بات سادہ سی تھی، لیکن سنتے ہی میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور ذہن کو وسوسوں نے گھیر لیا ۔ اب نیا شناختی کارڈ کیسے بنے گا ؟ کیا تھانے میں رپٹ درج کراﺅں کہ کارڈ فوجی چیک پوسٹ پر جمع کرایا اور وہیں سے غائب ہو گیا ؟ لاہور سے سو کلومیٹر دُور اِس کنٹونمنٹ کو خدا جانے پولیس سٹیشن کون سا لگتا ہے؟ استغاثہ دائر کروں تو اُس کی سماعت ملٹری کورٹ کرے گی یا سو ل عدالت ؟ چھاﺅنی میں داخل ہوتے ہوئے میزبان کی فون کال ، کوائف کی جانچ پڑتال اور شناختی دستاویز کی سپرداری سکیورٹی کی غرض سے تھی ، جو خوشی کی بات ہے۔ پر توقع نہیں تھی کہ چار گھنٹے میں واپسی پر حفاظتی چوکی پہ مامور باوردی جوان شیلف کے خانوں کو ٹٹول کرنیم دلی سے کہہ دے گا : ”آپ کا شناختی کارڈ نہیں ملا۔“ ”یہ تو ممکن نہیں۔“ ”جی سب کے ِمل جاتے ہیں ، آپ کا نہیں مِلا۔‘ ‘

بارسلونا آئے پی ٹی آئی کے سنیئررہنماوں کے اعزاز میں تقریب ،عمران خان اور جیلوں میں بند کارکنان کی استقامت کے لیے خصوصی دعا مانگی گئی

کوئی چھوٹی موٹی انتظامی مشکل اچانک نازل ہو جائے تو مَیں بُردباری کی ایکٹنگ کامیابی سے کر لیتا ہوں ۔ انگریز دَور میں کچھ لوگ اِس اداکاری کو او ایل کیو کا تقاضا سمجھتے تھے، یعنی آفیسر لائیک کوالیٹیزیا افسرانہ اوصاف۔ چنانچہ پریشانی چھپا کر تحمل سے کہا ”بیٹا ، کارڈ یہاں سے گُم نہیں ہو سکتا ، آرام سے تلاش کیجئے۔ “ نوجوان نے کارروائی پھر مستعدی سے شروع کی۔ اب کے اُسے اپنے ایک اَور ساتھی کی معاونت بھی حاصل تھی ۔ اِس مرحلے پر مَیں نے دھیرے دھیرے یہ بھی پتا چلا لیا کہ کنٹونمنٹ میں داخل ہونے والوں کے شناختی کارڈ جب بائیں طرف جمع ہو کر سڑک کے داہنے ہاتھ واپسی والے بُوتھ میں پہنچتے ہیں تو انہیں کس ترتیب سے رکھا جاتا ہے ۔ جواب ملا کہ ناموں کے حروفِ تہجی اور متعلقہ ٹائم دونوں حساب سے۔ تلاش کا دوسرا دَور مکمل ہوا تو اعلان وہی تھا کہ ” کارڈ نہیں مِلا۔‘ ‘

