مرزا غالب نے کہا تھا کہ ’رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دےکھئے تھمے‘ مگر چھ سال ہوئے جب سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ سنتے ہی ہمارے دوست اور دانشور حماد غزنوی نے ’رخشِ عمر‘ کو ’رخشِ عدل‘ سے تبدیل کر دیا ۔ تھی تو یہ تخلیقی حرکت ، لیکن آج کل خواہش کے باوجود ترمیم شدہ مصرع دُہراتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ اِس لیے کہ کیا پتا شعر و ادب کی کوئی خصوصی عدالت پچھلی تاریخ ڈال کر اِس شعری تحریف کو قابلِ دست اندازیءپولیس سمجھ لے اور یوں حماد غزنوی اور شاہد ملک دونوں دھر لیے جائیں۔ پہلے آدمی پر الزام ہوگا کہ شعر کی ’بھن تروڑ‘ کرکے اُسے اپنی مرضی کے معانی پہنائے۔ دوسرا یوں پکڑا جائے گا کہ کسی کے خلاف توہین آمیز بیان دُہرانے والا بھی توہین کا مرتکب ہوتا ہے ، جیسے اخبار سے وابستہ ازالہءحیثیت عرفی کے کیس میں رپورٹر ہی نہیں بلکہ ایڈیٹر ، پرنٹر ، پبلشر کو بھی پارٹی بنا لیتے ہیں ۔

روبوٹ ویٹریس کی صلاحیت سے دیکھنے والےحیران

یوں پھنستے تو ہم دونوں ہیں۔پھر بھی مقدمہ چلاتے ہوئے عدالت کو ایک فنی پیچیدگی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہی مصرع میں رد و بدل کرنے سے کیا مرزا غالب کی دل آزاری ہوئی یا اُن کے گھوڑے کی ۔ سوال کے یہ مضمرات یوں اہم ہیں کہ اکثر لا افسران کے نزدیک کسی ایسے شخص کی براہِ راست توہین ممکن ہی نہیں جو دنیا سے جا چکا ہو ۔ گھوڑے کی بات اور ہے کہ وہ اسلامی روایات کی علامت بھی ہے اور ایک زندہ سلامت عسکری جانور بھی ۔ پطرس بخاری نے بناسپتی گھوڑے کے مقابلہ میں اصلی گھوڑے کی پہچان یہ بتائی تھی کہ دکان پر اسی کا گوشت بکتا ہے اور زین کس کر کھایا جاتا ہے ۔ پطرس بخاری کے مضمون کا عنوان تھا ’لاہور کا جغرافیہ‘ ۔ چونکہ تاریخ اور جغرافیہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، لہذا نئے زمانے کا لکھاری کہہ سکتا ’لاہور کا جغرافیہ اور راولپنڈی کی تاریخ‘ ۔

مریم نواز سےاختلاف ہے نہ ناراضی، ن لیگ کی سوچ سے اتفاق نہیں کرتا،شاہد خاقان عباسی

پچھلی صدی میں قانون کے طالب علم کا دھیان جوشیلی عدالتی گفتگو ئیں سُن کر احمد ندیم قاسمی کے اِس قول کی طرف چلا جاتا تھا کہ شاعری رائے کا اظہار نہیں ، جذبے کا اظہار ہے۔ ہماری ایوننگ کلاس کے ایک دبنگ استاد ، جو پی ایل ڈی کے نام سے عدالتی فیصلوں کی سیریز کے جوائنٹ ایڈیٹر بھی رہے، قانون کے معاملے میں بھی سرتاپا جذبے کا اظہار تھے۔ آئینی تاریخ کے پیریڈ میں چودھری محمد علی اور ملک غلام محمد کو بابو محمد علی اور بابو غلام محمد کہا کرتے ۔ کابینہ کی رکنیت کے لیے بھی کچھ خیالی کردار تراش رکھے تھے ، جیسے مسٹر ایڈورڈ گھسیٹا ، مسٹر نتھو سنگھ سپاٹا۔ایک دن فرمایا:”یہ لوگ خود کو پاکستان کے انکل سمجھتے تھے۔۔۔مامائے ملت “ یہ کہا اور اپنی بلند و بالا میز کرسی سے کسی چیز کے ساتھ لِپٹ جانے کا اشارہ دے کر کہنے لگے ”اقتدار کے ساتھ چمٹ جاتے تھے “ ۔ ساتھ ہی بلند آواز میں بہن کی گالی ۔

