کمی بیشی کی ترکیب کئی مواقع پر استعمال کی جاتی ہے۔بہت سے معاملات میں معمولی کمی بیشی کی نشان دہی بھی نہیں ہو سکتی۔ معمولی بے وفائی سے لے کر معمولی وفاداری کا تو کسی کھاتے میں ذکر تک نہیں۔ سو طے ہوا کہ کم زوری کے صرف اشتہار درج کیے جاتے ہیں۔خبر میں قتل و ڈاکہ زنی کی تصویریں سامنے آتی ہیں۔ اشیائے خوردونوش میں معمولی ملاوٹ کا تو ہمیں علم ہی نہیں ہوتا۔طبیعت اور مزاج میں اونچ نیچ پر غور کرنے کی مہلت ہی کسے ہے۔ سر درد معمولات زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔یوں کہیے کہ ہم خالص خلوص کے منکرین میں سے ہیں۔دیانت و امانت کے معاملات میں چھوٹ ہی ہر مسئلے کا حل دکھائی دیتی ہے۔ جھوٹ ہم نے زخموں پر مرہم لگانے کے لیے سینچا ہے۔انصافیوں کے لیے جھوٹ پتھر مارنے کے کام آتا ہے اور انصافی بوریاں بھر بھر کے گند اچھالے جاتے ہیں۔جھوٹی تسلی، جھوٹے دلاسے، جھوٹے اعدادو شمار، جھوٹی امید، جھوٹے وعدے اور جھوٹے الزامات کی بھر مار۔ہمارے ہاں تاریخ کی کتابوں سے مذہبی روایات تک ہر سچ گڈمڈ کر کے پرویا جاتا ہے اور اس کا جاپ کرنے والے مہان کہلاتے ہیں۔ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ تسبیح کے دانے بھی پہلو دار ہو سکتے ہیں اور ان پر پھونکے جانے والے وظیفے بھی محبوب کے جنتر منتر کی طرح پڑھے جا سکتے ہیں۔ پورا سچ نہ ہم نے کبھی سمجھنے کی کوشش کی اور نہ ہی اب ہمیں ہضم ہو سکتا ہے۔ اب تو ہمارا معدہ بھی اس کمی بیشی کا عادی ہو چکا ہے۔

محمد عامر اور عماد وسیم کو ٹیم ڈائریکٹر کا فون، دونوں نے پاکستان کیلئے کھیلنے سے انکار کردیا

معمولی تحریف سے اشعار چوری تو رواج بن چکی ہے۔کئی لوگ تو تحریف کے نام پر صرف اپنا نام درج کر کے تاریخی سند یعنی تحقیقی مقالہ جات میں بھی "بھاگی دار" بن چکے ہیں۔اس معاملہ میں شکایت سن کر ایک "استاد " نے آہ بھرتے ہوئے کہا، " نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حْسن میں رہیں شوخیاں "۔ زلف ایاز کے خم پر البتہ وہ بالکل خاموش رہے اور آج تک خاموش ہیں۔تحقیق سے پتہ چلا کہ ان کو محرم ہی مجرم ملے۔اب وہ صرف "نکات " کی ادلا بدلی پر بات کرتے ہیں۔ حساب میں کمی بیشی البتہ بہت سنگین مسئلہ ہے۔ زیادہ تر طلبہ میتھس کو اس لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ حسابی فارمولوں سے نابلد ہوتے ہیں۔رہ گئے عام لوگ تو ان بے چاروں پر قیامت بھی گزر جائے تو بھی سمجھ نہیں پاتے کہ وزن کا باٹ کس طرف جھکا یا مقناطیس اور پتھر لگا کر جھکایا گیا ہے۔ اب تو ڈیجیٹل کری ایٹوز نے آلو کو بھی مچھلی بنا کر بیچنے کا فن سکھا دیا ہے۔وہ اور ہی لوگ تھے جو دغا کو دعا پڑھنے پر شرمندہ رہے اور یہ خبر اگلوں تک نشر بھی کر گئے۔ہماری قوم کو ان چھوٹی موٹی "نکتہ دانیوں " سے بھلا کیا سروکار۔ ہم تو کہوے ہیں۔

جنوبی افریقا میں پلاٹینم کی کان میں حادثہ، 11 مزدور ہلاک اور 75 زخمی

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو

جو مے و نغمہ کو اندوہ رْبا کہتے ہیں

شاعر بھی تو کسی حد تک ڈیجیٹل تخلیق کار ہی ہوتا ہے اور اپنے قاری کے دل بہلانے یا دل جلانے کا وافر سامان مہیا کرنے میں مشغول ہے۔تبھی تو کہتے ہیں کہ "میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا "دلی اور لکھنو والوں کے بیچ یہ فرق ہی تو انھیں ممتاز رکھتا ہے۔