بھارتی کرکٹرز کی بیگمات سے متعلق دلچسپ معلومات جانئے

مَیں نے شناختی کارڈ کی واپسی کے احترام میں کار چیک پوسٹ سے ذرا ہٹ کر ایک محفوظ کونے میں کھڑی کر رکھی تھی ۔ انتظار کا امکانی دورانیہ مختصر ہونے کے خیال سے موبائل فون بھی گاڑی میں چھوڑ دیا تھا پھر بھی چیک پوسٹ کی بیرونی کھڑکی اور عقبی دروازے کے بیچوں بیچ ایک خاص زاویے پر ٹکٹکی باندھ کر بیگم صاحبہ کو انگوٹھوں کے اشاے سے دو ایک بار سمجھانے کی کوشش کی کہ مَیں محفوظ ہاتھوں میں ہوں۔ یہ سب خاتون کا مورال بلند رکھنے کی خاطر تھا ، وگرنہ لا گریجوایٹ کے دماغ میں اب باغیانہ خیالات اُٹھنے لگے تھے ۔ یہی کہ چھاﺅنی کا رہائشی پرمٹ رکھنے والوں کے علاوہ دُور سے فوجی کارڈ لہرا کر گزر جانے والوں کے بر عکس داخلے کے لئے مجھ پر شناختی دستاویز جمع کرانے کی پابندی کیوں عائد ہے؟ یہ تو آزادی_¿ نقل و حرکت اور بطور شہری مساوی حیثیت کے بنیادی حق کی نفی ہوئی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مودی سرکار کی سیاسی کارکنوں اور اقلیتوں کےخلاف ظالمانہ کارروائیوں پر نوٹس کا مطالبہ

بہرحال، اِس سے پہلے کہ مَیں امتیازی سلوک کے خلاف باضابطہ چارہ جوئی کی سوچتا، دھیان میں آیا کہ اندر آنے والے راستے پر بھی شناختی کارڈ جمع کرانے کے لیے دو کھڑکیاں ہیں،چونکہ مَیں نے اپنا کارڈ پیشگی اطلاع والے مہمانوں کی کھڑکی پر چھوڑا تھا ، کیا خبر اسی تخصیص کے باعث یہ کارڈ اِدھر اُدھر ہو گیا ہو ۔ یہ بتانے کی دیر تھی کہ دونوں جوانوں میں سے ایک پھرتی سے سڑک کے پار مذکورہ دریچے کی طرف لپکا ۔ واپس آیا تو ہاتھ میں کارڈ نہیں تھا ، البتہ چھوٹی چھوٹی داڑ ھی والے ایک چاک چوبند حوالدار صاحب ہمراہ تھے ۔ انہوں نے شیلف کی تہوں کا ایک ایک خانہ کھرچ کر ہر کارڈ یکے بعد دیگرے چیک کرنا شروع کیا۔پندرہ منٹ کی تگ و دو کے بعد شناختی کارڈ میرے ہاتھ میں تھا ۔ ساتھ ہی حوالدار کی طرف سے شکریہ کہ آپ نے بڑے صبر اور حوصلے سے کام لیا۔

شہرقائد کے علاقے کیماڑی میں مین ہول سے پرانا اسلحہ برآمد

جی ٹی روڈ اور موٹر وے کے راستے گھر تک کا باقی سفر تھا تو خوشگوار، مگر طبیعت پہ ایک بوجھ سا رہا ۔ وہ دن یاد آئے جب وطن ِ عزیز دہشت گردی سے کافی حد تک پاک تھا ۔ جب جی چاہتا گاڑی دباتے اور حد رفتار کی ہلکی پھلکی خلاف ورزی کرتے ہوئے لاہور سے چار گھنٹے میں اسلام آباد جا پہنچتے ۔ اِس میں بھیرہ پھُلاں دا سہرہ کے سروس اسٹیشن پر چائے پانی کے لئے بیس منٹ کا ہالٹ بھی شامل ہوتا ۔ اُس وقت ایم ٹو پہ لین بدلتے ہوئے اشارہ دینے کا رجحان زور پکڑ رہا تھا ۔ یوں یہ تاثر ملنے لگا کہ نیا موٹر وے کلچر بتدریج ہمارے شہر و قصبات کی اندرونی ٹریفک پر بھی مثبت اثر ڈالنے والا ہے ۔ پنجاب کی حد تک جی ٹی روڈ اور نیشنل ہائی وے پہ اِس کا مظاہرہ مَیں نے خود دیکھا۔ یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ لاہور شہر میں چند علاقوں کو چھوڑ کر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے ہارن اب پہلے سے کم بجتے ہیں۔

پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی کی مدت میں 3 ماہ کی توسیع، نوٹیفیکیشن جاری

