تاریخ نگاری کیا ہے اور اِس کی کونسی جہتیں سب سے اہم ہیں؟ ڈاکٹر مبارک علی اور پروفیسر خرم قادر تو تاریخ سے وہی تحریری ریکارڈ مراد لیں گے جو امکانی حد تک مستند ذرائع سے ہم تک پہنچا ہو۔ کرکٹ ورلڈ کپ دیکھنے والوں کے لیے البتہ ایک تاریخ اُن واقعات کی بھی ہوتی ہے جو ہمارے سامنے رونما ہوئے یا جن کے اثرات کا تسلسل دیرپا نقوش چھوڑ گیا ۔ میرا تعلق آزاد پاکستان کی پہلی نسل سے ہے۔ چنانچہ چار پانچ سال عمر کی جو یادیں حافظے میں رہ گئیں اُن میں سماعت سے ٹکرانے والا ایک مخصوص جملہ بھی ہے۔ یہی کہ مسلمانوں نے پیسہ نہیں دیکھا تھا ، اب پاکستان بننے پر پیسہ دیکھا ہے تو دماغ خراب ہو گئے ہیں ۔ پاکستان بننا ، پیسہ دیکھنا ، دماغ خراب ہو جانا ، یہ کیا ہوتا ہے ؟ ورلڈ کپ کی طرح اُس وقت یہ انہونی باتیں ٹھیک ٹھیک میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں ۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

پیسہ تو شاید نو دولتیا پن کا اشارہ ہو مگر یہ لفظ سُن کر ذہن میں بس موری والے پیسے کا تصور ابھرتا ۔ تانبے کا قدرے سرخی مائل گول سکہ جس کے بیچ میں بڑا سا سوراخ ہوتا اور سائیڈ پر برطانوی کراﺅن کے نیچے 1935ءکا اُبھرا ہوا ہندسہ۔ تو کیا مسلمانوں نے یہ سکہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ؟ اچھا ، نہیں دیکھا ہو گا ۔ مگر دماغ خراب ہونا کسے کہتے ہیں ؟ ایک روز سُنا کہ ہمارے رشتہ کے پھوپھی زاد بھائی نعیم کا دماغ خراب ہو گیا ہے اور وہ ہاتھ میں چھری لے کر لوگوں کے پچھے بھا گتا ہے ۔ تو کیا سب کے اندر کا نعیم باہر نکل آیا تھا؟ زیادہ حیرت پاکستان بننے کا سُن کر ہوتی۔ پہلے خیال آتا کہ ارد گرد کی گلیاں اور مکان نئے بنے ہیں اگر نئے ہیں تو سیالکوٹ میں خواجہ صفدر کے گھر سے آگے نیم پختہ سڑک پر سارے گھر جلے ہوئے کیوں تھے؟

دیر بالا میں پی ٹی آئی ورکرز کنونشن، شیر افضل مروت کے خلاف مقدمہ درج

یہ تھی شہر کی صورتحال ۔ خود اپنی چار دیواری کے اندر دادی ، جنہیں سب بی جی کہتے ، اکلوتے بیٹے کی یو پی میں جائے ملازمت سے سیالکوٹ پہنچنے کی کہانی اکثر سُنایا کرتیں : ”جیوندا بچیا رہوے ، وڈِھیاں ہوئیاں گڈیا ں وچ آیا سی۔“ یہ کٹی ہوئی گاڑیاں بھی ہمارے فہم سے بالاتر تھیں۔ ساتھ ہی تحصیل ڈسکہ کے گاﺅں میں دادی اپنی واھد سہیلی ہرنام کور کا نام لیتیِں جو مسلم لیگ کو لکیر کے معنوں میںپنجابی کی لِیک سمجھا کرتی تھی کہ تمہارے بابے نے لِیک مار دی ہے کہ مسلمان اِس طرف رہیں گے اور ہندو سِکھ دوسری طرف۔ پھر جانے والی کے یہ الفاظ کہ فکر نہ کرنا ہم آئیں گے ۔۔۔ اور آخر میں حسرت بھرا لہجہ ”پر بَلو، کس نے آنا تھا؟“ کبھی کبھی بے بسی کے عالم میں جموں کی بات چھِڑ جاتی جہاں ”لڑکیوں نے کالک مل کر کنوﺅں میں چھلانگیں لگا دی تھیں۔“ مگر کیوں؟ یہ سمجھ میں نہ آتا۔

نریندر مودی کا طیارے میں بیٹھ کر بادلوں کو ’’سلام‘‘ ، سوشل میڈیا پر میمز کا طوفان آگیا

