صبح خبروں سے مستفید ہونے اور بس سے دفتر آتے ہوئے ذہن میں آج کے کالم کا خاکہ تو بن چکا تھا تاہم جب یہاں آکر خبریں دیکھیں تو حالات میں ایک اور پہلو بھی سامنے آ گیا، اس سے پہلے بعض حضرات نے فون کرکے مولانا فضل الرحمن کے صدارتی امیدوار ہونے کے بارے میں پوچھا اور رائے دی جبکہ سیر صبح کی محفل میں عمران خان زیر بحث تھے اور ان کو پسند کرنے والوں کو آڈیو لیک پر غصہ تھا اور وہ فرما رہے تھے یہ کوئی بات ہے کہ آپ وسائل استعمال کرکے توہین کریں، ابھی یہ سب ذہن میں تھا کہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج اور ان پر تبصروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور معمول ہی کے مطابق یہ انتخابات بلا مقابلہ ہو گئے اور ان کا نتیجہ یہ ہوا کہ عمران کے چاہنے والوں ہی کو عہدیدار بنایا گیا، البتہ اکبر ایس بابر ایک بار پھر بھڑک اٹھے اور انہوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا ہے کہ وہ خود چل کرمرکزی دفتر گئے اور ان کو امیدوار بننے نہ دیا گیا۔

روبوٹ ویٹریس کی صلاحیت سے دیکھنے والےحیران

اسی طرح مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے دو ایک حضرات نے استفساریہ اور طنزیہ سوال پوچھے کہ اگر مولانا فضل الرحمن امیدوار ہوئے تو پھر آصف علی زرداری کیا کریں گے کہ وہ بلاول کو وزیراعظم بنانے کا پرچار کررہے ہیں جبکہ حالات موافق نہیں، اس لئے وہ صدارت کے لئے تو سودے بازی کر ہی سکتے ہیں کہ اب تو بلاول نے بھی نعرہ لگا دیا، ”ایک بار پھر زرداری “ ان حضرات سے الگ الگ مختصراً بات ہوئی تاہم سیر صبح والے حضرات کے شکوہ کے جواب میں مجھے عرض کرنا پڑا کہ روائت تو پرانی ہے جس کے مطابق ہیلی کاپٹرسے بھی نازیبا تصاویر پھینکی گئیں لیکن جو حشر عمران خان کے سوشل میڈیا والوں نے کیا اس پر توبہ ہی کی اور کہی جا سکتی بلکہ خود عمران خان بھی چھیڑ پھاڑ کر بولتے تھے، یہ امر اور طریقہ اگرچہ انتہائی برُا اور غیر اخلاقی ہے ہم نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی لیکن خان صاحب کو خود سوچنا چاہئے تھا کہ کبھی کے دن اور کبھی کی رات بڑی ہوتی ہے۔

مریم نواز سےاختلاف ہے نہ ناراضی، ن لیگ کی سوچ سے اتفاق نہیں کرتا،شاہد خاقان عباسی

اسی الجھن میں دیر ہو گئی اور اب یہ کالم معمول سے کافی وقت گزر جانے کے بعد لکھ رہا ہوں تاہم اصل مسئلہ ذہن میں وہی ہے جو گزشتہ شب اور آج صبح بس کے سفر میں ذہن کو الجھا گیا تھا، آج ان سیاسی مسائل سے ہٹ کر مجبوراً ایک بڑی عوامی تکلیف کے بارے میں لکھ رہا ہوں، یہ بات کئی روز سے تجربہ میں تھی لیکن تکلیف گزشتہ روز گھرکی واپسی کے وقت ہوئی۔ معمول یہ ہے کہ جب مجھے سواری نہ ملے تو میں بس سے سفر کرتا ہوں اور فیڈر روٹس کی سپیڈو بسیں اس لئے بہتر ہیں کہ آرام دہ اور ایئرکنڈیشنڈ ہیں، ان میں بیٹھنے کے لئے سیٹ نہ بھی ملے تو کھڑے ہو کر گزارہ ہو جاتا ہے، کچھ عرصہ پہلے تو یہ سفر بہت آسان تھا کہ ان بسوں میں زیادہ بھیڑ نہیں ہوتی تھی لیکن پھر ایسا ہوا کہ پٹرولیم مصنوعات کی مہنگائی نے مسافروں کی توجہ ادھر دلا دی۔ میٹرو اور سپیڈو کے علاوہ گرین لائن ٹرین کا سفر نچلے متوسط طبقے اور عام مزدور کے لئے بھی بہتر رہتا ہے کہ بیس روپے میں ہوجاتا ہے، اب ہوا یہ کہ بہتر اور سستی سواری نے چھوٹی کاروں اور سکوٹروالوں کی توجہ کھینچ لی اور یکایک شہریوں نے فیڈر روٹ کی سپیڈو بسوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ کر لیا، اس کی وجہ سے مسافروں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔ اب حالات یہ ہیں کہ میٹرو بس ڈبل ہے اور ہر پانچ منٹ کے بعد چلتی ہے یوں یہ بسیں آگے پیچھے ہی ہوتی ہیں، اس کے باوجود ان میں بھیڑ ہو جاتی ہے اب تو حالات یہ ہیں کہ دفتر کے باہر والے سٹاپ سے گھر والے روٹ کی بس پر سوار ہونے کے لئے سپیڈو کا انتظار کرنا پڑا ہے۔ بس تو سات آٹھ منٹ کے وقفہ سے چلتی اور ملتی ہے لیکن حالات کی نوعیت یہ ہے کہ جگہ نہیں ملتی بس اوورپیک ہوتی ہے اور ایک کے بعد دوسری بس کی تبدیلی کے لئے کم از کم تین بسوں کا انتظار کرنا پڑتاہے، اس کے بعد دوسری بس انتظار کے بعد ملتی ہے تو اس میں بھی مسافر ٹھسے ملتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ سستی اور بہتر سواری کے باعث گرین لائن ٹرین ، میٹروبس اور سپیڈو میں مسافروں کی دلچسپی بہت بڑھ گئی اور اب اچھے بھلے لوگ سفر کرنے لگے ہیں۔

