ہم اپنے گرد معاشی بدحالی کی آکاس بیل کو ہٹا نہیں پا رہے کیونکہ اس کیلئے جو عملی اقدامات ہونے چاہئیں وہ نہیں کیے جا رہے ۔بجلی کی چوری 500ارب روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ 1900ارب روپے کے ٹیکس مقدمات معرض التوا میں ہیں۔ کم ٹیکس یا بالکل ہی ٹیکس سے استثنیٰ والے شعبوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے ۔ ایک انداز ے کے مطابق اگر ان شعبوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جا ئے تو ریونیو میں قریب 3000ارب روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے ۔ ضروری یہ ہے کہ ٹیکس کے نظام میں شفافیت لائی جائے۔ سسٹم کو ڈیجیٹل کرنے سے چوری کا امکان کم ہو جاتا ہے اس لیے نئی حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے میں معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن سرفہرست ہونی چاہیے،ٹیکس چوری کو کم سطح پر لایا جائے اور ٹیکس نہ دینے والے شعبوں کو ٹیکس گزار بنایا جائے۔ نئی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج معاشی مشکلات اور توانائی بحران ہے ۔خطے میں سب سے مہنگی بجلی اور گیس پاکستان میں ہے جسکی وجہ سے عام آدمی گھریلو اور کمرشل صارف بل بھرنے کے قابل نہیں رہا اور مہنگی ترین بجلی کی بلا تعطل فراہمی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں کیونکہ بجلی چوری اور لائن لاسز کی مد میں سالانہ اربوںروپے حکومت کو جیب سے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اسکے علاوہ مہنگے ترین بجلی معاہدوں کے باعث بھی قومی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ بجلی کی کمپنیوں کو ادائیگیوں کا ہے ۔ توانائی کے بحران کیلئے بھی متبادل ذرائع دیکھنا ہوں گے جن کا حل پنجاب اور دوسرے صوبوں کے علاقے جہاں نہروں کا جال بچھا ہوا ہے ان پر ہائیڈل پاور پلانٹس ،جوہری توانائی ،سولر اور ونڈ ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دینا ہے تا کہ توانائی کے حصول کے سستے ترین ذرائع سے حاصل توانائی پر انحصار کی طرف بڑھاجائے ۔ حکومت کے مطابق مجوزہ بجٹ کا خسارہ پانچ ہزار ارب روپے کے قریب ہوسکتا ہے جو کل بجٹ کا نصف بنتا ہے ۔یہ کل خام پیداوار کا دس فیصد ہے جسے پانچ فیصد پر لانا بہت ضروری ہے مگر نئے ٹیکسز لگائے بغیر بجٹ خسارہ کم کرنا ممکن نہیں ہو گا ۔ سرمایہ کی غیر قانونی بیرون ملک منتقلی کو روکا جائے ۔ ایرا ن اور افغانستان سے اسمگلنگ کو ختم کیا جائے خواہ اس کیلئے بارڈرز کو سیل کرنا پڑے ۔ تنخواہ کے علاوہ اضافی فوائد بجلی ،گیس ، پٹرول ، ادویا ت ،سفر وغیرہ کی صورت میںجومراعات حکومتی اور ریاستی مشینری کو حاصل ہیں وہ ہماری معیشت کو سنبھلنے نہ دیں گی ۔عوامی نمائندوں اور نوکر شاہی سے فی الفور اضافی مراعات واپس لی جائیں۔ اسٹیٹ بینک نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بلند شرح سود نے ہماری مشکلات کم کرنے کی بجائے مزید بڑھائی ہیں۔ شرح سود میں اضافہ سرمایہ کاری کی رفتار کوسست کردیتا ہے ۔سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے شرح سود کم رکھی جائے ۔ افراط زر پر کنٹر ول اور روپے کی قدر میں اضافے کیلئے اسٹیٹ بینک اپنا کردار ادا کرے۔ پر تعیش اور لگژری اشیاء پر حکومت پہلے ہی پابندی عائد کر چکی ہے مگراسکا دائرہ کا ر اور بڑھایا جاسکتا ہے ،صرف ان درآمدات کی جو ملکی بر آمدات کی پیداوار بڑھانے میں مددگار ہوں جیسے خام مال اور جدید مشینری کی نہ صرف اجازت ہو بلکہ انہیں ٹیکس میں بھی خاطر خواہ چھوٹ دی جائے ۔ اس سے درآمدات و برآمدات میں جاری خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی ۔ اس سال قرضوں کی ادا ئیگی اور دیگر ضروریات کیلئے پاکستان کو 35ارب ڈالرز کی ضرورت ہو گی ۔ برآمدات میں اضافہ کیے بغیر یہ ہدف پورا کرنا ممکن نہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ایک ملک اپنی معیشت چلانے کی استعداد میں کمی کا شکار ہو گیا ہے ۔آئی ایم ایف اپنی شرائط پر قر ضے دیتاہے کیونکہ ایک قرض دینے ولے ادارے کی حیثیت سے اسے اپنی رقم کی واپسی کی ضمانت درکار ہو تی ہے جبکہ اصلاحات اور معاشی ڈسپلن کی سختی قرض لینے والے ملک کے بھی مفاد میں ہوتی ہے ۔ زیاد ہ رقم کا قرضہ حاصل کرنے اور زیادہ مدت تک پروگرام جاری رکھنے کے ضمن میں بعض غیر مقبول فیصلے سامنے آسکتے ہیں ۔ مالیاتی و ادارہ جاتی اصلاحات ، طریق کار کی بہتری ،اداروں کا ڈسپلن میں آنا، ٹیکس وصولی بہتر ہو نا ایسی باتیں ہیںجن سے آگے چل کر بعض معاملات ہموار ہو سکتے ہیں۔ اس باب میں کئی شعبوں کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے جن میں زراعت ،سروسز، تعمیرات ،زمینوںکا کاروبار ،پرچون دکانداروغیرہ طبقوں کے افرادکو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے،اوران افراد کی شمولیت سے حکومتی آمدنی بڑھے گی۔

