کچھ عرصہ ہوا میں نے ایک امریکی جریدے میں افغان طالبان سے متعلق رپورٹ پڑھی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دھیرے دھیرے افغان معاشرے میں جدیدیت کارنگ چھا رہا ہے، نوجوان یو ٹیوب کی جانب راغب ہو رہے ہیں، ماڈرن ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اور انٹر نیٹ پر دستیاب سائنسی اور فلسفیانہ معلومات میں انہیں کشش محسوس ہوتی ہے۔ اِس رپورٹ کا مطلب یہ نہیں کہ افغانستان میں کوئی انقلاب آنے والا ہے جس کے بعد وہاں ’رجیم چینج‘ ہو جائے گی اور افغان طالبان کی جگہ کوئی سیکولر حکومت آ جائے گی، نہیں، یہ رپورٹ فقط اِس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسان ترقی کرنا چاہتا ہے اور آج کے دور میں یہ ترقی صرف جدید اور سائنسی علوم حاصل کرنے سے ہی ممکن ہے۔ اِس بات کو پاکستان پر منطبق کر کے دیکھتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ ہم انتہا پسندی کی طرف مائل ہیں، ثبوت کے طور پر ملاحظہ ہو اچھرہ، لاہور کا واقعہ جس میں ایک عورت کے لباس پر کچھ لوگ اشتعال میں آ گئے اور جڑانوالہ کا واقعہ جہاں ہجوم نے مسیحی برادری کے گھروں کو نذرِ آتش کیا تھا۔ اِس نوعیت کے اور بھی بے شمار افسوس ناک واقعات ہیںجن سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ عمومی طور پر انتہا پسند ہو چکا ہے؟ بظاہر تو ایسے ہی لگتا ہے۔ آپ کسی کالج یا یونیورسٹی میں میں چلے جائیں، وہاں حجاب اور نقاب اوڑھنے والی لڑکیوں کی اکثریت نظر آئے گی، کیا اِس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ معاشرے پر مذہبی رنگ غالب آ رہا ہے؟ میری رائے میں ایسا نہیں ہے۔ جن واقعات کی میں نے مثال دی ہے وہ پاکستانی معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے، معاشرے نے کسی طور بھی اِن واقعات کو توثیق یا حوصلہ افزائی نہیں کی۔ یہ واقعات اِس لیے رونما نہیں ہوتے کہ لوگ جنونی ہو چکے ہیں بلکہ اِس لیے ہوتے ہیں کہ ریاست اپنی عملداری کو یقینی نہیں بناتی، ریاست نے یہ فرض کرلیا ہے کہ معاشرہ انتہا پسند ہو چکا ہے، لوگ مذہبی معاملات میں حساس واقع ہوئے ہیں، لہٰذا جب بھی کسی معاملے میں کوئی فرد یا گروہ مذہب کی آڑ لے کر لوگوں کو تشدد پر آمادہ کرتا ہے تو ایک طرح سے پورا معاشرہ اُس کی خاموش تائید کر رہا ہوتا ہے۔ ریاست کا یہ مفروضہ غلط ہے اور محض اپنی نا اہلی پر پردہ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے۔ جب کسی جگہ کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو متعلقہ پولیس افسر کا پہلا دفاع یہ ہوتا ہے کہ ’’معاملہ بہت حساس تھا اِس لیے ہم نے احتیاط سے کام لیا۔‘‘ ترجمہ:’’لوگوں کو آگ لگانے دو ، سرکاری اور نجی املاک تباہ کرنے دو، بعدمیں نامعلوم افرادکے خلاف پرچہ درج کرلیں گے، اِس وقت اِن مشتعل لوگوں کو روکنا حماقت ہے۔‘‘ یہ ہے وہ ’حکمت عملی‘ جس کی وجہ سے ہمیں پورا معاشرہ ہی شدت پسند لگنے لگا ہے۔

