نیشنل فنانس کمیشن (NFC) کا بنیادی مقصد ملک کے ریونیو اور آمدنی کی وفاق اور صوبوں میں طے شدہ فارمولے کے تحت منصفانہ تقسیم اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مالی حالت کو مستحکم رکھنا ہے۔ نیشنل فنانس کمیشن میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نمائندگی کرتے ہیں اور کمیشن کا چیئرمین وفاقی وزیر خزانہ ہوتا ہے۔ 1974 ءمیں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پہلے NFC ایوارڈ میں وفاق کا حصہ 20فیصد اور صوبوں کا 80 فیصد حصہ رکھا گیا تھا۔ 1997ءمیں نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد نے ایوارڈ میں وفاق کا حصہ بڑھاکر 63فیصد اور صوبوں کا کم کرکے 37 فیصد کردیا۔ 2010ءمیں ساتویں NFC ایوارڈ کے موقع پر صوبائی خود مختاری کے حوالے سے وفاق کا حصہ 42.5 فیصد اور صوبوں کا حصہ 57.5 فیصد کردیا گیا اور ملک میں پہلی بار آبادی کے علاوہ چھوٹے صوبوں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے غربت، ترقی، آبادی اور ریونیو وصولی کے عوامل کو تسلیم کیا گیا۔

اس ایوارڈ سے قبل صوبوں کو ان کی آبادی کے لحاظ سے فنڈز تقسیم کئے جاتے تھے جس کی بنیاد پر پنجاب کو زیادہ آبادی کی وجہ سے سب سے زیادہ اور بلوچستان کو کم آبادی کی وجہ سے سب سے کم حصہ ملتا تھا جو چھوٹے صوبوں کے ساتھ ناانصافی تھی لیکن 2010ءکے ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے فنڈز کی تقسیم کیلئے 4 عوامل کو مدنظر رکھا گیا جس میں 82فیصد فنڈز کی تقسیم صوبے کی آبادی، 10.3فیصد صوبے کی غربت اور پسماندگی، 5 فیصد صوبے کی ریونیو وصولی اور 2.7فیصد صوبے میں آبادی کا تناسب شامل تھا۔

2021-22 ءکے این ایف سی ایوارڈز کے تحت پنجاب کو 51.74 فیصد(1135 ارب روپے)، سندھ کو 24.55 فیصد (592 ارب روپے)، کے پی کے کو 14.62 فیصد (379 ارب روپے) اور بلوچستان کو 9.09 فیصد (295 ارب روپے) ملے۔ سابقہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت ایف بی آر ریونیو کی وصولی پر 5 فیصد چارجز وصول کرتا تھا اور 95 فیصد ریونیو وفاقی حکومت کو منتقل کرتا تھا جسے موجودہ این ایف سی ایوارڈ میں کم کرکے ایک فیصد کردیا گیا ہے جس سے صوبوں کو فنڈز کی تقسیم 47.5 فیصد سے بڑھ کر 57.5 فیصد ہوگئی ہے جبکہ اب وفاق کو 42.6 فیصد فنڈز ملتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے صوبائی خود مختاری کے ساتھ صوبوں کو اختیارات اور اضافی وسائل منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اٹھارہویں ترمیم میں وفاق سے صوبوں کو وسائل کے ساتھ اختیارات بھی دیئے گئے تاکہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہوسکے۔ اس سلسلے میں میری این ایف سی کے سابق ممبر ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی سے گفتگو ہوئی جو این ایف سی ایوارڈ میں کسی طرح ترامیم اور صوبوں کے فنڈز میں کٹوتی کے حق میں نہیں۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نئے این ایف سی ایوارڈ کے تحت فیڈرل ڈویژنل پول(FDP)میں صوبوںسے شیئرز کی کٹوتی کا ارادہ رکھتی ہے جس سے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیئر کم ہوکر وفاق کا شیئر بڑھ جائے گا۔ وفاق نے دسویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو اضافی ریونیو کی تقسیم کو غیر متوازن قرار دیا ہے جس کی وجہ سے وفاق کو دفاعی اخراجات، قرضوں اور آئی پی پیز کو ادائیگیاں کرنے میں مشکلات ہورہی ہیں۔ صوبوں کا کہنا ہے کہ ان کے شیئرز میں کٹوتی کے بجائے وفاق کو اپنے اخراجات اور قرضوں میں کمی لانا ہوگی اور ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دے کر ریونیو کی وصولی میں اضافہ کرنا ہوگا۔

