کم لوگوں کو علم ہو گا کہ جب علامہ اقبال کے استاد مولوی میر حسن کا انتقال ہوا تو اُس روز حکیم الامت کو نمازِ جنازہ میں شرکت کی خاطر لاہور سے سیالکوٹ کے لیے مال گاڑی پہ سفر کرنا پڑا تھا ۔ یہ تب کی بات ہے جب دونوں شہروں کے درمیان آنے جانے والوں کو وزیرآباد جنکشن پر ٹرین تبدیل کرنا پڑتی تھی ۔ تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے اور مدتوں پرانی ڈائریکٹ سفر کی سہولت ختم ہونے پر اب پھر وزیر آباد اسٹیشن پر ایک سے اُتر کر دوسری ٹرین میں سوار ہونا لازمی ہو چکا ہے۔ پر حضرتِ علامہ کے ساتھ کچھ اَور ہوا۔ اُنہیں ”چراغِ خانہ ءمرتضوی “ سے جو لگاﺅ رہا ، اُس کے ہوتے ہوئے استاد کی رحلت کا سُن کر وہ بھاگم بھاگ ریلوے اسٹیشن پہنچے ۔ مسافر گاڑی کے چلنے میں ابھی وقت تھا ۔ پتا چلا کہ ایک گُڈز ٹرین وزیر آباد کی سمت روانہ ہو رہی ہے ۔ ٹکٹ لیا اور اُسی میں سوار ہو گئے ۔

لاہور بار ایسوسی ایشن نے پی ٹی آئی کے وکلاء سے اظہار لاتعلقی کردیا

سیالکوٹ پہنچنے کی دیر تھی کہ ایک سوگوار خاتون نے اعلان کیا ”ساڈا اقبال تے آ گیا اے“ ۔ چونکہ اُنہی کا انتظار ہو رہا تھا ، اِس لیے چند ہی لمحوں میں جنازہ اٹھا لیا گیا ۔ ہم اِسے مقامی روایت کا روحانی پروٹوکول کہیں گے ۔ ظاہر ہے یہ اُس انتظامی پروٹوکول سے مختلف چیز تھی جس میں معمولی سی غفلت پر ڈی سی اور ایس پی تبدیل کر دیے جاتے ہیں ۔ پر کیا کروں کہ پاکستان کا خواب دیکھنے والا میرا شہردار بھی جب مال گاڑی پہ جا بیٹھا تو ظاہری حیثیت کے لحاظ سے وہ پنجاب مسلم لیگ کا صدر اور صوبائی اسمبلی کا منتخبہ رکن تو تھا ہی ، اُسے انگریز سرکار سے ’سر‘ کا خطاب ملے بھی چھ سال ہو چکے تھے ۔ تو کیا جعلی رکھ رکھاﺅ ہر سیاستدان کا مسئلہ نہیں ہوا کرتا؟ اور کیا روایتی پنجابی افسر کی مصنوعی تمکنت ہرموقع پر رعونت کی حدوں کو چھوتی نظر نہیں آتی؟

ورلڈ کپ فائنل، آج بھارت اور آسٹریلیا مد مقابل ہونگے

’دانے دانے پہ مہر‘ والے محاورے سے خدا معلوم آپ کیا مراد لیتے ہوں ، مگر مجھے تو یہ کبھی کبھی اپنے ہی سوال کے دونوں مفروضات کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ دُور کیوں جائیں ، ملک معراج خالد کی دنیا سے روانگی تو رواں صدی کے شروع کی بات ہے۔ اُن کی حکمتِ عملی کے بارے میں سیاسی حلقوں میں الگ الگ آراءپائی جاتی ہیں۔ پر یہ سبھی مانتے ہیں کہ ملک صاحب جب نگران وزیر اعظم بنے تو خود ہی فیصلہ کر لیا کہ ویک اینڈ پر اسلام آباد سے لاہور آنے کے لیے ہوائی جہاز کی اکانومی کلاس ٹھیک رہے گی ۔ پھر یہ کہ سڑکوں پر محض ایک شخص کی بلا روک حرکت کو یقینی بنانے کے لیے خلقِ خدا کو منجمد کر دینا کہاں کی دانشمندی ہے ۔ ایک چشم دید واقعہ تو ایسا ہے کہ جب بھی یاد آیا بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

یہ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد کے سینیٹر میاں احسان الحق کی بیٹی کی تقریبِ شادی تھی۔ بی بی سی کا نامہ نگار ذرا پہلے پہنچ گیا کہ کیا پتا نگراں وزیر اعظم کسی امکانی خبر کا موضوع بن جائیں ۔ ابھی صاحب ِ خانہ یا کوئی اور شخصیت پنڈال میں موجود نہیں تھی بلکہ قناتوں اور ٹینٹوں کے کِلے ٹھونکنے کا عمل تا حال با آوازِ بلند جاری تھا ۔ اچانک کیا دیکھا کہ ایک کونے میں ملک معراج خالد یک و تنہا کھڑے ہیں ۔ سفید شلوار قمیض کے اوپر معمولی سا کالا کوٹ اور قدرے خُنکی کے باعث دونوں ہاتھ بغلوں میں ۔ آگے بڑھ کر سلام کیا تو محسوس ہوا کہ ملک صاحب کو سب سے پہلے پہنچ جانے پر کوئی پریشانی نہیں ۔ ٹینٹ لگانے والے نے دھیمی آواز میں پوچھا کہ یہ کون ہیں ۔ مَیں نے کہا ”وزیر اعظم“۔ فوری جواب مِلا کہ ”ایننھاں نوں تے لگدا اے روزہ لگا ہوئیا اے‘ ‘۔

شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 4 دہشتگرد مارے گئے

اِس دنیا میں روزہ لگنے والی ہستیاں ہیں تو خال خال ، لیکن اِن کی زمرہ بندی کو محض سیاسی رہنماﺅں تک محدود خیال کر لینا قرینِ انصاف نہیں ہو گا ۔ بچپن میں والد کے ذخیرہءکتب میں سے جن کتابوں کی ورق گردانی چوری چوری کی ، اُن میں آرمی ریگولیشنز کی تین چار جلدیں بھی تھیں ۔ چنانچہ اِن گناہگار آنکھوں نے متن میں بعض عجیب و غریب شقیں نہ صرف دیکھیں بلکہ بہت قریب سے اُن پر عملدرآمد ہوتے ہوئے بھی پایا۔ جیسے یہ اصول کہ کسی بیگم کو بس اُسی صورت میں سٹاف کار میں بیٹھنے کی اجازت ہے جب وہ اپنے شوہر کی ہمراہی میں سفر کر رہی ہوں ۔ پھر شوہر بھی کم از کم ایک ستارے والا جرنیل ۔ یہ نہیں کہ دن ہو یا رات افسروں کے بیٹے اور بھتیجے لاٹ صاحب کے دفتر کی ہری پلیٹ والی کاریں لبرٹی اور وائی بلاک کی مارکیٹ وں میں دوڑاتے پھریں ۔

وسیم اکرم کی طرح گیند پر پورا کنٹرول چاہتا تھا : محمد عامر

یہ مراد نہیں کہ سول محکموں میں سرکاری ٹرانسپورٹ کی قدرے لبرل پالیسی کی بدولت سارے ہی سینئر اہلکار اِن سہولتوں کے ناجائز استعمال میں ملوث ہیں ۔ نہیں ، بعض لوگ محکمانہ ضوابط کے پیشِ نظر عمومی احتیاط کا رویہ اپنائے رکھتے ہیں بلکہ میرا اپنا لینا دینا اُن نیک روحوں سے رہا جو کچھ ہو جائے قانون سے انحراف نہیں کرتیِں۔ چند سال پہلے ایک سہ پہر مَیں اپنے کمرے میں بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا کہ میرا بیٹا اسد خلافِ معمول جوش کے عالم میں دبڑ دبڑ سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر آیا ۔ ”نیچے حسیب انکل آئے ہیں ، اور سائیکل پہ آئے ہیں ۔“ حسیب انکل ، جو وفاقی سیکرٹری اور پھر ایک آئینی منصب تک پہنچے ، اُس وقت بھی ایک صوبائی محکمے کے سربراہ تھے ۔ بولے کہ گھر دفتر سے دُور نہیں ، سو سائیکل پر آنا جانا شروع کر دیا ہے ۔

' ہمارےالیکشن پر تحفظات کوغلط رنگ دیکر ہمارے خلاف پروپیگنڈاکیا جارہا ، مولانا فضل الرحمان کی وضاحت

پروٹوکول ترک کرنے کی کہانی یہاں ختم نہیں ہو جاتی ۔ انکل نے بتا دیا تھا کہ سائیکل سوای کی بدولت روز مرہ مشاہدات اور انسانی رشتوں کے کئی نئے دریچے وا ہوئے ہیں۔ ابتدا میں جی او آر کے بنگلوں پر متعین مالی ، چوکیدار اور گھریلو ملازم باور ہی نہ کرسکے کہ صبح صبح خاموشی سے سائیکل پر گزر جانے والا یہ نیا آدمی ہے کون ۔ اگلے ہفتے جب شناخت پریڈ ہو چکی تو اِن ملازموں کا ردِعمل خوشی کی بجائے حیرت کا تھا ۔ تیسرے ہفتے اپنائیت کا احساس پیدا ہوا تو دونوں طرف سے حال احوال پوچھا جانے لگا ۔ یہی وہ مرحلہ ہے جب ایک ٹی وی چینل والے اِس ’کرتب‘ کی فلم بنانے کے لیے آ دھمکے اور میرے دوست نے تشہیر سے بچنے کی خاطر پہلے اپنا راستہ بدلا اور پھر سواری بھی تبدیل کر لی ۔ اِسی طرح ایک اور دوست کو سرکاری بنگلہ الاٹ نہ ہونے پر جب ہمیں مقامی ڈی ایچ اے میں ایک پراپرٹی ڈیلر کے یہاں جانا پڑا تو اُس نے ہماری کرائے کی رینج سُن کر کہا: ” آپ تو کہتے تھے یہ تین ضلعوں میں ڈی سی رہ چکے ہیں۔“

