برصغیر کے معاشرے میں بیوی کے مرنے کے بعد بزرگی کی عمر پر پہنچ کر خاص طور پر مرد حضرات پھر کسی دوشیزہ کی تلاش میں سرگرم رہتے ہیں اور اسی طرح سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے کاغذات مکمل کرتے کرتے اللّٰہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ خواتین بھی ریٹائر ہوکر بیشتر تو درس اور مذہب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتی ہیں اور اولاد کو جن میں خاص کر بیٹیوں کو نماز کی تلقین کرتی رہتی ہیں۔ سیاست میں مسئلہ بالکل مختلف ہوتا ہے، سیاست کو جاگیر کی طرح اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر کسی گھرانے کا بزرگ صوفی یا اللّٰہ والا تھا ، اسکی برسی پر اگلے بزرگ کو وہ دستار پہنا دی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا جاتا ہے۔ جب اگلی نسل سیاست میں منہ مارنے لگتی ہے تو بھی یہ مرتبہ دوآتشہ ہو جاتا ہے ۔ سیاست اور خاندانی صوفیت میں عمر کی قید نہیں ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں چونکہ پیر پرستی باقاعدہ تجارت کی طرح چڑھاوے لیتی رہتی ہے ۔ اس پر حرف زنی کرنامعیوب بلکہ گستاخی تصور کیا جاتا ہے۔

ہمارے سارے صوبوں میں کچھ خاندان اور قبیلے قیام پاکستان سے پہلے انگریز کے دور میں بھی سکندر حیات، دولتانہ، غفار خان، راشدی، شیدی، سیدی اور مغلوں کے ناموں سے منسلک اب تک آخری دموں پر ہیں ، مگر ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد نئے سیاسی قبیلےجیسے چوہدری وغیرہ ظہور میں آگئے۔ مارشل لائوں کے زمانوں میں پرانے بزنس گروپیچھے چلے گئے اوربہت سے خاندان جو متوازی سطح پر سیاست اور بزنس کو چلاتے اور کامیاب ہوتے گئے۔ بزنس اور سیاست میں چالاکی اور موقع پرستی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ جن سیاستدانوں کو علمی استعداد میں کمی کو پورا اور چمکانے کے لئے سرکاری کارندے مل جاتے، وہ بڑی طاقت بن کر سامنے آتے رہے۔ سیاست بھی تو بہروپ ہے خاص کر پاکستان جیسے ملک میں یہ سرکاری کارندے چوہدری محمد علی سے شروع ہو کر ہر طرح کے شوکت عزیزوں جیسے ساہوکار بڑی طاقتوں کے بنائے مالیاتی اداروں سے انکی زبان میں گفتگو کرتے رہے ہیں۔ اسلئے وہ ماہرین معیشت کہلاتے ہیں۔ انکے متوازی ٹیکس کے ماہرین کا دھندہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں اعداد و شمار کے جادوگر بجٹ کی آمدن اور خسارہ اس لہجے میں بتاتے ہیں کہ اگر قوم نے سرِ مو انحراف کیا تو ملک دیوالیہ ہو جائیگا۔ یہ پیشہ ور لوگ بی سی سی آئی جیسے بینکوں کو منٹوں میں اوپر چڑھاتے اور سیکنڈوں میں نیچے گرا دیتے ہیں۔

ان طبقات کیلئے تیس برس سے ایک اورمالی سہارا بن کر سامنے آنے والا گروپ کارپوریٹ سیکٹر اوررئیل اسٹیٹ ڈیلرز ہیں۔ انکا ایک پیسہ نہیں لگتا وہ ان پر جال پھینکتے ہیں جنہوں نے گھروں پر ماشا اللّٰہ خوب مال بنایا ہوتاہے۔ یہ سلسلہ اور قبیلہ حکومتوں کے لئے جلسے جلوس کرنے، حکومتیں بنانے اور گرانے کا کام کرتے ہوئے ریٹائرڈ فوجیوں اور چرب زبان افسروں کو پشتہ بنا کر بیک گرائونڈ میں کھڑا کرکے مسودے بنانے اور حکومتیں چلانے کے لئے اگلا سیاسی مہرہ تلاش اور تیار کرکے میدان میں اتارتے ہیں۔ یہی کارپوریٹ سیکٹر فوج کوبھی یونیورسٹیاں اوربینک بنانے کے علاوہ زراعت کی جانب بھی راغب کررہا ہے۔