دہشتگردی کے مقدمے میں نامزد پی ٹی آئی رہنما گرفتار، نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا

اب مسئلہ یہ ہے کہ بسیں کم اور مسافر بہت زیادہ والی بات ہو گئی ہے وزیراعلیٰ (نگران) بڑے مطمئن اور خوش ہیں کہ ان کی محنت شاقہ رنگ لائی اور لاہور میں جنوبی علاقوں اور شمالی لاہور کے سفری مسائل میں فرق پڑا ہے کہ متعدد فلائی اوورز کی تعمیر سے اب ٹریفک رواں دواں ہے۔ اکبر چوک فلائی اوور کا تو افتتاح بھی کر دیا گیا اور شاہدرہ امامیہ کالونی فلائی اوور بھی مکمل ہ وچکا اب اس کا افتتاح باقی ہے جو نگران وزیراعلیٰ ہی کریں گے، میں ذاتی طور پر فلائی اوورز کے حق میں نہیں اور انٹرچینج کا حامی ہوں کہ فلائی اوورز کی وجہ سے لاہور اب باغات کا نہیں پلوں کا شہر ہے تاہم وزیراعلیٰ محسن نقوی کی تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے محنت سے کام رعائتی اور جلدی کرایا ہے اور وہ محسن سپیڈ ٹائٹل کے حق دار بھی ہیں۔

کراچی سے منشیات سعودی عرب منتقل کرنے کی کوشش ناکام، چالاک ملزم گرفتار

ان کی خدمت یہ عرض کرنا ہے کہ بسیں پرانی ہو چکی ہیں اور لاہور کے لئے بہت کم ہیں کہ اس سے پہلے یہاں پنجاب ٹرانسپورٹ سروس کے تحت مبینہ طور پر بارہ سو بسوں کا فلیٹ تیار ہوا ان میں سے تقریباً دو سو بسیں روڈ پر تھیں اور عوام سہولت محسوس کرتے تھے، اس کے علاوہ تعداد پوری کرنے کا بھی وعدہ تھا لیکن اضافہ کیا ہوتا، پہلے والی بسیں بھی بیٹھ گئی تھیں اور اب سپیڈو 9،8سال پرانی بسیں چل رہی ہیں جن کی تعداد کم ہے۔ یہ بھی نیکی کا کام ہے اگر بسیں بڑھا کر لوگوں کو سہولت مل جائے گا، وزیراعلیٰ کو ادھر بھی توجہ دینا ہوگی عوامی سہولت کے لئے فوری طور پر کم از کم تین سے پانچ سو بسوں کی فوری ضرورت ہے جو پوری کرنا چاہئیں۔اس کے علاوہ یہ گزارش بے جا نہ ہوگی کہ لاہور ٹرانسپورٹ کا کیا بنا، بسیں کدھر گئیں، یہ سب کیوں اور کیسے ہوا، کتنا نقصان ہوا اور کس نے کیا، اس کی تحقیق تو ہونا چاہیے۔

پی آئی اے کا ایک اور فضائی میزبان کینیڈا میں لاپتہ

QOSHE -  سیاست اور عوامی مشکلات، ساتھ ساتھ.... بسیں بڑھاﺅ! - چوہدری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 سیاست اور عوامی مشکلات، ساتھ ساتھ.... بسیں بڑھاﺅ!

12 19
03.12.2023

صبح خبروں سے مستفید ہونے اور بس سے دفتر آتے ہوئے ذہن میں آج کے کالم کا خاکہ تو بن چکا تھا تاہم جب یہاں آکر خبریں دیکھیں تو حالات میں ایک اور پہلو بھی سامنے آ گیا، اس سے پہلے بعض حضرات نے فون کرکے مولانا فضل الرحمن کے صدارتی امیدوار ہونے کے بارے میں پوچھا اور رائے دی جبکہ سیر صبح کی محفل میں عمران خان زیر بحث تھے اور ان کو پسند کرنے والوں کو آڈیو لیک پر غصہ تھا اور وہ فرما رہے تھے یہ کوئی بات ہے کہ آپ وسائل استعمال کرکے توہین کریں، ابھی یہ سب ذہن میں تھا کہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج اور ان پر تبصروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور معمول ہی کے مطابق یہ انتخابات بلا مقابلہ ہو گئے اور ان کا نتیجہ یہ ہوا کہ عمران کے چاہنے والوں ہی کو عہدیدار بنایا گیا، البتہ اکبر ایس بابر ایک بار پھر بھڑک اٹھے اور انہوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا ہے کہ وہ خود چل کرمرکزی دفتر گئے اور ان کو امیدوار بننے نہ دیا گیا۔

روبوٹ ویٹریس کی صلاحیت سے دیکھنے والےحیران

اسی طرح مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے دو ایک حضرات نے استفساریہ اور طنزیہ سوال پوچھے کہ اگر مولانا فضل الرحمن امیدوار ہوئے تو پھر آصف علی زرداری کیا کریں گے کہ وہ بلاول کو وزیراعظم بنانے کا پرچار کررہے ہیں جبکہ حالات موافق نہیں، اس لئے وہ صدارت کے لئے تو سودے بازی کر ہی سکتے ہیں کہ اب تو بلاول نے بھی نعرہ لگا دیا، ”ایک بار پھر زرداری “ ان حضرات سے الگ الگ مختصراً بات ہوئی تاہم سیر صبح والے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play