اِن کہانیوں پر میرے گھر میں بالائی طبقہ کی عورت کی طرح شاید آپ بھی سوچیں کہ ”جہو جئی پھَتو اوہو جہے پھَتو دے یار“ ۔ اب کون کسے سمجھائے کہ صحافتی زندگی میں قیام و طعام کی اضافی سہولتوں سے بچنے والی پھَتو اِتنی پھَتو بھی نہیں ۔ اُس نے بھی انسداد دہشت گردی کے ایک مقدمہ کی رپورٹنگ کے لیے ضلع در ضلع تبدیل ہونے والی پولیس گارد کی پیشوائی میں لاہور سے ڈیرہ غازی خان تک دو مرتبہ سفر کیا تھا۔ ویسے کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اِس پروٹوکول سے مقدمہ کے فریقین کو حصولِ انصاف میں کتنی مدد ملی۔جواب میں روزنامہ ’مساوات‘ کے ابتدائی ایام کے ایڈیٹوریل رائٹر اور پھَتو کے مرحوم دوست سلمان مسعود کا یہ تاریخی جملہ ہی کافی ہے کہ ”عالی جاہ ، اگر یہ جاننا ہو کہ کون آدمی کتنا بڑا ہے تو یہ دیکھ لیا کریں کہ وہ کِس بات کو اپنے لیے چیلنج سمجھ رہا ہے۔ “ رہے نام اللہ کا ۔

QOSHE -    آپ کِس بات کو چیلنج سمجھتے ہیں!  - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   آپ کِس بات کو چیلنج سمجھتے ہیں! 

23 1
19.11.2023

کم لوگوں کو علم ہو گا کہ جب علامہ اقبال کے استاد مولوی میر حسن کا انتقال ہوا تو اُس روز حکیم الامت کو نمازِ جنازہ میں شرکت کی خاطر لاہور سے سیالکوٹ کے لیے مال گاڑی پہ سفر کرنا پڑا تھا ۔ یہ تب کی بات ہے جب دونوں شہروں کے درمیان آنے جانے والوں کو وزیرآباد جنکشن پر ٹرین تبدیل کرنا پڑتی تھی ۔ تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے اور مدتوں پرانی ڈائریکٹ سفر کی سہولت ختم ہونے پر اب پھر وزیر آباد اسٹیشن پر ایک سے اُتر کر دوسری ٹرین میں سوار ہونا لازمی ہو چکا ہے۔ پر حضرتِ علامہ کے ساتھ کچھ اَور ہوا۔ اُنہیں ”چراغِ خانہ ءمرتضوی “ سے جو لگاﺅ رہا ، اُس کے ہوتے ہوئے استاد کی رحلت کا سُن کر وہ بھاگم بھاگ ریلوے اسٹیشن پہنچے ۔ مسافر گاڑی کے چلنے میں ابھی وقت تھا ۔ پتا چلا کہ ایک گُڈز ٹرین وزیر آباد کی سمت روانہ ہو رہی ہے ۔ ٹکٹ لیا اور اُسی میں سوار ہو گئے ۔

لاہور بار ایسوسی ایشن نے پی ٹی آئی کے وکلاء سے اظہار لاتعلقی کردیا

سیالکوٹ پہنچنے کی دیر تھی کہ ایک سوگوار خاتون نے اعلان کیا ”ساڈا اقبال تے آ گیا اے“ ۔ چونکہ اُنہی کا انتظار ہو رہا تھا ، اِس لیے چند ہی لمحوں میں جنازہ اٹھا لیا گیا ۔ ہم اِسے مقامی روایت کا روحانی پروٹوکول کہیں گے ۔ ظاہر ہے یہ اُس انتظامی پروٹوکول سے مختلف چیز تھی جس میں معمولی سی غفلت پر ڈی سی اور ایس پی تبدیل کر دیے جاتے ہیں ۔ پر کیا کروں کہ پاکستان کا خواب دیکھنے والا میرا شہردار بھی جب مال گاڑی پہ جا بیٹھا تو ظاہری حیثیت کے لحاظ سے وہ پنجاب مسلم لیگ کا صدر اور صوبائی اسمبلی کا منتخبہ رکن تو تھا ہی ، اُسے انگریز سرکار سے ’سر‘ کا خطاب ملے بھی چھ سال ہو چکے تھے ۔ تو کیا جعلی رکھ رکھاﺅ ہر سیاستدان کا مسئلہ نہیں ہوا کرتا؟ اور کیا روایتی پنجابی افسر کی مصنوعی تمکنت ہرموقع پر رعونت کی حدوں کو چھوتی نظر نہیں آتی؟

ورلڈ کپ فائنل، آج بھارت اور........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play