نواز شریف کی ملکی سیاست میں انٹری بہت سا کنفیوژن دور کر گئی ہے۔سب سے بڑھ کر اس بحث کا خاتمہ ہو گیا ہے کہ عام انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔نون لیگ مخالف حلقے اس تاخیر کو عمران خان کی نام نہاد مقبولیت سے جوڑ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ اس لئے جلد عام انتخابات کے حق میں نہیں ہیں کہ دونوں کو خطرہ ہے کہ اس کے نتیجے میں عمران خان اپنی مقبولیت کے سہارے ملک بھر میں کلین سویپ کر جائیں گے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا نواز شریف اس قدر جلد ملک واپس آکر کیا کریں گے جب انہیں معلوم ہے کہ پورے ملک سمیت پنجاب میں بھی عمران خان کا طوطی بولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی جانب سے وطن واپسی کی واضح تاریخ کا اعلان ہونے کے باوجود نون لیگ مخالف حلقے اس بات کا پرچار کرتے رہے کہ نوا ز شریف وطن واپس نہیں آئیں گے، تاآنکہ ان کا طیارہ مینار پاکستان پر تیرتا نظر نہیں آگیا۔

نگران وزیرصحت سعد نیاز اسپتالوں کو بہتر کرنے میں ناکام رہے، ترجمان وزیراعلیٰ سندھ

نواز شریف کی وطن واپسی نون لیگ مخالف قوتوں کے سینے پر گھونسے کی طرح لگی ہے۔ اب انہیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ وہ کس طرح اپنے اس مفروضے کو سچ ثابت کریں کہ عمران خان نواز شریف سے زیادہ مقبول ہیں، خاص طور پر جب کہ نوا ز شریف نے بھی مینار پاکستان بھر کر دکھا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اول اول دفاع کے لئے آگے آئی اور لیول پلیئنگ فیلڈکی عدم دستیابی کا رونا رویا، مگر جب ان سے کہا کہ وہ بھی ایسا ہی کوئی جلسہ کر دکھائیں تو ان کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی اور اب بلاول بھٹو کہتے پائے جا رہے ہیں کہ لیول پلیئنگ فیلڈ ہو یا نہ ہو، پیپلز پارٹی مقابلہ کرے گی۔ بلاول بھٹو کو یہ بیان تب دینا پڑا جب نون لیگ نے سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کا باضابطہ اعلان کردیا۔ گویا کہ نواز شریف نے نہ صرف پنجاب میں اپنی دھاک بٹھادی، بلکہ سندھ میں بھی سیاسی انٹری دے دی۔ اگلے ہفتے وہ بلوچستان تشریف لے جائیں گے جہاں بلوچستان عوامی پارٹی سمیت کئی اہم بلوچ سیاستدان انہیں جوائن کرتے نظر آئیں گے۔ امکان ہے کہ اس کے بعد نواز شریف شمالی علاقہ جات کا رخ کریں گے اور ایسے مزید مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا؟

ہم نے بارہا ان کالموں میں تکرار کی ہے کہ پاکستانی قوم نے بھٹو کو Over estimateاور نواز شریف کو Under estimateکیا ہے۔ اب ایسا کچھ عمران خان اور نواز شریف کے معاملے میں بھی کیا جا رہا ہے کہ بھٹو کی طرح انہیں بھی نواز شریف کے مقابلے میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے والی بات ہے۔خود نواز شریف کا انداز سیاست بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت آگے آگے پیش کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ اب بھی وطن واپسی کے بعد سے اب تک انہوں نے ایک بھی انٹرویو کسی ایک جغادری اینکر پرسن کو نہیں دیا، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کس قدر ریزرو یا Under estimateکئے رکھتے ہیں۔ اگر اس طرح عمران خان کی واپسی ہوئی ہوتی تو جس انداز میں قطار اندر قطار اینکر پرسن ان کے انٹرویو کر رہے ہوتے، اس کا اندازہ ملک کا بچہ بچہ لگاسکتا ہے۔نواز شریف کا حال تو یہ ہے کہ سلیم صافی کرنے گئے تو ان کا انٹرویو تھے، مگر سامنے اسحاق ڈار کو بیٹھے پایااور چاروناچارانہیں ڈار صاحب کا ہی انٹرویو کرنا پڑا۔ نواز شریف کے انداز سیاست کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی واپسی کے بعد خود مریم نواز شریف بھی تابعدار بیٹی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ انہیں بھی اجازت نہیں ہے کہ انٹرویوز کے ذریعے مخالفین کو کچوکے لگائیں۔

