جماعت اسلامی ہمارے ملک کی ایک منظم سیاسی و مذہبی تنظیم قرار دی جاتی ہے جس کی بنیاد مولانا مودودی نے 26 اگست 1941ء کو متحدہ ہندوستان کے اسی شہر لاہور میں رکھی اور وہ اس کے پہلے امیر چنے گئے۔ پارٹیشن کے حوالے سے بھی جماعت اور مولانا صاحب کا اپنا ایک مخصوص نقطہ نظر تھا جو اگر پوری طرح کانگریس کے حق میں نہیں تھا تو لیگ سے بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا ۔ مولانا کھلے بندوں یہ فرماتے تھے کہ لیگ کے ادنیٰ کارکن سے لے کر اس کے قائد تک کے کردار میں خورد بین کے ذریعے بھی تلاش کریں تو اسلام کی کوئی رمق یا چھینٹ تک دکھائی نہیں دے گی، ایسی صورت میں جو ملک بنے گا وہ مسلمانوں کی کافرانہ ریاست ہوگی، انہوں نے اس کے لئے ’’ناپاکستان‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال فرمائی تھی۔ مولانا کے یہ خدشات قطعی لایعنی و بے بنیاد نہ تھے۔‎خونریز ی کا طوفان برپا کرتے ہوئے جب پارٹیشن ہوگیا تو حضرت مولانا نے اس مملکت کو کلمہ شریف پڑھانے کے لئے ’’شوکت اسلام‘‘ کا پرچم تھام لیا۔ جماعت اسلامی اگرچہ بظاہر جمہوریت کی دعویدار و علمبردار رہی ہے لیکن عوامی اعتماد کے حصول میں ہمیشہ بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ابتدائی برسوں میں ہی جماعت کے اندر ایک بحران اس ایشو پر پیدا ہوگیا تھا کہ جماعت کو انتخابی سیاست کرنی چاہیے یا محض اعلائے کلمۃ اللّٰہ کے لئے دعوتی و تبلیغی مشن اپنانا چاہیے۔ اس تنازعے میں جماعت کے بڑے بڑے اکابرمثلاً مولانا امین الدین اصلاحی اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسی شخصیات اس سے الگ ہوگئی تھیں۔ ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے ایشو پر مولانا وحید الدین خان صاحب نے بھی اپنی راہ الگ فرما لی تھی۔‎قیام پاکستان کے بعد 1970ء میں منعقد ہونے والے پہلے قومی انتخابات میں جماعت نے اپنے بانی کی قیادت میں سرگرم بلکہ جان توڑ حصہ لیا اور اپنے تئیں پورے ملک میں صالح نمائندے کھڑے کئے حالانکہ مولانا صاحب نے اسلام کی جو تعبیر فرمائی تھی اس کی رو سے کسی کا خود نمائندگی کیلئے کھڑے ہونا خلاف اسلام قرار دیا گیا تھا۔ اپنی تمام تر محنت، جدوجہد، سرمائے اور ماورائی تعاون کے باوجود جماعت محض چار سیٹیں حاصل کرپائی۔ اس شکست سے دلبرداشتہ ہوکر اور اپنی صحت کا جواز پیش کرتے ہوئے 1972ء میں مولانا موودی جماعت کی امارت سے دستبردار ہوگئے اور اپنے جانشین میاں طفیل محمد کو 72ء میں جماعت کا دوسرا امیر منتخب کروادیا گیا۔ میاں صاحب 1987ء تک اپنی اس ذمہ داری پر فائز رہے اور پھر اپنی صحت کی خرابی کا جواز بیان کرتے ہوئے اپنی جماعت کی شوریٰ و قیادت سے گزارش کی کہ ارکان جماعت کی رہنمائی کے لئے جو تین نام بھیجے جاتے ہیں اب ان کا نام اس فہرست سے نکال دیا جائے۔ یوں میاں طفیل صاحب کے بعد قاضی حسین احمد جماعت کے تیسرے اور پھر سید منور حسن جماعت کے چوتھے، سراج الحق پانچویں اور اب حافظ نعیم الرحمٰن چھٹے امیر چنے گئے ہیں۔ جن کی تقریب حلف برداری پوری شان وشوکت کے ساتھ چند روز قبل منصورہ میں منعقد ہوئی ۔‎جماعت اسلامی اگرچہ جمہوریت کی نام لیوا ہے لیکن اس کی جمہوریت یا شورائیت ایرانی ولایت فقیہ یا طالبانی امارت اسلامی سے ملتی جلتی نہ بھی کہی جائے تو بھی بڑی حد تک کنٹرولڈ ضرور قرار پائے گی۔ جماعت کا عام کارکن اس کا ووٹر نہیں بن سکتا صرف اراکین جماعت ہی اس کے حقدار ہیں جو مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے ایک پراسیس کے بعد رکن جماعت بنائے جاتے ہیں۔ مولانا مودودی اور میاں طفیل محمد کے ادوار میں یہ پراسیس زیادہ سخت تھا جسے قاضی حسین احمد نے خاصا ملائم کرڈالا اور بوجوہ میاں طفیل محمد فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے جماعت خالص دودھ جیسی بنائی تھی جسے قاضی حسین نے کچی لسی بنا دیا ہے۔ شاید اسی لئے جماعتی صحافت سے وابستہ کئی لوگ قاضی حسین احمد کو جماعت کا گورباچوف قرار دیا کرتے تھے جنہیں اس ملک میں اپنی سیاسی قیادت و لیڈری کے حصول کی شدید ترین تمنا و حسرت رہی مگر مختلف النوع پینترے بدلنے اور طاقتوروں سے خصوصی تعاون و تعلقات کے باوجود وہ کامیابی سے اتنے ہی دور رہے جتنے ان سے پہلے کے امراء بلکہ کئی حوالوں سے ان کے دور میں جماعت زوال کا شکار ہوتی چلی گئی۔ ‎قاضی حسین احمد کے بعد سید منور حسن کو اس امارات کی ذمہ داری پر اس امید کے ساتھ فائزگیاکہ وہ نہ صرف یہ کہ اس کا کھویا ہوا اخلاقی معیار، وقاراور راسخ کردار واپس لوٹائیں گے بلکہ اسلامی جمعیت طلباء کے نوجوانوں اور صالحین کراچی کی عوامی پذیرائی سے جماعت کو پورے ملک میں پاپولر اسلامی تحریک بنائیں گے۔ سید منور حسن کے متعلق بہت کچھ لکھا بولا گیا اس درویش نے بھی ان کے انٹرویوز کئے وہ ایک اپنی ہی وضع قطع کے شدت پسند متقی و پرہیز گار مرد مومن تھے جنہیں عصری و زمانی تقاضوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ‎سید منور حسن کو جس طرح بوجوہ محض ایک ٹرم کے بعد جماعت کی قیادت سے دستبردار ہونا پڑا، اس کی اپنی ایک الگ داستان ہے ۔ ان کے بعد ایک سادہ لوح پختون سراج الحق کو امیر جماعت چنا گیااس امید کے ساتھ کہ کراچی کی طرح پختون بیلٹ میں بھی جماعت کا اثر و رسوخ آگے بڑھے اور پھلے پھولے گا۔ (جاری ہے)

