بالآخر قومی اتحاد نے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ 16مارچ کو سرے گھاٹ کی مدینہ مسجد سے نکلنے والے پہلے احتجاجی جلوس کی قیادت میں نے کی۔ لوگوں کو پرامن رہنے کی تلقین کرکے ابھی چار قدم بھی نہیں چلے تھے کہ پولیس اور ایف ایس ایف نے چاروں طرف سے شیلنگ اور فائرنگ شروع کردی۔ کئی افراد شہید اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ دوسرے دن 17مارچ کو مجھے گھر کے قریب سے گرفتار کرکے ایس پی کے دفتر لے جایا گیا اور پھر جامشورو پولیس اسٹیشن بھیج دیا گیا۔ یہاں سے نصف شب کو ضلع دادو کے علاقے تھانہ بولا خان لے گئے۔ ریسٹ ہاﺅس میں رکھنے کے لئے ضروری پولیس فورس نہیں تھی، لہٰذا انچارج تھانہ کی قیام پر رکھا گیا۔ ایک ہفتے تک ملحقہ مسجد میں پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کرتا رہا مگر پھر اس سے منع کردیا گیا۔ میں یہاں دنیا سے بالکل کٹا ہوا تھا ، اخبارات اور ریڈیو میسر نہ تھے۔

لاہور بار ایسوسی ایشن نے پی ٹی آئی کے وکلاء سے اظہار لاتعلقی کردیا

اس قید تنہائی سے 30مارچ کی شب کو نجات ملی جب لطیف آباد تھانے کی پولیس لینے کے لئے پہنچی۔ اسی رات تھانہ بولا خان سے سکھر کے لئے روانہ ہوئے اور صبح سکھر جیل پہنچے۔ اس عرصے میں میری جائے قیام کو پوشیدہ رکھا گیا تھا جس سے عوام میں بے چینی پھیلی۔ سکھر جیل پہنچ کر مجھے اپنے شہر اور ملک کے حالات کا علم ہوا۔ یہاں اے کلاس دی گئی اور اخبارات رسائل اور ریڈیو کی سہولت فراہم کی گئی۔

ہمارے بعد ملک کے عوام خصوصاً حیدرآباد کے جیالوں نے جس دلیری و پامردی ، جرات و ہمت اور عزم و استقلال سے تحریک کو آگے بڑھایا ، اس کی تھوڑی بہت اطلاعات ملتی رہیں جس کے سبب اسیروں کے حوصلے بلند ہوئے، مگر جب ہم تشدد اور دہشت کے واقعات سنتے تھے بے انتہا رنج ہوتا تھا۔ لوگ گرفتار ہو کر آتے رہے اور جیل بھرتی رہی۔ سکھر کی قیامت خیز گرمی تمام قیدیوں کے عذاب جاں تھی ، ان اسیروں کو شام سے ہی تپتی ہوئی کوٹھڑیوں میں بند کردیا جاتا تھا جہاں پنکھوں کا کوئی بھی انتظام نہ تھا اور تمام لوگ رات جاگ کر گزارتے تھے۔ آخر کار اسیروں نے ایک مزاحمت کی اور سرشام بند ہونے سے انکار کردیا۔ جیل حکام سے جھگڑا ہوا تو پھر کہیں رات کو گیارہ بجے تک باہر رہنے کی اجازت ملی۔ جب حیدرآباد کی خواتین سڑکوں پر نکلیں تو ہمیں یقین ہوگیا کہ آمریت کا دیو استبداد اب زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکے گا۔ خواتین نے جس طرح لاٹھیوں اور گولیوں کا مقابلہ کیا ، حق و صداقت کے لئے جدوجہد کی، وہ تاریخ کا زریں باب ہے۔ سب حربے ناکام ہو گئے تو ایک ایسے ادارے (افواج پاکستان) کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی جس پر عوام کا اعتماد تھا۔ یہ ملک کی سلامتی سے کھیلنے کے مترادف تھا۔ بالآخر جناب بھٹو کو عوام کے سامنے جھکنا پڑا۔ بات چیت کے نتیجے میں جب اسیروں کی ر ہائی کا فیصلہ ہوا تو اس پر نیک نیتی سے عمل نہ کیا گیا۔ ہمارے وارڈ سے 10جون سے 16جون تک کئی لوگ رہا ہوئے مگر مجھے رہا کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا۔ 21جون کو اطلاع دی گئی کہ حیددآباد جیل منتقل کیا جا رہا ہے مگر ابھی ہم روانگی کی تیاریاں کر رہے تھے کہ سکھر جیل ہی سے رہا کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ اس طرح 97روز کی قید کے بعد رہائی حاصل ہوئی۔