البتہ جیسا کہ حلیم قریشی نے کہا ’تلواریں بھی تب گِرتی ہیں جب ہم ننگے سر ہوتے ہیں، مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں گاڑی سے اُتر کر کاغذات کی پڑتا ل کا مرحلہ درپیش ہو یا شناختی کارڈ جمع کرا کر اُس کی رسید حاصل کرنی پڑے ۔ مقصد ہے شہریوں کا تحفظ اور سچ پوچھیں تو ہمارے اردگرد یہ عمل کسی بڑی رخنہ اندازی کے بغیر جاری و ساری ہوتا ہے ۔ پھر بھی ہم سب انسان ہیں ، لہٰذا کبھی کبھی بشریت کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی اہم ہو جاتا ہے ۔ مثلاً کئی بار لاہور میں شادمان سے کینٹ اور راولپنڈی سے واہ جاتے ہوئے جی چاہا کہ کسی مصروف چیک پوائنٹ پر گاڑیوں کی پانچ قطاریں اگر آگے چل کر کسی انتظامی وجہ کے تحت تین لائنوں میں ڈھل رہی ہیں تو اُس کا اشارہ عین بیرئیر پر پہنچ کر نہیں،بلکہ دو ڈھائی سو میٹر پیشگی پہلے مل جانا چاہیے ۔ خیر، ٹریفک بیئر یر پار کرنے کے اب تک کے سبھی تجربات ناخوشگوار نہیں۔

نگران وفاقی وزیرتعلیم کا نجی اسکولوں میں آئس منشیات کے استعمال کا انکشاف

بی بی سی کی نامہ نگاری کے دَور میں پیشہ ورانہ مصروفیت کے سلسلے میں ایک سے زیادہ مرتبہ ملتان جانا ہوا ۔ ایک موقع پر خیال آیا کہ کام سے فارغ ہو کر شام گزارنے کے لئے بہن کے گھر کا رخ کیا جائے ۔ میری رینٹ اے کار کی گاڑی ذرا ماٹھی سی تھی، جس سے آدمی کی او ایل کیو کچھ مشکوک سی ہو جاتی ہے۔بلااطلاع فورٹ کالونی کے گیٹ پہ پہنچے اور استقبالیہ چوکی پر اپنا اور میزبان کا نام بتا دیا ۔ بہنوئی تو گالف کھیلنے کے لئے گھر سے باہر تھے ، مگر ٹیلی فون سُننے والے بیٹ مین نے میرے رشتے کی تصدیق کر دی ۔ اب جو تین بتیوں والے فوجی نے کالونی میں داخل ہونے کے لئے تعارفی پرچی مجھے تھمائی تو یکدم بے تو قیری کا حساس ہوا ۔ میزبان کے نام کے شروع میں لکھا تھا ’لیفٹیننٹ کرنل ‘ اور آخر میں ’صاحب‘ ۔ مہمان کے ضمن میں بس شاہد ملک ولد نذیر احمد ملک۔

کہانی کا کلائمکس ایک ایسا دلچسپ مکالمہ ہے جس کی عطا کردہ خوش تدبیری میں بڑے سے بڑے انسانی کرائسز کا حل بھی پوشیدہ ہے ۔ پرچی لیتے ہوئے مَیں نے کہا ”آپ ایک مہربانی کر سکتے ہیں؟“ ”کیا؟“ ”یہی کہ میرے نام کے ساتھ بھی ’صاحب‘ لکھ د یں‘ ‘ ۔ ”وہ کیوں؟“ عرض کی ”اُن کے ساتھ رینک لگا ہوا ہے ، پھر بھی ’صاحب ‘ لکھ دیا۔ میرا یہ شوق ہے کہ لوگ نام لینے کی بجائے مجھے ملک صاحب ، ملک صاحب کہہ کر بُلائیں“ ۔ اللہ کا وہ نیک بندہ یا تو تھا ہی پیدائشی ڈپلومیٹ یا یہ ملٹری پولیس کی تربیت تھی کہ میرے سارے موقف کی ہوا اُس کے ایک جملے نے نکا ل دی ”سر، آپ کے لیے چائے منگواﺅں؟“ مَیں چُپ کا چُپ ۔ بس ہاتھ ملایا اور چل پڑا ۔ آج مدتوں بعد حافظے میں ملتان کی فلم چلی تو یہ منظر بھی یاد آ گیا اور شناختی کارڈ کی عارضی گمشدگی کی کلفت جاتی رہی ۔