ماہی گیروں نے بڑی تعداد میں قیمتی’’سوا ‘‘مچھلیاں پکڑ لیں

اس منظرنامے میں اب پی ٹی آئی کے حامی حلقے ایک نیا سوال اٹھاتے پائے جا رہے ہیں کہ عمران خان کو جیل میں رکھ کر اگر نواز شریف انتخابات جیت بھی گئے تو ان انتخابات کی ساکھ نہیں ہوگی کیونکہ کہا جائے گا کہ ایک مقبول لیڈر کو پابند سلاسل رکھ کر انتخابات کروائے گئے ہیں۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ اس سلسلے میں بہت سنجیدہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ نومبر کے مہینے میں کسی نہ کسی طرح عمران خان کو جیل سے رہا کروالیا جائے، لیکن ایسا کچھ ہوا تو پاکستا ن کے عدالتی نظام کا جنازہ نکل جائے گا کہ کس طرح ایک شخص کو قومی سلامتی کے اداروں پر حملہ کرنے کے باوجود کلین چٹ مل سکتی ہے اور وہ دوبارہ سے انتخابی میدان میں اتر کر اسٹیبلشمنٹ اور مخالفین کے لتے لے رہا ہو۔ اس کا ہلکا سا اشارہ جناب عرفان صدیقی نے رؤف کلاسرہ سے انٹرویو میں کیا کہ نواز شریف کی واپسی پر عمران خان نے کہا کہ آپ اپنے نیلسن منڈیلا کو واپس لے آئے ہیں جس کا مطلب یہ تھا کہ عمران خان کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی ہے، جہاں تھی، مگر اس کے باوجود اپنے لئے آئین و قانون کو بالائے طاق رکھنے پر بضد ہیں۔ جبکہ فواد چودھری نواز شریف سے کردار ادا کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

15 کروڑ 60 لاکھ روپے مالیت کی غیر قانونی سگریٹس ضبط

عمران خان کو اپنے کئے کی سزا بھگتنا ہوگی اور انتخابات میں انہیں حصہ لینے کی اجازت دی بھی گئی تو ایک ٹوٹے ہوئے بازور اور ایک ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ ہی حصہ لے سکیں گے۔ دیوار کا لکھا ہر کوئی پڑھ پا رہا ہے، اگر کوئی نہیں پڑھ پارہا تو وہ عمران خان کا حامی حلقہ ہے جو ایک طرف پی ٹی آئی کا بکھرا ہوا شیرازہ لئے بیٹھا ہے تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کی معدوم شدہ مقبولیت کے دیے میں دوبارہ سے لو بھڑک اٹھنے کی تمنا لئے ہوئے ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا:

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید

ناامیدی اس کی دیکھا چاہئے

سڑک کے اُس پار کینیڈا کا جھنڈا سرخ و سفید لباس میں اپنے دامن کے سفید حصّے پر ”سرخ پتہ“ ہوا کے دوش پر لہرا رہا تھا اور آگے سے آگے بڑھنے کا حوصلہ دے رہا تھا

QOSHE -        میاں آگیا میدان وچ! - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       میاں آگیا میدان وچ!

8 6
10.11.2023

نواز شریف کی ملکی سیاست میں انٹری بہت سا کنفیوژن دور کر گئی ہے۔سب سے بڑھ کر اس بحث کا خاتمہ ہو گیا ہے کہ عام انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔نون لیگ مخالف حلقے اس تاخیر کو عمران خان کی نام نہاد مقبولیت سے جوڑ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ اس لئے جلد عام انتخابات کے حق میں نہیں ہیں کہ دونوں کو خطرہ ہے کہ اس کے نتیجے میں عمران خان اپنی مقبولیت کے سہارے ملک بھر میں کلین سویپ کر جائیں گے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا نواز شریف اس قدر جلد ملک واپس آکر کیا کریں گے جب انہیں معلوم ہے کہ پورے ملک سمیت پنجاب میں بھی عمران خان کا طوطی بولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی جانب سے وطن واپسی کی واضح تاریخ کا اعلان ہونے کے باوجود نون لیگ مخالف حلقے اس بات کا پرچار کرتے رہے کہ نوا ز شریف وطن واپس نہیں آئیں گے، تاآنکہ ان کا طیارہ مینار پاکستان پر تیرتا نظر نہیں آگیا۔

نگران وزیرصحت سعد نیاز اسپتالوں کو بہتر کرنے میں ناکام رہے، ترجمان وزیراعلیٰ سندھ

نواز شریف کی وطن واپسی نون لیگ مخالف قوتوں کے سینے پر گھونسے کی طرح لگی ہے۔ اب انہیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ وہ کس طرح اپنے اس مفروضے کو سچ ثابت کریں کہ عمران خان نواز شریف سے زیادہ مقبول ہیں، خاص طور پر جب کہ نوا ز شریف نے بھی مینار پاکستان بھر کر دکھا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اول اول دفاع کے لئے آگے آئی اور لیول پلیئنگ فیلڈکی عدم دستیابی کا رونا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play