہشت گرد دندناتے پھر رہے اور کچے کے ڈاکو اپنی ”ریاست“ مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ہماری حکمت عملی کیا ہے؟ خیال تو یہ آتا ہے کہ اگر یہ سب دہشت گرد عناصر اور کچے کے ڈاکو مستقبل میں ایک دوسرے کے سہولت کار بن گئے یا ان سب نے ریاست کے خلاف ایکا کرکے چاروں طرف سے بیک وقت محاذ کھول دیا تو انجام کیا ہوگا؟ اگر ریاست چاہے تو آج کچے کے ڈاکوؤں کو نیست و نابود کرسکتی ہے۔

ریاست کے پاس اختیار بھی ہے طاقت اور ہتھیار بھی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کچے کے ڈاکو معصوم شہریوں، سیکورٹی، ریسکیو اہلکاروں کو یرغمال بناکر تاوان وصول کریں اور ریاست تماشا دیکھتی رہے۔ ہر گزرتے دن کچے کے اردگرد علاقوں میں خوف کی فضاء پھیلتی جارہی ہے۔ قومی شاہراہوں، موٹرویز پر انتظامیہ کی طرف سے واضح اعلانات لکھے نظر آتے ہیں کہ ان شاہراہوں پر دن کے اوقات میں قافلوں کی صورت اور شام کے بعد سفر سے گریز کریں۔ واضح شواہد موجود ہیں کہ کچے کے ڈاکو جب چاہیں، جیسے چاہیں، جس سے چاہیں، مسافر گاڑیاں روک کر بھتہ وصول کرتے ہیں۔اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مسافروں کی طرف سے مزاحمت پر انہیں فائرنگ کرکے قتل تک کردیا جاتا ہے اور قانون یہاں بالکل بے بس نظر آتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ڈاکو کچے سے نکل کر پکے (شہر) کے علاقے تک پہنچ چکے ہیں۔یہ ایک انتباہ ہے کہ مستقبل میں ریاست کیلئے وہ ایک بڑا چیلنج بننے والے ہیں۔

یاد رکھئے ڈاکو ڈاکو ہی ہوتا ہے اس کا کام صرف ڈاکے مارنا، عوام کا مال و متاع لوٹنا ہوتا ہے۔ عوام کچے کے ڈاکوؤں کی طرح پکے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں بھی لٹ رہے ہیں۔ کوئی ایک مثال ہو تو ہم بتائیں، یہاں ہر اینٹ کے نیچے کوئی نہ کوئی کچا پکا ڈاکو نکلے گا۔ پکے کے ڈاکوؤں کی یہ کہانی تقریباً 77 سال پرانی ہے۔ یہ سادہ لوح لوگوں کو وقفے وقفے سے کبھی جمہوریت تو کبھی آمریت کے نام پر سبز باغ دکھاتے ہیں۔ انکی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں، بجلی، گیس، پٹرول اور نت نئے ٹیکسوں کی صورت غریب عوام کا خون نچوڑتے ہیں۔ بڑے بڑے عوامی منصوبوں کے نام پر کرپشن کرتے ہیں۔ چلتے اداروں کو پہلے مفلوج کرتے ہیں پھر مقروض کرکے انہیں ناکارہ بنا دیتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ نجکاری کے نام پر ان اداروں کی نیلامی کردی جاتی ہے اور اپنے ہی کارندوں کے ذریعے دیوالیہ ہوئے ادارے اونے پونے خرید کر پرائیویٹ سیکٹر کے نام پر چند سیٹھوں کے حوالے کرکے قوم کو ان کاغلام بنایا جارہا ہے۔ کچے پکے کے ڈاکوؤں کی یہ ادھوری کہانی ابھی جاری ہے۔

رپورٹس کے مطابق حادثے کے بعد انجن پٹری سے اتر گیا جبکہ تمام مسافر محفوظ رہے۔

وزیر اعظم نے مغرب کی نماز سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ادا کی، شہبازشریف آج قیام اللیل اور دعا میں بھی شریک ہوں گے۔

سال 2024 کا پہلا مکمل سورج گرہن آج ہوگا اور یہ اگلے 20 سال تک دوبارہ دکھائی نہیں دے گا، اس کا دورانیہ 4؍منٹ 27؍سیکنڈ ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

شہر میں ایک ماہ کے دوران اسٹریٹ کرائم کی 6780 وارداتیں پیش آئیں۔

جہلم کی تحصیل دینہ میں مدرسے کے معلم کی 10 طالب علموں سے مبینہ بدفعلی کا انکشاف ہوا ہے، پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے سینیٹ کا اجلاس 9 اپریل کو طلب کرلیا۔