سمجھ اُس وقت آنے لگی جب میری دسویں سالگرہ سے چند ماہ قبل نیفا کے محاذ پر بھارت اور چین کے درمیان لڑائی ہوئی اور ڈھائی تین برس بعد رن کچھ میں پاکستان اور بھارت کی فوجیں آپس میں ٹکرا ئیں۔ ہم بچوں کو سید ضمیر جعفری کی منظوم للکار یاد ہے کہ ’چھ فُٹ کے نادروں سے نہ الجھو ، ادھار چند‘ ۔ اُس سے زیادہ بھارت کو ایک کالم نویس کا یہ طعنہ کہ ”چینی نیفے میں گھس گئے اور پاکستانی ’کچھ‘ میں“ ۔ ہم نے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی اِس دھمکی کو بھی مذاق سمجھا کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی مرضی کا محاذ کھولیں گے ۔ ہندوستان کو یہ خواہش پوری کرنے کا جواز اُس وقت ملا جب 1965 ءکے موسمِ گرما میں آپریشن جبرالٹر کے نام پر مقبوضہ جمو ں و کشمیر میں پاکستانی کارروائی شروع ہو گئی ۔

سابق وزیر نے ساتھیوں سمیت( ن) لیگ میں شمولیت اختیار کرلی

یہی وہ مرحلہ ہے جب ابا جان نے مجھے آزادی کے وقت باﺅنڈری کمیشن کے غیر منصفانہ فیصلوں کی اہمیت سمجھائی تھی ۔ ایک تو یہی کہ فیروز پور کا ضلع پانی کے ہیڈ ورکس اور آرڈننس ڈپو سمیت ہندوستان کو دے دیا گیا ۔ دوسرے ضلع گورداسپور کو تقسیم کرکے بھارت کو کٹھوعہ کے ذریعہ جموں تک پہنچنے کا مصنوعی راستہ فراہم کر دیا ۔ آپریشن جبرالٹر کے دوران جب ریڈیو صدائے کشمیر مجاہدین کی دل گرمانے والی خبریں نشر کرتا تو مَیں نے ابا سے پوچھتا کہ چھمب اور جوڑیاں میں پاکستانی پیش قدمی کے پیشِ نظر کیا بھارت ہم پہ حملہ نہیں کر دے گا ۔ جواب تھا کہ بیٹا، جموں و کشمیر متنازعہ علاقہ ہے ، لیکن بھارت کو بین الاقوامی سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں ۔ کہتے ہیں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے یہی بات صدر ایوب کے ذہن میں بھی ڈال رکھی تھی ۔

جنگ بندی کی خلاف ورزی: حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی مؤخر کردی

میرے والد جیسے معمولی سویلین اور سینڈھرسٹ سے فارغ التحصیل جرنیل کی سوچ میں فرق ہونا چاہیے تھا، اِس لیے بھی کہ سربراہ ِمملکت کو انٹلی جنس ایجنسیوں ، سفارتی حلقوں اور ہر ممکن دیگر وسیلے سے پل پل کی اطلاع ملتی رہتی ہوگی۔ میری معلومات کے مطابق ، آپریشن جبرالٹر شروع نہ کرنے کا مشورہ دینے والے واحد سیاستدان آزاد جمو ں و کشمیر کے اولین منتخب صدر اور قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری جناب کے ایچ خورشید تھے ۔ دلیل یہ تھی کہ مقبوضہ کشمیر کے اندر فی الوقت آزادی کی لہر نہ ہونے کے باعث مجوزہ چھاپہ مار کارروائی کو وہاں عوامی تائید و حمایت حاصل نہیں ہو گی ۔ اِس پر خورشید کو دلائی کیمپ میں ڈال دیا گیا ۔ اِسی طرح سقوطِ ڈھاکہ کے سانحہ پر ’جیون ایک کہانی ‘ کے عنوان سے ہمارے بی بی سی کے ساتھی اور نسلی، لسانی، قومیتی اور مذہبی تعصب سے عاری معروف اخبار نویس علی احمد خاں کی آپ بیتی اُن ایام کی ایک منفرد روداد ہے جب پتا نہیں چلتا تھا کہ ہم مشرقی پاکستان میں کِس کی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ لیکن نعرہ وہی تھا کہ:

تمام اسلامی ممالک غزہ کو بچانے کے لیے کردار ادا کریں، سراج الحق

اگر چہ ہارتے جائیں مگر للکارتے جائیں

ستر کی دہائی کے آخر میں افغانستان پہ روسی فوج کشی پر عام پاکستانیوں کا ابتدائی ردِ عمل غیر جانبداری کا تھا بلکہ وطنِ عزیز میں منتخبہ حکومت کے خاتمے کے پس منظر میں بہت سے پاکستانی نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کی انتظامیہ کو ہمدردی کی نظر سے دیکھ رہے تھے ۔ پھر یہ تھیوری مقبول ہونے لگی کہ افغانستان کا رولا ہمارے گرم پانیوں پر روسی قبضے کی خواہش کا نتیجہ ہے ۔ مَیں اُس انگریز صحافی کو مِل چکا ہوں جس کا دعوی تھا کہ روس مخالف ’افغان مزاحمتی افواج‘ کے لیے مجاہدین کی اصطلاح پہلی بار اُسی نے استعمال کی ۔ چونکہ ’علم دیاں گلاں علم دین ہی جانتا ہے ‘ اِس لیے مجھے کچھ پتا نہیں کہ اُس کے دل میں اُن شدت پسندوں کی شدید محبت نے اچانک کیوں گھر کر لیا تھا جن میں سے بعض کو تہس نہس کرنا بعد ازاں ہمارا جزوِ ایمان ٹھہرا۔