قارئین! 2013-14ءمیں وفاقی حکومت کے اخراجات 271 ارب روپے تھے جو 2022-23 میں 104 فیصد اضافے سے بڑھ کر 553 ارب روپے ہوگئے۔وفاقی حکومت کو جاری معاشی بدحالی کا طویل المیعاد حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ وہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے مالی شیئرز میں کمی کرے۔ بلاول بھٹو زرداری نے 17 ایسی وزارتوں کی نشاندہی کی ہے جنہیں 18 ویں ترامیم کے بعد بند کرکے 300 ارب روپے سالانہ بچائے جاسکتے ہیں۔ میں متعدد بار اپنے کالموں میں نقصان میں چلنے والے وفاقی حکومت کے اداروں جن میں پی آئی اے، واپڈا، ریلوے، اسٹیل ملز اور واپڈا/ ڈسکوز شامل ہیں، کی فوری نجکاری پر زور دیتا رہا ہوں تاکہ قومی خزانے کو 500 ارب روپے سالانہ کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے لیکن بدقسمتی سے اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ این ایف سی ایوارڈ کے تناظر میں یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وفاقی حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فنڈز میں کٹوتی کا ارادہ رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ صوبے اس سلسلے میں اپنے وسائل سے BISP کی فنڈنگ کریں۔ میرے نزدیک ایسی کوشش عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایک شفاف پروگرام جو نچلی سطح پر براہ راست مستحقین کو مالی امداد پہنچا رہا ہے، کو غیر فعال بنانے کا باعث بنے گی۔ نیشنل فنانس کمیشن قومی نوعیت کا ایک حساس معاملہ ہے۔ ہمیں وفاق کو مضبوط اور صوبوں کی خود مختاری کو یقینی بنانا ہوگا اور ملکی مفاد میں تمام سیاسی جماعتوں، صوبوں اور وفاق کی باہمی مشاورت سے اس معاملے کو حل کرنا ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

ایرانی مسلح افواج کی جانب سے قبضے میں لیے گئے جہاز پر 2 پاکستانیوں کی موجودگی کا معاملہ پاکستانی دفتر خارجہ نے ایرانی حکومت کے سامنے اٹھا دیا۔

پاکستان میں ایرانی سفارتخانے نے اسرائیل پر ایرانی حملے کے حقائق جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل پر حملے کا مقصد مقبوضہ فلسطین میں فوجی اڈوں کو نشانہ بنانا تھا، کسی شہری، غیر فوجی مراکز بشمول شہروں، اسپتالوں، عبادت گاہوں، انفرااسٹرکچر وغیرہ کو نشانہ نہیں بنایا۔

نثار کھوڑو نے کہا کہ ملک تمام سیاسی پارٹیوں میں سے پیپلز پارٹی نمایاں ہے کہ آئین کی بحالی ،جمہوریت کی خاطر نمایاں پارٹی ہے۔

گورنر سندھ نے کہا کہ کراچی کے بعد حیدرآباد میں آئی ٹی کورسز کے داخلے جاری ہیں۔

آسٹریلیا کے ارب پتی نے ٹائی ٹینک 2 بنانے کا اعلان کردیا۔

بھارتی اداکارہ رشمیکا منڈانا جنھوں نے 2021 کی ہٹ فلم پشپا میں سری ولی کا کردار ادا کیا تھا، تاہم اب وہ اس فلم کے سیکوئل پشپا ٹو، دی رول میں کردار کی تبدیلی کے بعد سری ولی 2.0 کے کردار میں نظر آئیں گی۔

بارش کی پیشگوئی کے باعث پاکستان کا کل شیڈول پریکٹس سیشن بھی منسوخ ہونے کا امکان ہے۔