ورلڈ کپ فائنل، آج بھارت اور آسٹریلیا مد مقابل ہونگے

یہ اقتباس حیدرآباد کے ممتاز صحافی جناب ظہیر احمد کی تازہ تصنیف ”جہانِ شوکت“ سے لیا گیا ہے جو مارچ 1977کے انتخابات میں حیدرآباد سندھ سے بے مثال مقبولیت کے ساتھ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے میاں محمد شوکت کی شخصیت، زندگی، کردار، جدوجہد اور خدمات کا احاطہ کرتی ہے۔ جناب ظہیر احمد نے کمال ہنرمندی سے اس وقت کی حکمراں جماعت میں عادی مجرموں جیسے ان نام نہاد سیاسی کرداروں کی کھوج لگائی ہے جنھوں نے مارچ 1977کے عام انتخابات کی مہم اور پولنگ کے غیر معمولی نتائج سے پاکستان قومی اتحاد کی بے مثال تحریک تک میں محمد شوکت کی عوامی مقبولیت کے سامنے اسلحہ کی دیوار کھڑی کرنی چاہی مگر ناکام رہے۔ بعد میں جنرل ضیاءالحق کے دور میں بلدیاتی انتخابات کے وقت خطرہ سمجھ کر دیگر افراد کو استعمال کرکے ان کی بلند پروازی روکی گئی اور اسٹیبلشمنٹ مطلوب نتائج کے لئے بروئے کار لائے گئے۔ جناب ظہیر احمد نے ان عوامل کا بھی احاطہ کیا ہے جن کے سبب میاں محمد شوکت سے سیاسی و سماجی کردار ادا کرنے کا وسیع میدان چھین کر انہیں محلے، پھر گھر تک محدود کرنے کا ماحول بنایا گیا جس کے سبب وہ لاہور نقل مکانی یا ایک اور ہجرت پر مجبور ہوئے اور یہیں آسودہ خاک ہوئے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

میاں محمد شوکت نے کم و بیش 45سال حیدرآباد میں بھرپورزندگی گزاری۔وہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے حیدرآباد کی شناخت بنے۔ ان کے سب سے زیادہ عروج کا زمانہ 1977کے انتخابات کا تھا۔ اس زمانے میں ان کا شمار پاکستان کی سطح پر قومی اتحاد کے مقبول ترین امیدواروں میں ہوتا تھا جن کے لئے الیکشن کے مرحلے سے گزرنا رسمی بات تھی اور قومی اسمبلی کی نشست دھاندلی کے ذریعہ بھی ان سے چھین لینا ممکن نہ تھا۔

میاں محمد شوکت کی اسیری پر لطیف آباد حیدرآباد میںان کی زوجہ محترمہ اور دیگر نامور خواتین نے ان کی رہائی کے لئے جلوس نکال کر تاریخ رقم کی تھی ۔ خواتین کے احتجاج نے بھٹو حکومت کی کیفیت دیوانگی میں اپنا منہ نوچنے والے پاگلوں سے بدتر کردی تھی اور ان خواتین کی بہادری نے بھٹو راج کو تاراج کردیا تھا۔

شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 4 دہشتگرد مارے گئے

کتاب کی اشاعت اگست 2023میں ہوئی ہے اور اس میں جناب مجیب الرحمٰن شامی کا مضمون ”سسرال کی تلاش“، عمر مجیب شامی کا مضمون ”نانا بہترین مقام پر ہوں گے_©“ خاصے کی چیزیں ہیں ۔ ”جہانِ شوکت“ کا ہر صفحہ اپنی شان میں الگ میں ہے ، ضرور پڑھئے!

QOSHE -    جہانِ شوکت - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   جہانِ شوکت

7 0
19.11.2023

بالآخر قومی اتحاد نے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ 16مارچ کو سرے گھاٹ کی مدینہ مسجد سے نکلنے والے پہلے احتجاجی جلوس کی قیادت میں نے کی۔ لوگوں کو پرامن رہنے کی تلقین کرکے ابھی چار قدم بھی نہیں چلے تھے کہ پولیس اور ایف ایس ایف نے چاروں طرف سے شیلنگ اور فائرنگ شروع کردی۔ کئی افراد شہید اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ دوسرے دن 17مارچ کو مجھے گھر کے قریب سے گرفتار کرکے ایس پی کے دفتر لے جایا گیا اور پھر جامشورو پولیس اسٹیشن بھیج دیا گیا۔ یہاں سے نصف شب کو ضلع دادو کے علاقے تھانہ بولا خان لے گئے۔ ریسٹ ہاﺅس میں رکھنے کے لئے ضروری پولیس فورس نہیں تھی، لہٰذا انچارج تھانہ کی قیام پر رکھا گیا۔ ایک ہفتے تک ملحقہ مسجد میں پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کرتا رہا مگر پھر اس سے منع کردیا گیا۔ میں یہاں دنیا سے بالکل کٹا ہوا تھا ، اخبارات اور ریڈیو میسر نہ تھے۔

لاہور بار ایسوسی ایشن نے پی ٹی آئی کے وکلاء سے اظہار لاتعلقی کردیا

اس قید تنہائی سے 30مارچ کی شب کو نجات ملی جب لطیف آباد تھانے کی پولیس لینے کے لئے پہنچی۔ اسی رات تھانہ بولا خان سے سکھر کے لئے روانہ ہوئے اور صبح سکھر جیل پہنچے۔ اس عرصے میں میری جائے قیام کو پوشیدہ رکھا گیا تھا جس سے عوام میں بے چینی پھیلی۔ سکھر جیل پہنچ کر مجھے اپنے شہر اور ملک کے حالات کا علم ہوا۔ یہاں اے کلاس دی گئی اور اخبارات رسائل اور ریڈیو کی سہولت فراہم کی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play