ذاتی حوالے سے سقوطِ ڈھاکہ کے فوری بعد کا وہ واقعہ نہیں بھولتا جب گورڈن کالج راولپنڈی میں ایک انڈر گریجوایٹ ہم مکتب پہلی بار موٹر سائیکل والا ’موت کا کنواں‘ دیکھنے ہمارے ساتھ چل پڑا تھا۔ ٹکٹ لیے اور لکڑی کی سیڑھی سے اونچے چبوترے پر جا کھڑے ہوئے۔ تماشا اپنے عروج پہ تھا تو کرتب دِکھانے والا موٹر سائیکل سوار پیچھے بیٹھی لیڈی سمیت اچانک توازن کھو کر کنویں کے پاتال میں جا گرا ۔ تماشائی ہکا بکا رہ گئے ۔ ہر طرف مکمل سناٹا ۔ صرف موٹر سائیکل کے انجن کی آواز تھی جسے بمشکل بند کیا گیا ۔ ساتھی نے معصومیت سے پوچھا ”یار شاہد، کیا حادثہ ہو گیا ہے یا یہ تماشے کا حصہ تھا؟“ پاکستان کے افق پر خطرات کے بادل دیکھ کر ڈر تا ہوں کہ حب الوطنی کے نام پر سرکس دکھانے والوں سے کِسی روز پوچھنا ہی نہ پڑ جائے کہ سر ، کیا حادثہ ہو گیا ہے یا یہ تماشے کا حصہ تھا؟

QOSHE - یہ حادثہ ہے یا تماشے کا حصہ؟  - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

یہ حادثہ ہے یا تماشے کا حصہ؟ 

11 4
26.11.2023

تاریخ نگاری کیا ہے اور اِس کی کونسی جہتیں سب سے اہم ہیں؟ ڈاکٹر مبارک علی اور پروفیسر خرم قادر تو تاریخ سے وہی تحریری ریکارڈ مراد لیں گے جو امکانی حد تک مستند ذرائع سے ہم تک پہنچا ہو۔ کرکٹ ورلڈ کپ دیکھنے والوں کے لیے البتہ ایک تاریخ اُن واقعات کی بھی ہوتی ہے جو ہمارے سامنے رونما ہوئے یا جن کے اثرات کا تسلسل دیرپا نقوش چھوڑ گیا ۔ میرا تعلق آزاد پاکستان کی پہلی نسل سے ہے۔ چنانچہ چار پانچ سال عمر کی جو یادیں حافظے میں رہ گئیں اُن میں سماعت سے ٹکرانے والا ایک مخصوص جملہ بھی ہے۔ یہی کہ مسلمانوں نے پیسہ نہیں دیکھا تھا ، اب پاکستان بننے پر پیسہ دیکھا ہے تو دماغ خراب ہو گئے ہیں ۔ پاکستان بننا ، پیسہ دیکھنا ، دماغ خراب ہو جانا ، یہ کیا ہوتا ہے ؟ ورلڈ کپ کی طرح اُس وقت یہ انہونی باتیں ٹھیک ٹھیک میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں ۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

پیسہ تو شاید نو دولتیا پن کا اشارہ ہو مگر یہ لفظ سُن کر ذہن میں بس موری والے پیسے کا تصور ابھرتا ۔ تانبے کا قدرے سرخی مائل گول سکہ جس کے بیچ میں بڑا سا سوراخ ہوتا اور سائیڈ پر برطانوی کراﺅن کے نیچے 1935ءکا اُبھرا ہوا ہندسہ۔ تو کیا مسلمانوں نے یہ سکہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ؟ اچھا ، نہیں دیکھا ہو گا ۔ مگر دماغ خراب ہونا کسے کہتے ہیں ؟ ایک روز سُنا کہ ہمارے رشتہ کے پھوپھی زاد بھائی نعیم کا دماغ خراب ہو گیا ہے اور وہ ہاتھ میں چھری لے کر لوگوں کے پچھے بھا گتا ہے ۔ تو کیا سب کے اندر کا نعیم باہر نکل آیا تھا؟ زیادہ حیرت پاکستان بننے کا سُن کر ہوتی۔ پہلے خیال آتا کہ ارد گرد کی گلیاں اور مکان نئے بنے ہیں اگر نئے ہیں تو سیالکوٹ میں خواجہ صفدر کے گھر سے آگے نیم پختہ سڑک پر سارے گھر جلے ہوئے کیوں تھے؟

دیر بالا میں پی ٹی آئی ورکرز کنونشن، شیر افضل مروت کے خلاف مقدمہ درج

یہ تھی شہر کی صورتحال ۔ خود........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play