اب رہ گئے وہ ریٹائرڈ خواتین و حضرات جو پنشن کو بہت احتیاط سے خرچ کرتے ہوئے بھی ایف۔بی۔آر کے سامنے سالانہ گوشوارہ پیش کرنے کے پابند ہیں کہ انکوبڑی کارپوریٹ ماہرین کی دہلیز پرجانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ انکے کلرکوں کے ساتھ کچھ لے دے کر سالانہ کاغذ بنوا لیتےہیں۔

اب یہ بتایئے کیا سیاست دان بنے لوگ کبھی ریٹائر ہوتے یا بیک گرائونڈ میں رہ کر اپنے گرگے تیار کرتے ہیںکہ جو چیزبھی منہ کو لگ جائے بقول شیخ ابراہیم ذوق چھٹتی نہیں ہے۔

مثال کے طور پر میاں فیملی کو لےلیں، میاں شریف نے لنڈے بازار کے اگلے حصے میں چھوٹی سی فونڈری بنائی اپنے ہاتھ سے سب کام کرتے کرتے اتفاق فیکٹری بنائی جو بھٹو صاحب نے ساری فیکٹریوں کی طرح قومی ملکیت میں لے لی۔ میاں صاحب نے ہمت نہیں ہاری اب پھر کام شروع کیا محنت کرتے کرتے نہ صرف اسٹیل مل لگالی، ماڈل ٹائون میں ہسپتال بھی بنا ڈالا۔ عمر کے آخری دور میں میاں صاحب ہسپتالوں میں فجر کی نماز کے بعد ننگے پائوں پورے ہسپتال کا جائزہ لیتے اور کبھی کبھی بیماروں کی خیریت بھی پوچھتے۔ جیلانی صاحب سے نجانے کب ان کی ملاقات ہوئی اور سیاست کا چکر لگانے کو نواز شریف کے نام کی فال نکلی۔ اگلی ساری منزلیں پوری قوم کو معلوم ہیں۔ اسلئے فی الوقت نواز شریف سیاست میں ہیں بھی اور نہیں بھی۔ انکی کم گفتاری تو ہم سیاست میں دیکھ چکے ہیں مگر اب ایک طرف مریم بی بی کو وزیراعلیٰ بنا کر کچھ مطمئن ہیں مگر دن ہے کہ گزرتا نہیں۔ محبت والی بیٹی انکی تنہائی دور کرنے کی کوشش میں چیف منسٹر ہائوس میں نہیں جاتی امرا میں ہی رہائش اختیار کیے ہوئے ہے۔ میاں صاحب کو مری ہمیشہ سے پسند تھا اور وسعت کے دوران اپنے لئے گوشہ عافیت بھی بنا لیا تھا۔ وہی بیٹی جسکے ذمے بہاولنگر جیسے واقعات کے علاوہ پورا صوبہ ہے وہ باپ کووقت دیتے ہوئے اپنی کابینہ کی میٹنگ بھی مری میں کر رہی ہے۔ بی بی مریم ! میاں صاحب کو رفیع کے گانے بہت پسند تھے وہ تلاش کرکے سنوائو۔ انہیں معین اختر اور مزاحیہ ڈرامے پسند تھے وہ بھی دکھانے کا اہتمام کرو اسلئےکہ وہ ڈپریشن میں نہ جائیں۔ تم پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہو۔ سب سے بڑے صوبے کے غریب لوگ آئی ٹی پارک نہیں پکا کوٹھا اور میٹھا پانی مانگ رہے ہیں۔ دنیا بھر کی فنڈنگ ایجنسیوں سے فنڈز حاصل کرو اور ہمارے بزرگ اختر حمید خان کی طرح دیہات میں اسمال انڈسٹری میں عورتوں مردوں سے کام لو۔ آگے بڑھو کامیاب ہوگی۔

انہوں نے امریکا کا درخواست ویٹو کرنے کا اقدام غیر منصفانہ اور غیر اخلاقی قرار دیا۔

امریکا نے فلسطین کی اقوام متحدہ کی رکنیت سے متعلق درخواست ویٹو کردی۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے واشنگٹن میں سرمایہ کاروں کے ساتھ گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔

فنانس ڈویژن کی جانب سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے خواہش مند سرکاری ملازمین کے لیے سرکلر جاری کردیا گیا۔

مدعی مقدمے کا کہنا ہے کہ اُس کا کزن زخموں کی تاب نہ لا کر ڈی ایچ کیو اسپتال میں انتقال کرگیا، واقعے پر کارروائی کی جائے۔

ممبئی پولیس نے سلمان خان کی سیکیورٹی کا دوبارہ جائزہ لینے اور اسے بڑھانے کی تصدیق کردی، بھارتی میڈیا