کم قو می آمدنی کے باعث معیشت قرضوں پر چل رہی ہے اور اب تک ان کا حجم 64ہزار ارب روپے سے متجاوز ہو چکا ہے ۔ قصہ مختصر ہر بار نئے قرضوں کیلئے حکومت کو آئی ایم ایف کی کڑی سے کڑی کا شرائط کا سامنا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ عام آدمی معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے ، حکومت کو بجلی ،پیٹرول اور گیس کی قیمتیں آئے روز بڑھانی پڑرہی ہیں۔عوام کو پہلے ہی مہنگائی نے بدحال کر رکھا ہے اوپر سے آئی ایم ایف کی شرائط مزید برا حال کر دیں گی لیکن عوام کی پریشانی سے زیادہ حکومت کو آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کی خوشی ہو رہی ہے ،آئی ایم ایف کیلئے بھی پاکستانی حکومت سے اپنے مطالبات منوانا کوئی مشکل نہیں رہا ہے انہیں جو کچھ کہا جا رہاہے اس پر سر تسلیم خم کیا جا رہا ہے قرض لے کر قوم کو گروی رکھنے والوں نے قومی حمیت کا جنارہ تو برسوں پہلے ہی نکال دیا تھا معیشت کی بہتری کی آڑ میں رہی سہی کسر اب پوری کی جارہی ہے اسکے بعد بھی کہا جا رہا ہے کہ ہم ہی ملک و عوام کو اغیار کی غلامی سے نجات دلائیں گے۔ہمارے معاشی مسائل تبھی حل ہو سکتے ہیں جب ہم پرائیویٹ سیکٹر کیلئے اچھے مواقع پیدا کریں ،انھیں پوری طرح سے سپورٹ کریں ۔کشکول کی پالیسی کو اب ترک کرنا ہوگا ۔ اب تو کشکول لے کر نہ بھی جائیں تو اگلے کہتے ہیں کہ کشکول ان کی بغل میں ہے۔

اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیلی لڑاکا طیارے غزہ میں موجود نہیں ہیں۔

ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ مخالفین کو نشانہ بنانے سے باز نہیں آئیں گے۔

اردن کے حکام نے کہا کہ وہ اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی ایرانی طیارے کو مار گرانے کے لیے تیار ہیں۔

ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر وسیع پیمانے پر ڈرون حملے کیے ہیں۔

اپنے بیان میں ایڈرین واٹسن کا کہنا تھا کہ سویلین جہاز کو قبضے میں لینا ایرانی پاسداران انقلاب گارڈز کا اقدام قزاقوں جیسا ہے۔