2

QOSHE -   سر، آپ کے لئے چائے منگواﺅں؟ - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  سر، آپ کے لئے چائے منگواﺅں؟

9 0
05.11.2023

بات سادہ سی تھی، لیکن سنتے ہی میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور ذہن کو وسوسوں نے گھیر لیا ۔ اب نیا شناختی کارڈ کیسے بنے گا ؟ کیا تھانے میں رپٹ درج کراﺅں کہ کارڈ فوجی چیک پوسٹ پر جمع کرایا اور وہیں سے غائب ہو گیا ؟ لاہور سے سو کلومیٹر دُور اِس کنٹونمنٹ کو خدا جانے پولیس سٹیشن کون سا لگتا ہے؟ استغاثہ دائر کروں تو اُس کی سماعت ملٹری کورٹ کرے گی یا سو ل عدالت ؟ چھاﺅنی میں داخل ہوتے ہوئے میزبان کی فون کال ، کوائف کی جانچ پڑتال اور شناختی دستاویز کی سپرداری سکیورٹی کی غرض سے تھی ، جو خوشی کی بات ہے۔ پر توقع نہیں تھی کہ چار گھنٹے میں واپسی پر حفاظتی چوکی پہ مامور باوردی جوان شیلف کے خانوں کو ٹٹول کرنیم دلی سے کہہ دے گا : ”آپ کا شناختی کارڈ نہیں ملا۔“ ”یہ تو ممکن نہیں۔“ ”جی سب کے ِمل جاتے ہیں ، آپ کا نہیں مِلا۔‘ ‘

بارسلونا آئے پی ٹی آئی کے سنیئررہنماوں کے اعزاز میں تقریب ،عمران خان اور جیلوں میں بند کارکنان کی استقامت کے لیے خصوصی دعا مانگی گئی

کوئی چھوٹی موٹی انتظامی مشکل اچانک نازل ہو جائے تو مَیں بُردباری کی ایکٹنگ کامیابی سے کر لیتا ہوں ۔ انگریز دَور میں کچھ لوگ اِس اداکاری کو او ایل کیو کا تقاضا سمجھتے تھے، یعنی آفیسر لائیک کوالیٹیزیا افسرانہ اوصاف۔ چنانچہ پریشانی چھپا کر تحمل سے کہا ”بیٹا ، کارڈ یہاں سے گُم نہیں ہو سکتا ، آرام سے تلاش کیجئے۔ “ نوجوان نے کارروائی پھر مستعدی سے شروع کی۔ اب کے اُسے اپنے ایک اَور ساتھی کی معاونت بھی حاصل تھی ۔ اِس مرحلے پر مَیں نے دھیرے دھیرے یہ بھی پتا چلا لیا کہ کنٹونمنٹ میں داخل ہونے والوں کے شناختی کارڈ جب بائیں طرف جمع ہو کر سڑک کے داہنے ہاتھ واپسی والے بُوتھ میں پہنچتے ہیں تو انہیں کس ترتیب سے رکھا جاتا ہے ۔ جواب ملا کہ ناموں کے حروفِ تہجی اور متعلقہ ٹائم دونوں حساب سے۔ تلاش کا دوسرا دَور مکمل ہوا تو اعلان وہی تھا کہ ” کارڈ نہیں مِلا۔‘........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play