آج سے تیس سال پہلے لاہور جیسے شہر میں بھی لڑکیوں کے چار یا پانچ سرکاری کالج ہوا کرتے تھے، اُن کالجوں میں ماڈرن اور متمول طبقے کی لڑکیاں پڑھتی تھیں جن کی ’جدیدیت‘ کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کنیرڈ کالج کے سالانہ میگزین میں طالبات کی نیکر پہنے ہوئے تصاویر بھی شائع ہو جاتی تھیں۔ آج شہر میں بیسیوں سرکاری و نجی کالج ہیںجن میں پڑھنے والی لڑکیاں زیادہ تر اُس طبقےسے تعلق رکھتی ہیں جو تیس سال پہلے کالج میں داخلے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھیں، یہ بچیاں چونکہ قدامت پسند گھرانوں سے آتی ہیں اِس لیے زیادہ تر حجاب اور نقاب اوڑھے ہوئے ہوتی ہیں، جبکہ ماڈرن طبقے کی لڑکیاں گرامر اسکولوں میں پڑھتی ہیں یا ملک سے باہر چلی جاتی ہیں اور ہر دو جگہ اُن کا لباس جدید ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح آج سے ستّر سال پہلے جب لاہور کی آبادی سات لاکھ تھی تو شہر میں چلنے والی مذہبی تحریک میں ہر شخص نے حصہ لیا تھا، حتّیٰ کہ چیف سیکریٹری پنجاب کے دفتر میں بھی کوئی بندہ موجود نہیں تھا اور آخری خط خود چیف سیکریٹری نے اپنے ہاتھوں سے ٹائپ کیا تھا۔ آج اگر اسی نوعیت کی تحریک چلے تو شاید اُس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد، ستّر برس پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہو، جس کی وجہ سے ہم سمجھیں گے کہ معاشرے پر مذہبی رنگ غالب آرہا ہے مگر حقیقت یہ ہو گی کہ لاہور کے ہر گھر سے فرداُس تحریک میں شامل نہیں ہو گا جیسے پہلے ہوا تھا۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں، تین سال پہلے لاہور میں مذہبی تحریک چلانے کی کوشش کی گئی تھی، لوگوں کی تعداد بے حد کم تھی مگر ریاست نے روایتی بزدلی کی حکمت عملی کے تحت گھٹنے ٹیک دیے، اور ہمیں لگاکہ معاشرہ جنونی ہو گیا ہے۔

پاکستان میں صرف مذہبی طبقہ ہی انتہا پسند نہیں بلکہ لبرل لوگ بھی انتہا پسند سوچ کے حامل ہیں، اُن کا بس نہیں چلتاکہ مذہب کو لوگوں کی زندگیوں سے خارج ہی کر دیں، عام آدمی اِن دو انتہاؤں کے درمیان کہیں پایا جاتا ہے۔ لیکن ہر شخص، خواہ وہ مذہبی ہو یا لبرل یا معتدل نظریات کا حامل، زندگی میں ترقی کرنا چاہتا ہے اور یہ ترقی جدید اور سائنسی علوم حاصل کیے بغیر ممکن نہیں، لیکن مصیبت یہ ہے کہ ریاست اِس معاملےمیں بھی کمزوری دکھاتی ہے اور نصاب کو یوں تشکیل دیتی ہے کہ اسکولوں اور کالجوں سے تنقید ی شعور سے عاری بچے پیدا ہوکر نکلتے ہیں، اِن بچوں کے دماغوں میں یا تومہا حب الوطنی کے جذبات ہوتے ہیں یا پھر انتہا پسندانہ رجحانات، لیکن ترقی کی خواہش چونکہ فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے، اِس لیےوقت کے ساتھ ساتھ یہ بچے خود ہی ہاتھ پاؤں مار کر جدید علوم سے روشناس ہو جاتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ نہ تنگ نظر ہے اور نہ ہی لبرل، عوام کی غالب اکثریت معتدل مزاج ہے، یہ عوام اپنی زندگیوں کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، انہیں اپنا حق چاہیے اور اسی زندگی میں چاہیے، کوئی وعدہ فَردا انہیں مطمئن نہیں کر سکتا۔ عوام اپنے نمائندوں کو اسی لیے منتخب کرتے ہیں تاکہ وہ ان کی زندگیوں میں بدلاؤ لائیں۔ کسی بھی لیڈر کو عوام اِس لیے منتخب نہیں کرتے کہ وہ سر پر ٹوپی پہنتا ہے، ہاتھ میں تسبیح پھیرتا ہے یا خاتون لیڈر برقع اوڑھتی ہے، عوام نے ہمیشہ ماڈرن سوچ کے حامل لیڈران منتخب کیے، محمد علی جناح اِس کی سب سے بڑی مثال ہیں، مگر جناح کے بعد منتخب ہونے والے لیڈران نے خواہ مخواہ مذہب کا لبادہ اوڑھ لیا، انہیں لگا کہ شاید اِس سے اِن کا اقتدار بچ جائے گا یا یہ عوام میں مزید مقبول ہو جائیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اِس وقت پھر ایک موقع ہے، جو لیڈر بھی آگے بڑھ کر اِس تنگ نظری کا مقابلہ کرے گا/گی وہ امر ہوجائے گا/گی۔ باقی رہے نام اللہ کا، ماضی میں سب کچھ کر کے دیکھ لیا، ایک مرتبہ یہ نسخہ بھی آزما لیں!

اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیلی لڑاکا طیارے غزہ میں موجود نہیں ہیں۔

ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ مخالفین کو نشانہ بنانے سے باز نہیں آئیں گے۔

اردن کے حکام نے کہا کہ وہ اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی ایرانی طیارے کو مار گرانے کے لیے تیار ہیں۔

ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر وسیع پیمانے پر ڈرون حملے کیے ہیں۔

اپنے بیان میں ایڈرین واٹسن کا کہنا تھا کہ سویلین جہاز کو قبضے میں لینا ایرانی پاسداران انقلاب گارڈز کا اقدام قزاقوں جیسا ہے۔

کیبل کار کا حادثہ جمعے کے روز پیش آیا تھا، حادثے کی تحقیقات جاری ہیں۔

نوٹیفکیشن کے مطابق اسپیشل سیکریٹری داخلہ فضل الرحمان جے آئی ٹی کے کنونیر مقرر کیے گئے ہیں۔

دونوں ممالک کے تعلقات مشترکہ عقیدے، مشترکہ اقدار اور ثقافت پر مبنی ہیں: وزیراعظم

پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کی واردات تھانہ ڈھمن کے علاقہ ڈھوک میاں محراب میں پیش آئی۔

انھوں نے مزید لکھا کہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی جوائنٹ سیشن کے لیے ان کے پروڈکشن آرڈرجاری کریں۔

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) سندھ کے رہنما راشد محمود سومرو نے کہا ہے کہ ہم 6 جماعتی اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔

سکھ یاتری 22 اپریل کو واپس بھارت روانہ ہوں گے۔

آئی جی سندھ نے کہا کہ ٹیم اپنا کام کر رہی ہے، جلد ہی ٹھوس پیش رفت نظر آئے گی۔

شیخوپورہ کے کمپنی باغ میں جھولا گرنے کے حادثے میں 5 بچوں سمیت 6 افراد زخمی ہوگئے۔

شہداء کی نماز جنازہ میں پاک فوج کے سینئر افسران و جوان اور مقامی لوگوں نے شرکت کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ بہت جلد اعلیٰ سطح وفد پاکستان تشریف لا رہا ہے۔

QOSHE - یاسر پیر زادہ - یاسر پیر زادہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

یاسر پیر زادہ

42 10
14.04.2024

کچھ عرصہ ہوا میں نے ایک امریکی جریدے میں افغان طالبان سے متعلق رپورٹ پڑھی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دھیرے دھیرے افغان معاشرے میں جدیدیت کارنگ چھا رہا ہے، نوجوان یو ٹیوب کی جانب راغب ہو رہے ہیں، ماڈرن ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اور انٹر نیٹ پر دستیاب سائنسی اور فلسفیانہ معلومات میں انہیں کشش محسوس ہوتی ہے۔ اِس رپورٹ کا مطلب یہ نہیں کہ افغانستان میں کوئی انقلاب آنے والا ہے جس کے بعد وہاں ’رجیم چینج‘ ہو جائے گی اور افغان طالبان کی جگہ کوئی سیکولر حکومت آ جائے گی، نہیں، یہ رپورٹ فقط اِس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسان ترقی کرنا چاہتا ہے اور آج کے دور میں یہ ترقی صرف جدید اور سائنسی علوم حاصل کرنے سے ہی ممکن ہے۔ اِس بات کو پاکستان پر منطبق کر کے دیکھتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ ہم انتہا پسندی کی طرف مائل ہیں، ثبوت کے طور پر ملاحظہ ہو اچھرہ، لاہور کا واقعہ جس میں ایک عورت کے لباس پر کچھ لوگ اشتعال میں آ گئے اور جڑانوالہ کا واقعہ جہاں ہجوم نے مسیحی برادری کے گھروں کو نذرِ آتش کیا تھا۔ اِس نوعیت کے اور بھی بے شمار افسوس ناک واقعات ہیںجن سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ عمومی طور پر انتہا پسند ہو چکا ہے؟ بظاہر تو ایسے ہی لگتا ہے۔ آپ کسی کالج یا یونیورسٹی میں میں چلے جائیں، وہاں حجاب اور نقاب اوڑھنے والی لڑکیوں کی اکثریت نظر آئے گی، کیا اِس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ معاشرے پر مذہبی رنگ غالب آ رہا ہے؟ میری رائے میں ایسا نہیں ہے۔ جن واقعات کی میں نے مثال دی ہے وہ پاکستانی معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے، معاشرے نے کسی طور بھی اِن واقعات کو توثیق یا حوصلہ افزائی نہیں کی۔ یہ واقعات اِس لیے رونما نہیں ہوتے کہ لوگ جنونی ہو چکے ہیں بلکہ اِس لیے ہوتے ہیں کہ ریاست اپنی عملداری کو یقینی نہیں بناتی، ریاست نے یہ فرض کرلیا ہے کہ معاشرہ انتہا پسند ہو چکا ہے، لوگ مذہبی معاملات میں حساس واقع ہوئے ہیں، لہٰذا جب بھی کسی معاملے میں کوئی فرد........

© Daily Jang


Get it on Google Play