آخری لاڈ
خوبصورت رنگوں میں ملبوس بچوں کی نعشیں ایک کمرے میں پڑی تھیں ان بچوں کی شرٹس پر مختلف تصاویر آراستہ تھیں کسی کی شرٹ پر پھول تو کسی پر تتلیوں کی پینٹنگ تھی وہ بچے بھی تو تتلیوں کے پروں سے نازک اور پھولوں سے نرم تھے جن کی ماؤں نے کتنے چاؤ اور رچاؤ سے انہیں ایسا پیرہن زیب تن کیا تھا بچوں کی عمریں پانچ سات اور آٹھ سال کی ہونگی یہ بچے اسرائیلیوں کی وحشیانہ بمباری سے عدم کو سدھار گئے تھے ان کے رنگوں سے مزین لباس کو ان کے خون نے اور رنگین کردیا تھا کسی بچے کا بازو اس کے اوپر تھا کسی کی ٹانگ کہیں تو کسی کا دھڑ کہیں تھا کائنات میں کوئی بہت سنگدل اور بڑا ظالم شخص بھی ان بچوں کی نعشوں کو نہیں دیکھ سکتا اور جنہوں نے ان بچوں پر بم برسا دئیے انکی سفاکیت کا کوئی اندازہ کرسکتا ہے؟نہیں کوئی نہیں کرسکتا کہ کوئی خونخوار جنگلی جانور بھی ان بچوں کو اکیلے جنگل میں بھٹکا ہوا پاتا تو ان پر حملہ آور ہونے کی بجائے انکی حفاظت کرتا کہ جانور بھی بچوں کی معصومیت سمجھتے ہیں ایک بھوکا بھیڑیا یا شیر بھی کم از کم کسی بچے پر حملہ نہیں کرتا بچوں کو تو فرشتے کہا جاتا ہے بچوں کو تو خدا کے روپ سے تعبیر کیا جاتا ہے ان کی ماؤں نے کتنی محبت سے ان کے بال بنائے ہوں گے کس شفقت سے انہیں تیار کیا ہوگا کس عقیدت سے انکا لباس بدلا ہوگا ان ماؤں کو کیا خبر تھی کہ یہ ان کا اپنے بچوں سے کیا ہوا ”آخری لاڈ“ ہے اس کے بعد ان کے لاڈلے اللہ کے حضور پیش ہوں گے جہاں فرشتے انہیں نایاب........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website