سری لنکا کے اوچیتھا آکاش رانا سنگھے اور چولیتھا پوشپیکا نے کامیابی حاصل کی۔

عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کا امکان ہے۔

ورلڈ اوپن اسکواش 9 سے 18 مئی تک مصر کے شہر قائرہ میں ہوگی، ایونٹ کے مین راؤنڈ کا ڈرا فائنل کرلیا گیا ہے جس میں پاکستان کے حمزہ خان بھی شامل ہیں۔

ہماری آج میچ میں بولنگ اور فلیڈنگ اچھی نہیں رہی، ہم نے آخری دس اوورز میں زیادہ رنز دیے، کپتان قومی ویمن ٹیم

گیند دیوار یا چھت سے لگنے کی صورت میں ایک ہاتھ سے کیچ پر آؤٹ ہوگا، ای سی بی

خاتون صحافی نادیہ صبوحی کی خبر کے مطابق مشیر سوشل ویلفیئر مشعال یوسفزئی اور سیکریٹری سماجی بہبود کیلئے گاڑیاں خریدنے کی سمری تیار کی گئی ہے۔

انگلش کرکٹ بورڈ (ای سی پی) نے سابق ٹیسٹ بیٹر اور ریفری کے انتقال کی تصدیق کردی۔

مرکزی بینک کے مطابق 12 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے تک ملکی زرمبادلہ ذخائر 13 کروڑ 37 لاکھ ڈالر رہے۔

حلف برداری کے موقع پر جذباتی مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔

بالی ووڈ کی سابق اداکارہ اور اب تصنیف و تالیف کی جانب راغب ٹوئنکل کھنہ کا کہنا ہے کہ جب خواتین 50 برس سے زیادہ کی ہوجائیں تو انھیں سرخ لپ اسٹک نہیں لگانا چاہیئے۔

QOSHE - کشور ناہید - کشور ناہید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کشور ناہید

13 0
19.04.2024

برصغیر کے معاشرے میں بیوی کے مرنے کے بعد بزرگی کی عمر پر پہنچ کر خاص طور پر مرد حضرات پھر کسی دوشیزہ کی تلاش میں سرگرم رہتے ہیں اور اسی طرح سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے کاغذات مکمل کرتے کرتے اللّٰہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ خواتین بھی ریٹائر ہوکر بیشتر تو درس اور مذہب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتی ہیں اور اولاد کو جن میں خاص کر بیٹیوں کو نماز کی تلقین کرتی رہتی ہیں۔ سیاست میں مسئلہ بالکل مختلف ہوتا ہے، سیاست کو جاگیر کی طرح اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر کسی گھرانے کا بزرگ صوفی یا اللّٰہ والا تھا ، اسکی برسی پر اگلے بزرگ کو وہ دستار پہنا دی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا جاتا ہے۔ جب اگلی نسل سیاست میں منہ مارنے لگتی ہے تو بھی یہ مرتبہ دوآتشہ ہو جاتا ہے ۔ سیاست اور خاندانی صوفیت میں عمر کی قید نہیں ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں چونکہ پیر پرستی باقاعدہ تجارت کی طرح چڑھاوے لیتی رہتی ہے ۔ اس پر حرف زنی کرنامعیوب بلکہ گستاخی تصور کیا جاتا ہے۔

ہمارے سارے صوبوں میں کچھ خاندان اور قبیلے قیام پاکستان سے پہلے انگریز کے دور میں بھی سکندر حیات، دولتانہ، غفار خان، راشدی، شیدی، سیدی اور مغلوں کے ناموں سے منسلک اب تک آخری دموں پر ہیں ، مگر ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد نئے سیاسی قبیلےجیسے چوہدری وغیرہ ظہور میں آگئے۔ مارشل لائوں کے زمانوں میں پرانے بزنس گروپیچھے چلے گئے اوربہت سے خاندان جو متوازی سطح پر سیاست اور بزنس کو چلاتے اور کامیاب ہوتے گئے۔ بزنس اور سیاست میں چالاکی اور موقع پرستی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ جن سیاستدانوں کو علمی استعداد میں کمی کو پورا اور چمکانے کے لئے سرکاری کارندے مل جاتے، وہ بڑی طاقت بن کر سامنے آتے رہے۔ سیاست بھی تو بہروپ ہے خاص کر پاکستان جیسے ملک میں یہ سرکاری کارندے چوہدری محمد علی سے شروع ہو کر ہر طرح کے شوکت........

© Daily Jang


Get it on Google Play