راقم نے کئی بازاروں میں اکثر یہ اشتہار دیکھا ہے کہ ہمارے پاس انڈین باجرے کا بیج دستیاب ہے. ہمارے ملک میں جب پیاز کم پڑھ جاتے ہیں تو پھر ہم بھارت سے پیاز درآمد کرتے ہیں سنا ہے کہ کیلے بھی بھارت سے منگوائے جا رہے ہیں جنوبی پنجاب کے اندر ترکش ٹماٹر کا بیج بہت مقبول ہے مقبول سیاستدانوں کا ٹھکانہ تو جیل یا جلاوطنی میں ہوتا ہے لیکن غیر ملکی مقبول اشیاء کی بازاروں میں بہت مانگ ہے) ٹماٹر ایران سے بھی درآمد ہو رہے ہیں آج کل یہ خاکسار اپنے شہر کی نرسریوں کے باہر بورڈ پر لکھا پڑھتا ہے. کہ ہمارے پاس امریکن، کورین اور ڈھاکہ کی گھاس دستیاب ہے. ویسے تو اس ملک میں دواوئں سے لیکر میک اپ تک، کپڑوں سے لیکر برتنوں تک، الیکٹرانک اشیاء سے لیکر گاڑیوں تک سب کچھ بیرون ممالک سے ہی درآمد ہوتا ہے،لیکن جب ہم سوچتے ہیں کہ یہ ملک بہترین موسمیات کے ساتھ زرعی ملک ہے. ہمارے پاس محکمہ زراعت بھی ہے جس کا بجٹ بھی کروڑوں بلکہ اربوں میں ہے. ہمارے پاس ہاوسنگ سوسائیٹیوں سے بچی ہوئی زمین بھی ہے تو پھر ہم دہلی اور ڈھاکہ کے محتاج کیوں ہیں؟

انٹربینک میں ڈالر پھر مہنگا، سٹاک مارکیٹ میں تیزی ریکارڈ

راقم کا مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی چیز مشاہدے میں آتی ہے.یا کہیں کوئی خرابی نظر آتی ہے تو اس پر سوچنا شروع کر دیتا ہوں ممکن حد تک کھوج لگانے کی کوشش بھی کرتا ہوں. اسی حوالے سے میں نے محکمہ زراعت کے ایک ریٹائرڈ سنئیر آفیسر سے ایک نشت رکھی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ہمارا محکمہ زراعت کیا کرتا رہا ہے،میں نے چائے کی پیالی آگے بڑھاتے ہوئے سوال داغ دیا کہ جناب آپ نے ایک لمبا عرصہ زراعت کے محکمہ میں ایک بڑے ضلع کی سربراہی کی ہے اور پھر اوپر تک بھی پہنچے، ذرا یہ تو بتائیں کہ ہماری زراعت زبوں حالی کا شکار کیوں ہے؟ انہوں نے چائے کی پیالی کو سنبھالتے ہوئے سوال میری طرف کر دیا کہ کیا اس ملک میں محکمہ زراعت کے سوا تمام اداروں کی کارکردگی مثالی ہے؟ میں نے کہا نہیں مثالی کارکردگی تو کسی بھی محکمے یا ادارے کی نہیں ہے۔مگر ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے،اس لیے میں نے آپ سے ملاقات رکھی ہے.کہ چلو، انتظامی محکمہ جات اور برقیات وغیرہ میں تو رشوت اور سفارش چلتی ہے۔مگر زراعت، جنگلات اور سیاحت وغیرہ کے محکمے پیدواری ادارے ہیں.

چیئرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف کی تقرری کیخلاف درخواست پر سماعت آج ہوگی

ان کے دم سے ہی ہماری معیشت نے چلنا تھا. ان کے حالات اتنے برے کیوں ہیں؟ ان صاحب نے جواب دیا کہ کسی بھی ملک کی کامیابی میں سب سے بڑا کردار اس ملک کی عدلیہ کا ہوتا ہے،اگر عدالتی نظام درست ہو اور لوگوں کو بلاتحصیص انصاف مل رہا ہو تو پھر تمام ادارے کامیابی سے چلتے ہیں اور ملک خوشحالی کی طرف سفر کرتا ہے،لہذا اگر آپ زراعت کی ناکامی کی وجوہات جاننا چاہتے ہو تو پہلے اپنے عدالتی نظام پر غور کرو اور کسی جج صاحب سے ایک ملاقات رکھو، انہی سے سوال پوچھو کہ اس ملک کے تمام ادارے زبوں حالی کا شکار کس طرح ہوئے ہیں؟ اب میرے پاس کوئی معقول جواب تھا نہ مزید سوال کی گنجائش تو ہم نے ادھر ادھر کی گپ شپ کے بعد نشست برخواست کر دی، ان صاحب نے جاتے ہوئے ایک بار پھر تاکید کی کہ میں کسی جج صاحب سے ضرور ملوں.اس کے بعد راقم نے کسی جج صاحب سے ملاقات کی ٹھان لی، حاضر سروس ججز صاحبان سے ملنا کچھ دشوار ہوتا ہے لہذا ہم نے ایک وکیل صاحب جو ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں سے ملاقات کا وقت لیا (ان کا خیال تھا کہ شاید میں نے کوئی کیس ان کو دینا ہے اس لیے انہوں نے خوشی سے مجھے وقت دیا) ہم نے ملتے ہی اپنا مدعا بیان کیا اور ان سے عدالتی نظام اور عدلیہ کے کردار کے متعلق اکٹھے ہی چند سوال کر دئیے. وکیل صاحب مسکرائے اور مجھ سے پوچھا کہ آپ کو اپنے ملک کے عدالتی نظام کا کچھ بھی علم نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں خود اس نظام کو بھگت چکا ہوں /بھگت رہا ہوں.اسی لیے تو عرض کی ہے کہ ہماری عدلیہ ٹھیک کیوں نہیں ہے اور دنیا کے 139 ممالک کی عدلیہ یا رول آف لا میں ہمارا نمبر 130 کیوں ہے؟ تو ان ریٹائرڈ جج صاحب نے فرمایا کہ ہم اپنا کام بالکل ٹھیک کر رہے ہیں. عرض کیا کہ کیسے؟ فرمانے لگے کہ ہماری بڑی عدالتوں میں جتنے بھی بڑے مقدمات آتے ہیں. ان میں ہم ریاست کی مرضی کے فیصلے صادر کرتے ہیں۔کیونکہ سب سے پہلے ریاست ہے،ریاست ہے تو ہم ہیں اگر ہم ریاست کی قدر نہیں کرتے تو پھر ہماری عدالتوں کی قدر رہے گی نہ ہمارے فیصلوں پر عملدرآمد ہوگا. جہاں تک نچلی عدالتوں اور عوام کے عام مقدمات کی بات ہے،وہاں ہم امن و بھائی چارے کے لیے پوری تندہی سے کام کر رہے ہیں. میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کیونکہ میں تو روزانہ سینکڑوں عوام کو کچہریوں میں خوار ہوتے دیکھتا ہوں جو کئی برسوں بلکہ کئی دہائیوں سے انصاف کے لیے عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہوتے ہیں. جج صاحب نے فرمایا اسی سے تو معاشرے میں بھائی چارے کی بنیاد بنتی ہے، دیکھیں نا ہم کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ دونوں فریقین کو تاریخیں دے دے کر تھکا کر راضی نامے پر مجبور کر دیتے ہیں،اور جب زیادہ سے زیادہ مقدمات میں راضی نامے ہوتے ہیں تو پھر معاشرے میں بھائی چارے میں اضافہ ہی ہوتا ہے نا!!