وزیراعظم شہباز شریف نے متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان سے ٹیلی فونک رابطے میں حالیہ بارشوں سے پیدا صورتحال کا مقابلہ کرنے پر ان کی تعریف کی۔

خاقان مرتضیٰ کو ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے عہدے سے ہٹا کر چیئرمین ای او بی آئی تعینات کردیا گیا۔

پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کی مسجد سے جوتیاں چوری کرنے والے تلاش کا حکم دے دیا گیا۔

لیاقت بلوچ، میاں محمد اسلم، ڈاکٹر عطاء الرحمان اور ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امراء مقرر کیے گئے ہیں۔

وسطی ایران کے شہر اصفہان کی سیٹلائٹ تصاویر سے نقصان واضح نہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق اصفہان ایئر بیس پر کوئی وسیع نقصان نہیں دیکھا گیا۔ زمین میں بڑاگڑھا پڑا نہ ہی کوئی عمارت تباہ دکھائی دی۔

عدالت نے جرم ثابت ہونے پر دو خواتین ثوبیہ اور فرحت کو ایک ایک سال کی سزا سنادی۔

ڈی آئی جی شارق جمال کے قتل کا مقدمہ خارج ہونے پر بیٹی نے آئی جی پنجاب کو درخواست دے دی۔

جی سیون کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اٹلی کے صدر مقام روم میں تین روز جاری رہنے کے بعد ختم ہوگیا۔

اجلاس میں 2 ممبران نے شرح 100 بیسز پوائنٹس کم کرنے کیلئے ووٹ کیا۔

وفاقی وزیر توانائی اویس خان لغاری نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور سے ملاقات کا وقت مانگ لیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے پر پیشرفت ہوئی ہے۔

ترجمان پولیس کا کہنا ہے کہ کانسٹیبل قاسم حبیب کو 5 لاکھ روپے کیش دیا گیا .

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 190 ملین پاؤنڈ کیس کو سیاسی محرکات پر مبنی قرار دیدیا۔

لانڈھی حملے میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل جس شہری کے نام پر رجسٹرڈ تھی اسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ بیرسٹر سیف وکیل ہیں ڈاکٹر نہیں، ہر معاملے پر طبع آزمائی نہ کریں۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ ٹینکر میں پیٹرول ہے، آگ بجھانے میں مشکل ہورہی ہے۔

QOSHE - افضال ریحان - افضال ریحان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

افضال ریحان

25 0
20.04.2024

جماعت اسلامی ہمارے ملک کی ایک منظم سیاسی و مذہبی تنظیم قرار دی جاتی ہے جس کی بنیاد مولانا مودودی نے 26 اگست 1941ء کو متحدہ ہندوستان کے اسی شہر لاہور میں رکھی اور وہ اس کے پہلے امیر چنے گئے۔ پارٹیشن کے حوالے سے بھی جماعت اور مولانا صاحب کا اپنا ایک مخصوص نقطہ نظر تھا جو اگر پوری طرح کانگریس کے حق میں نہیں تھا تو لیگ سے بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا ۔ مولانا کھلے بندوں یہ فرماتے تھے کہ لیگ کے ادنیٰ کارکن سے لے کر اس کے قائد تک کے کردار میں خورد بین کے ذریعے بھی تلاش کریں تو اسلام کی کوئی رمق یا چھینٹ تک دکھائی نہیں دے گی، ایسی صورت میں جو ملک بنے گا وہ مسلمانوں کی کافرانہ ریاست ہوگی، انہوں نے اس کے لئے ’’ناپاکستان‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال فرمائی تھی۔ مولانا کے یہ خدشات قطعی لایعنی و بے بنیاد نہ تھے۔‎خونریز ی کا طوفان برپا کرتے ہوئے جب پارٹیشن ہوگیا تو حضرت مولانا نے اس مملکت کو کلمہ شریف پڑھانے کے لئے ’’شوکت اسلام‘‘ کا پرچم تھام لیا۔ جماعت اسلامی اگرچہ بظاہر جمہوریت کی دعویدار و علمبردار رہی ہے لیکن عوامی اعتماد کے حصول میں ہمیشہ بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ابتدائی برسوں میں ہی جماعت کے اندر ایک بحران اس ایشو پر پیدا ہوگیا تھا کہ جماعت کو انتخابی سیاست کرنی چاہیے یا محض اعلائے کلمۃ اللّٰہ کے لئے دعوتی و تبلیغی مشن اپنانا چاہیے۔ اس تنازعے میں جماعت کے بڑے بڑے اکابرمثلاً مولانا امین الدین اصلاحی اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسی شخصیات اس سے الگ ہوگئی تھیں۔ ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے ایشو پر مولانا وحید الدین خان صاحب نے بھی اپنی راہ الگ فرما لی تھی۔‎قیام پاکستان کے بعد 1970ء میں منعقد ہونے والے پہلے قومی انتخابات میں جماعت نے اپنے بانی........

© Daily Jang


Get it on Google Play