کیبل کار کا حادثہ جمعے کے روز پیش آیا تھا، حادثے کی تحقیقات جاری ہیں۔

نوٹیفکیشن کے مطابق اسپیشل سیکریٹری داخلہ فضل الرحمان جے آئی ٹی کے کنونیر مقرر کیے گئے ہیں۔

دونوں ممالک کے تعلقات مشترکہ عقیدے، مشترکہ اقدار اور ثقافت پر مبنی ہیں: وزیراعظم

پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کی واردات تھانہ ڈھمن کے علاقہ ڈھوک میاں محراب میں پیش آئی۔

انھوں نے مزید لکھا کہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی جوائنٹ سیشن کے لیے ان کے پروڈکشن آرڈرجاری کریں۔

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) سندھ کے رہنما راشد محمود سومرو نے کہا ہے کہ ہم 6 جماعتی اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔

سکھ یاتری 22 اپریل کو واپس بھارت روانہ ہوں گے۔

آئی جی سندھ نے کہا کہ ٹیم اپنا کام کر رہی ہے، جلد ہی ٹھوس پیش رفت نظر آئے گی۔

شیخوپورہ کے کمپنی باغ میں جھولا گرنے کے حادثے میں 5 بچوں سمیت 6 افراد زخمی ہوگئے۔

شہداء کی نماز جنازہ میں پاک فوج کے سینئر افسران و جوان اور مقامی لوگوں نے شرکت کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ بہت جلد اعلیٰ سطح وفد پاکستان تشریف لا رہا ہے۔

QOSHE - محمد منصور خان - محمد منصور خان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد منصور خان

22 0
14.04.2024

ہم اپنے گرد معاشی بدحالی کی آکاس بیل کو ہٹا نہیں پا رہے کیونکہ اس کیلئے جو عملی اقدامات ہونے چاہئیں وہ نہیں کیے جا رہے ۔بجلی کی چوری 500ارب روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ 1900ارب روپے کے ٹیکس مقدمات معرض التوا میں ہیں۔ کم ٹیکس یا بالکل ہی ٹیکس سے استثنیٰ والے شعبوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے ۔ ایک انداز ے کے مطابق اگر ان شعبوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جا ئے تو ریونیو میں قریب 3000ارب روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے ۔ ضروری یہ ہے کہ ٹیکس کے نظام میں شفافیت لائی جائے۔ سسٹم کو ڈیجیٹل کرنے سے چوری کا امکان کم ہو جاتا ہے اس لیے نئی حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے میں معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن سرفہرست ہونی چاہیے،ٹیکس چوری کو کم سطح پر لایا جائے اور ٹیکس نہ دینے والے شعبوں کو ٹیکس گزار بنایا جائے۔ نئی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج معاشی مشکلات اور توانائی بحران ہے ۔خطے میں سب سے مہنگی بجلی اور گیس پاکستان میں ہے جسکی وجہ سے عام آدمی گھریلو اور کمرشل صارف بل بھرنے کے قابل نہیں رہا اور مہنگی ترین بجلی کی بلا تعطل فراہمی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں کیونکہ بجلی چوری اور لائن لاسز کی مد میں سالانہ اربوںروپے حکومت کو جیب سے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اسکے علاوہ مہنگے ترین بجلی معاہدوں کے باعث بھی قومی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ بجلی کی کمپنیوں کو ادائیگیوں کا ہے ۔ توانائی کے بحران کیلئے بھی متبادل ذرائع دیکھنا ہوں گے جن کا حل پنجاب اور دوسرے صوبوں کے علاقے جہاں نہروں کا جال بچھا ہوا ہے ان پر ہائیڈل پاور پلانٹس ،جوہری توانائی ،سولر اور ونڈ ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دینا ہے تا کہ توانائی کے حصول کے سستے ترین ذرائع سے حاصل توانائی پر انحصار کی طرف بڑھاجائے ۔ حکومت کے مطابق مجوزہ بجٹ کا خسارہ پانچ ہزار ارب روپے کے قریب ہوسکتا ہے جو کل بجٹ کا نصف بنتا ہے ۔یہ کل خام پیداوار کا........

© Daily Jang


Get it on Google Play