ورلڈکپ فائنل ہارنے پر بھارتی کرکٹ فین دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا

میں نے عرض کیا کہ اعلی عدلیہ میں کئی سیاستدانوں کے مقدمات میں بے انصافیوں کا ارتکاب ہوتا رہا ہے،کبھی کسی کو بدعنوانیوں کی لمبی فہرست کے تحت لمبی سزا ہوتی ہے اور دوسرا صادق و امین ٹھہرتا ہے لیکن اس فیصلے کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی دونوں کا مقام بدل جاتا ہے،عرض کی کہ عدلیہ کا کام آئین کی تشریح اور حفاظت ہے. بولے ریاست آئین کے تابع نہیں آئین ریاست کے تابع ہوتا ہے اس لیے ہم سارے فیصلے ریاست کی سلامتی کے لیے کرتے ہیں،ریاست سلامت تو ہم سب سلامت ورنہ ہم سب جیلوں میں بھی ہو سکتے ہیں راقم کوشش کرے گا کہ دوسرے محکموں کے کرتا دھرتاوں سے بھی ملاقات کر سکے اور اگلے کالم میں ان کا حوال بھی بیان کیا جا سکے۔روزنامہ پاکستان پڑھتے رہیے گا۔

سکیورٹی فورسز کے کلاچی اور جنوبی وزیرستان میں آپریشنز،3دہشتگرد ہلاک، نوجوان شہید

QOSHE -     ہمارے ملک کے ادارے کس طرح کام کرتے ہیں؟؟ - مختار چودھری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    ہمارے ملک کے ادارے کس طرح کام کرتے ہیں؟؟

15 0
21.11.2023

راقم نے کئی بازاروں میں اکثر یہ اشتہار دیکھا ہے کہ ہمارے پاس انڈین باجرے کا بیج دستیاب ہے. ہمارے ملک میں جب پیاز کم پڑھ جاتے ہیں تو پھر ہم بھارت سے پیاز درآمد کرتے ہیں سنا ہے کہ کیلے بھی بھارت سے منگوائے جا رہے ہیں جنوبی پنجاب کے اندر ترکش ٹماٹر کا بیج بہت مقبول ہے مقبول سیاستدانوں کا ٹھکانہ تو جیل یا جلاوطنی میں ہوتا ہے لیکن غیر ملکی مقبول اشیاء کی بازاروں میں بہت مانگ ہے) ٹماٹر ایران سے بھی درآمد ہو رہے ہیں آج کل یہ خاکسار اپنے شہر کی نرسریوں کے باہر بورڈ پر لکھا پڑھتا ہے. کہ ہمارے پاس امریکن، کورین اور ڈھاکہ کی گھاس دستیاب ہے. ویسے تو اس ملک میں دواوئں سے لیکر میک اپ تک، کپڑوں سے لیکر برتنوں تک، الیکٹرانک اشیاء سے لیکر گاڑیوں تک سب کچھ بیرون ممالک سے ہی درآمد ہوتا ہے،لیکن جب ہم سوچتے ہیں کہ یہ ملک بہترین موسمیات کے ساتھ زرعی ملک ہے. ہمارے پاس محکمہ زراعت بھی ہے جس کا بجٹ بھی کروڑوں بلکہ اربوں میں ہے. ہمارے پاس ہاوسنگ سوسائیٹیوں سے بچی ہوئی زمین بھی ہے تو پھر ہم دہلی اور ڈھاکہ کے محتاج کیوں ہیں؟

انٹربینک میں ڈالر پھر مہنگا، سٹاک مارکیٹ میں تیزی ریکارڈ

راقم کا مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی چیز مشاہدے میں آتی ہے.یا کہیں کوئی خرابی نظر آتی ہے تو اس پر سوچنا شروع کر دیتا ہوں ممکن حد تک کھوج لگانے کی کوشش بھی کرتا ہوں. اسی حوالے سے میں نے محکمہ زراعت کے ایک ریٹائرڈ سنئیر آفیسر سے ایک نشت رکھی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ہمارا محکمہ زراعت........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play