ادب میں کمی بیشی کا معاملہ صنعت میں ڈھل جاتا ہے۔صنعت لف و نشر میں ہر کمی بیشی ڈھک جاتی ہے۔ جہاں سے معاملہ شروع ہوتا ہے، ختم بھی وہیں پہ ہوتا ہے۔ یہ صنعت مرتب رہے تو خوب ہے۔غیر مرتب پہ وہ لطیفہ یاد آ گیا کہ بھائی چارپائی نہیں دینا تو مت دو مگر اپنے سونے کی ترتیب تو ٹھیک رکھو۔ شاعر کی تعلی اور مبالغہ کئی بار درد حد سے گزرنے پر دوا بن جاتا ہے۔ گذشتہ حکومت میں تو صنعت کاری اور دیگر معاملات بھی صنعت مبالغہ، اور صنعت لف و نشر تک ہی محدود رہے۔ شعر میں آزادی رائے کی بھی بہت اہمیت ہے۔داغ کے شعر

احسن اقبال نے ن لیگ کی انتخابی مہم شروع نہ ہونے کی وجہ بتادی

رخ روشن کے آگے شمع رکھ کے وہ یہ کہتے ہیں

ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

کی تشریح میں کوئی پروانہ بدلنے کی کوشش نہیں کرتا البتہ کمی بیشی کا جواز دے کر رخ روشن کی لمبی قطار باندھے رکھتا ہے۔شاعر پھول کے کھلنے کو بلبل کی نغمہ سنجی سمجھے یا پھول کی خوشی۔ اشکوں کو دریا سمجھے یا سمندر۔

پریشانی اسے اسی بات کی ہے کہ جسے تراش کر ہیرا بنایا ہے وہ خدا بن بیٹھا ہے۔قطع و برید کہیے یا کمی بیشی یا پھر تراش خراش کا عمل۔ہر سطح زندگی کی روح ہے۔پرانی چیزیں پھینکتے ہیں تو ہی نئی کی جگہ بنتی ہے۔ پرانے برتن یا فرنیچرکو پالش کی ضرورت ہوتی ہے۔باغ میں پودوں کی تراش خراش سے ہی باغ کی خوب صورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ حدود و ضوابط کی پاسداری کے لیے بے شمار اقدامات کیے جاتے ہیں۔حادثات کی روک تھام کے لیے کبھی سڑکوں پر جنگلے لگائے جاتے ہیں۔جن پر دھمکی بھی درج ہوتی ہے کہ جنگلہ پھلانگنے والے کو حوالہ پولیس کیا جائے گا۔حالانکہ ان بلند و بالا جنگلوں کو پھلانگنے پر تو ٹرافی ملنا چاہیے۔یہ کہیں درج نہیں کہ ان جنگلوں کو کاٹنے اور ان کی سلاخیں توڑنے اور حقائق میں کمی بیشی پر جزا و سزا کا کیا معیار طے کیا جائے گا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -       بے نیازی حد سے گزری  - ڈاکٹر سعدیہ بشیر
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      بے نیازی حد سے گزری 

10 1
29.11.2023

کمی بیشی کی ترکیب کئی مواقع پر استعمال کی جاتی ہے۔بہت سے معاملات میں معمولی کمی بیشی کی نشان دہی بھی نہیں ہو سکتی۔ معمولی بے وفائی سے لے کر معمولی وفاداری کا تو کسی کھاتے میں ذکر تک نہیں۔ سو طے ہوا کہ کم زوری کے صرف اشتہار درج کیے جاتے ہیں۔خبر میں قتل و ڈاکہ زنی کی تصویریں سامنے آتی ہیں۔ اشیائے خوردونوش میں معمولی ملاوٹ کا تو ہمیں علم ہی نہیں ہوتا۔طبیعت اور مزاج میں اونچ نیچ پر غور کرنے کی مہلت ہی کسے ہے۔ سر درد معمولات زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔یوں کہیے کہ ہم خالص خلوص کے منکرین میں سے ہیں۔دیانت و امانت کے معاملات میں چھوٹ ہی ہر مسئلے کا حل دکھائی دیتی ہے۔ جھوٹ ہم نے زخموں پر مرہم لگانے کے لیے سینچا ہے۔انصافیوں کے لیے جھوٹ پتھر مارنے کے کام آتا ہے اور انصافی بوریاں بھر بھر کے گند اچھالے جاتے ہیں۔جھوٹی تسلی، جھوٹے دلاسے، جھوٹے اعدادو شمار، جھوٹی امید، جھوٹے وعدے اور جھوٹے الزامات کی بھر مار۔ہمارے ہاں تاریخ کی کتابوں سے مذہبی روایات تک ہر سچ گڈمڈ کر کے پرویا جاتا ہے اور اس کا جاپ کرنے والے مہان کہلاتے ہیں۔ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ تسبیح کے دانے بھی پہلو دار ہو سکتے ہیں اور ان پر پھونکے جانے والے وظیفے بھی محبوب کے جنتر منتر کی طرح پڑھے جا سکتے ہیں۔ پورا سچ نہ ہم نے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play