مسلم لیگ ن خیبرپختونخوا کے جنرل سیکریٹری مرتضیٰ جاوید عباسی کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات پر اختیار ولی کا بیان حقیقت کے 100فیصد منافی ہے، ان سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے۔

سعودی ولی عہد نے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کے اعزاز میں افطار ڈنر دیا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ دھماکا موٹر سائیکل ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے کیا گیا۔

بالی ووڈ کی پرکشش اداکارہ کیرتی سنن کا کہنا ہے کہ انھیں اس وقت بہت مایوسی ہوتی ہے جب اکثر اسٹار کڈز (بالی ووڈ کے اداکاروں کے بچوں) کو زیادہ اچھے مواقع مل جاتے ہیں۔

سکھ حریت پسند رہنما گرپت ونت سنگھ پنو نے بیرون ملک مقیم سکھ شہریوں پر بھارتی قاتلانہ حملوں سے متعلق اہم انکشافات کردیے۔

بابر اعظم نے کہا کہ بیٹنگ اور کپتانی کو الگ رکھتا ہوں، محنت اور لگن کامیابی کی بنیاد ہے۔

بالی ووڈ کے معروف اداکار اکشے کمار اور انکی اہلیہ ٹوئنکل کھنہ کی شادی 17 جنوری 2001 کو ہوئی، انکے دو بچے جن میں بیٹا آراو اور بیٹی نیتارا ہے۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں اور مسلط کردہ جنگ کو 6 ماہ مکمل ہوگئے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کے مطابق غزہ میں بچوں کی اموات تمام انسانیت پر دھبہ ہیں۔

مقتول شہروز بٹ کے بھائی رضوان نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قاتل ڈاکوؤں کو معاف کرتے ہیں۔

اسرائیلی وزیر دفاع یواف گیلٹ نے ایران کے جوابی حملوں کے بیانات پر ردعمل دیدیا۔

QOSHE - عرفان اطہر قاضی - عرفان اطہر قاضی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

عرفان اطہر قاضی

27 12
08.04.2024

کچے کے ڈاکوؤں کے بارے میں تو آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ وہ کس طرح سرعام شہریوں، سیکورٹی و ریسکیو اہلکاروں کو اغوا کرکے جسمانی تشدد کی ویڈیوز بناتے اور اہل خانہ سے کروڑوں روپے تاوان مانگتے،وصول کرتے ہیں۔ تاوان نہ ملنے کی صورت میں اغوا کنندہ کو بے دردی سے قتل کرکے لاش ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے جبکہ پنجاب ، سندھ کی پولیس ابھی تک ان پرقابو پانے میں ناکام ہے۔ بھارتی سرحدی علاقےسے منسلک کچے کے علاقے میں ان ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین بھارتی اسلحہ، راکٹ لانچر سندھ پنجاب پولیس سے چھینی گئی بکتر بند گاڑیاں، وائرلیس سسٹم تک موجود ہیں۔ وہ ایک حکمت عملی کے تحت لوٹ مار کا باقاعدہ نظام چلا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ جب پورے ملک میں سیکورٹی خدشات کے نام پر انٹرنیٹ سروس معطل کردی جاتی ہے کچے کے ڈاکو بلاتعطل اس سہولت سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ کچے کے ڈاکوؤں کو کوئی وفاقی ادارہ پوچھ سکتا ہے نہ دو صوبوں کی پولیس ان پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ کچھ اہلکار ان کے سہولت کار بھی ہیں۔ خدشہ یہی نظرآتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈاکو طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند کالعدم مسلح تنظیموں کی طرح ریاست کیلئے بہت بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ خوف اور دہشت کی بنیاد پر ایسی مسلح تحریک بھی شروع کر دیں جس کے پیچھے ہم بھارت کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں اور ریاست ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے اور خدانخواستہ ایسا وقت نہ آجائے کہ کچے کے ڈاکوؤں سے ان کی شرائط پر مذاکرات کرکے انہیں قومی دھارے میں لانے کے نعرے، دعوے سننا پڑجائیں۔ محو حیرت ہوں کچے کے ڈاکو سرعام شہریوں پر تشدد کی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں ریاست کو للکارتے اور مذاق اڑاتے ہیں لیکن ریاست پھر بھی خاموش ہے۔ کہنے کو تو ریاست سے زیادہ طاقت ور کوئی نہیں ہوسکتا۔ کچے........

© Daily Jang


Get it on Google Play