سیاست اور عوامی مشکلات، ساتھ ساتھ.... بسیں بڑھاﺅ!
صبح خبروں سے مستفید ہونے اور بس سے دفتر آتے ہوئے ذہن میں آج کے کالم کا خاکہ تو بن چکا تھا تاہم جب یہاں آکر خبریں دیکھیں تو حالات میں ایک اور پہلو بھی سامنے آ گیا، اس سے پہلے بعض حضرات نے فون کرکے مولانا فضل الرحمن کے صدارتی امیدوار ہونے کے بارے میں پوچھا اور رائے دی جبکہ سیر صبح کی محفل میں عمران خان زیر بحث تھے اور ان کو پسند کرنے والوں کو آڈیو لیک پر غصہ تھا اور وہ فرما رہے تھے یہ کوئی بات ہے کہ آپ وسائل استعمال کرکے توہین کریں، ابھی یہ سب ذہن میں تھا کہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج اور ان پر تبصروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور معمول ہی کے مطابق یہ انتخابات بلا مقابلہ ہو گئے اور ان کا نتیجہ یہ ہوا کہ عمران کے چاہنے والوں ہی کو عہدیدار بنایا گیا، البتہ اکبر ایس بابر ایک بار پھر بھڑک اٹھے اور انہوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا ہے کہ وہ خود چل کرمرکزی دفتر گئے اور ان کو امیدوار بننے نہ دیا گیا۔
روبوٹ ویٹریس کی صلاحیت سے دیکھنے والےحیراناسی طرح مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے دو ایک حضرات نے استفساریہ اور طنزیہ سوال پوچھے کہ اگر مولانا فضل الرحمن امیدوار ہوئے تو پھر آصف علی زرداری کیا کریں گے کہ وہ بلاول کو وزیراعظم بنانے کا پرچار کررہے ہیں جبکہ حالات موافق نہیں، اس لئے وہ صدارت کے لئے تو سودے بازی کر ہی سکتے ہیں کہ اب تو بلاول نے بھی نعرہ لگا دیا، ”ایک بار پھر زرداری “ ان حضرات سے الگ الگ مختصراً بات ہوئی تاہم سیر صبح والے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website