سندھ کے سینئیر وزیر شرجیل میمن کی ہدایت پر منشیات فروشوں کیخلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔

مسلم لیگ کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ نتن یاہو کو پتہ ہے جس دن جنگ ختم ہوگی، اُس کا خاتمہ ہوجائے گا۔

سعودی عرب کے اعلیٰ سطح وفد کی منگل 16 اپریل کو اسلام آباد آمد متوقع ہے۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ خوشی ہے بینظیر بھٹو (بی بی) کی دی ہوئی ذمے داری پوری کردی۔

ایران کے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملوں کے بعد روس نے فریقین سے تحمل کے مظاہرے کا مطالبہ کیا۔

پاکستانی والی بال ٹیم کے نئے کوچ ارجنٹائن کے روبن وولوچن نے اسلام آباد میں جاری قومی کیمپ میں اپنی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر ناصر جمشید نے اپنی بیٹی کی ٹریننگ کی ویڈیو بھی پوسٹ کی اور لکھا کہ وہ اپنا ٹیلنٹ اپنی بیٹی کو منتقل کرنے کی کوشش کریں گے۔

سابق مندوب نے یہ بھی کہا کہ ایران نے کہا ہے کہ اسرائیل کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اس کا جواب شدید ہوگا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدر چوہدری پرویز الہٰی کی اہلیہ قیصرہ الہٰی نے شوہر کی انتخابی مہم تیز کردی۔

QOSHE - ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ - ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

17 14
15.04.2024

نیشنل فنانس کمیشن (NFC) کا بنیادی مقصد ملک کے ریونیو اور آمدنی کی وفاق اور صوبوں میں طے شدہ فارمولے کے تحت منصفانہ تقسیم اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مالی حالت کو مستحکم رکھنا ہے۔ نیشنل فنانس کمیشن میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نمائندگی کرتے ہیں اور کمیشن کا چیئرمین وفاقی وزیر خزانہ ہوتا ہے۔ 1974 ءمیں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پہلے NFC ایوارڈ میں وفاق کا حصہ 20فیصد اور صوبوں کا 80 فیصد حصہ رکھا گیا تھا۔ 1997ءمیں نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد نے ایوارڈ میں وفاق کا حصہ بڑھاکر 63فیصد اور صوبوں کا کم کرکے 37 فیصد کردیا۔ 2010ءمیں ساتویں NFC ایوارڈ کے موقع پر صوبائی خود مختاری کے حوالے سے وفاق کا حصہ 42.5 فیصد اور صوبوں کا حصہ 57.5 فیصد کردیا گیا اور ملک میں پہلی بار آبادی کے علاوہ چھوٹے صوبوں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے غربت، ترقی، آبادی اور ریونیو وصولی کے عوامل کو تسلیم کیا گیا۔

اس ایوارڈ سے قبل صوبوں کو ان کی آبادی کے لحاظ سے فنڈز تقسیم کئے جاتے تھے جس کی بنیاد پر پنجاب کو زیادہ آبادی کی وجہ سے سب سے زیادہ اور بلوچستان کو کم آبادی کی وجہ سے سب سے کم حصہ ملتا تھا جو چھوٹے صوبوں کے ساتھ ناانصافی تھی لیکن 2010ءکے ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے فنڈز کی تقسیم کیلئے 4 عوامل کو مدنظر رکھا گیا جس میں 82فیصد فنڈز کی تقسیم صوبے کی آبادی، 10.3فیصد صوبے کی غربت اور پسماندگی، 5 فیصد صوبے کی ریونیو وصولی اور 2.7فیصد صوبے میں آبادی کا تناسب شامل تھا۔

2021-22 ءکے این ایف سی ایوارڈز کے تحت پنجاب کو 51.74 فیصد(1135 ارب روپے)، سندھ کو 24.55 فیصد (592 ارب روپے)، کے پی کے کو 14.62 فیصد (379 ارب روپے) اور بلوچستان کو 9.09 فیصد (295 ارب روپے) ملے۔ سابقہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت ایف بی آر ریونیو........

© Daily Jang


Get it on Google Play