دہشتگردی کے مقدمے میں نامزد پی ٹی آئی رہنما گرفتار، نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا

ابھی میرے دو ایک ہم جماعت اِس بات کے عینی شاہد ہیں کہ استادِ محترم نے وقفے وقفے سے جسٹس منیر کو بُرا بھلا کہتے ہوئے جوڈیشل مائنڈ سیٹ کا تصور ہمارے ذہنوں میں بھی بٹھا دیا تھا۔ اِس سے مراد ہر خوف ،لالچ اور دباﺅ سے بے نیاز ہو کر شہادتوں کی روشنی میں قانون کی منصفانہ توضیح کے سوا اور کچھ نہیں۔اِسی لیے ایک صبح جب مَیں ہائی کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار اور اپنے سینئر ہم جماعت جعفر علی زیدی کے دفتر پہنچا تو عام طور پر ازحد خوش مزاج زیدی صاحب ہتھیلی ماتھے پہ ٹِکا کر یوں بیٹھے تھے جیسے صدمے سے دوچار ہوں ۔ میرے سوال پر انہوں نے ہمارے ایک اور استاد کا نام لیا جو اُسی روز جج مقرر ہوئے تھے اور بعد میں چیف جسٹس آف پاکستان بھی بنے ۔ جسے انگریزی میں کہتے ہیں ”نائس مَین ٹو ٹاک ٹو“ لیکن زیدی صاحب نے پہلے ہی دن کہا تھا:” ذرا سوچو، یہ شخص کیانی اور شبیر کی کُرسی پر بیٹھے گا۔“

کراچی سے منشیات سعودی عرب منتقل کرنے کی کوشش ناکام، چالاک ملزم گرفتار

یہی وہ زمانہ ہے جب آگے چل کر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے الزام میں اعانتِ جرم کا مقدمہ چلا۔ ہائی کورٹ میں بطور ٹرائل عدالتی کارروائی ، قبل ازیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی کچی پکی آئینی ترمیم کے ذریعے ریٹائرمنٹ، پھر دو ججوں کی سبکدوشی اور چار تین کے متنازعہ اکثریتی فیصلہ پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے ۔ میری سادگی کہ دیگر ملحوظات سے قطعِ نظر جوڈیشل مائنڈ سیٹ صفائی کے بڑے وکیل یحییٰ بختیار مرحوم کے دلائل کو تحسین کی نظر سے دیکھتا رہا ۔ پہلی دلیل یہ کہ ہائی کورٹ کا ٹرائل بینچ بھٹو کے خلاف تعصب کا شکار تھا ، جس کا اظہار کھُلی عدالت میں ہوا ۔ دوسرے استغاثہ کے بڑے گواہ کا یہ موقف کہ سازشِ جرم میں اُن کی شمولیت خلافِ منشا اور مجبوری کے تحت تھی ۔ تیسری تھی یہ دلیل کہ سازش کا ہونا پہلے ثابت کیا جائے ، تب مذکورہ گواہ کی شہادت پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔

پی آئی اے کا ایک اور فضائی میزبان کینیڈا میں لاپتہ

میرے قریبی دوستوں میں ، دو کو چھوڑ کر، اُس وقت کوئی جیالا تھا نہ اب کوئی یوتھیا ہے ۔ پر بے بسی کہتے کسے ہیں؟ یہ کوئی ہم سے پوچھے ۔ مارچ 1978ءمیں عدالتی فیصلہ سُن کر کسی نے کھانا نہ کھایا ۔ پاک ٹی ہاﺅس میں آ کر بیٹھے تو وہی حال کہ ’دل ٹھہرے تو درد سنائیں ، درد تھمے تو بات کریں ‘ ۔ اِس مرحلے پر ہمارے محبوب خدمتگار الہی بخش نے ممتا بھرے لہجہ میں کہا تھا ”تھوڑے سے چاول ہی کھا لو_©_© “ ۔ پھر نفی میں سر کی جنبش دیکھ کر اپنے کانگڑہ والے لہجہ میں کہنے لگے ”صاحب جی ، ساڈے نال تے اوہئی ہویا ، رب نیڑے کہ گھسُن نیڑے؟“ بھٹو کی پھانسی کے ستائیسویں دن اِسی ٹی ہاﺅس میں منفرد گلوکارہ اقبال بانو نے پہلی بار فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ سنائی تھی۔پروفیسر امین مغل نے تقریر کی جو پاکستان میں آخری تھی ۔ حبیب جالب نے تازہ کلام سے نوازا ۔ تالیوں والی ’ہم دیکھیں گے‘ بعد کی بات ہے۔

دانیال عزیز کی مسلسل تنقید،احسن اقبال بالآخر بول پڑے

تو جوڈیشل مائنڈ سیٹ والے جوان نے قوم کی کیا خدمت کی تھی؟ سچ کہوں تو غائبانہ نمازِ جنازہ پر نیم دیوانگی کے عالم میں ایک بڑا سا نو کیلا پتھر پوری طاقت سے بلوہ پولیس پر پھینکنے کے سوا گورنمنٹ کالج کے اِس لیکچرر کا کوئی رول نہیں تھا ۔ البتہ جس طرح اردو میں اصولِ تنقید کی اولین کتاب ’مقدمہ‘ شعرو شاعری‘ میں مولانا الطاف حسین حالی نے لکھا ہے کہ دورِ جاہلیت میں شاعری ترقی کرتی ہے ، ویسے ہی اُس پر منکشف ہوا کہ عہدِ جبر میں تصوف ترقی کرتا ہے ۔ سقوطِ مشرقی پاکستان چلے جانے پر کئی مغربی پاکستانیوں نے اندھا دھند نمازیں شروع کر دی تھیں۔جوڈیشل مائنڈ سیٹ والا بھی یہ سوچ کر باطن کی پناہ گاہوں میں مورچہ بند ہو گیا کہ قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری اور دیانتدار سیاستدان کے ایچ خورشید کے انگریزی الفاظ میں ، جب ملک میں قانون ہی نہیں تو پریکٹس کرنے میں ’پوائنٹ‘ کیا ہے؟

آج آئین کی تشریحات، قانون کی حاکمیت ، مملکتی اداروں کے کردار اور معاشی پالیسیوں پر جو ’گھڑمس‘ مچا ہوا ہے اور عوام جس گروہ بندی کا شکار ہیں اُس میں عام شہری تو ’ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں‘۔ ایلیٹ کو چھوڑیں ، پیشہ ور متوسط طبقے کا انسان محکمانہ سوچ سے اور کاروباری آدمی فوری منافع کی حدوں سے باہر نہیں نکل پایا ۔ افسر کہتا ہے ”ملک کا بیڑا غرق سیاستدانوں نے کیا “ ۔ سیاسی کارکن کے نزدیک ”اصل مسئلہ ہی فوجی مداخلت ہے“ ۔ کالج یونیورسٹی کے استاد سمجھتے ہیں کہ ”خرابی تو کرپٹ بیورو کریسی نے پیدا کی“ ۔ بیوریوکریٹ کہے گا ”مذہبی تنظیموں کو سنبھالیں ، یہ کنٹرول سے باہر ہو چکی ہیں“ ۔ بات عدالت کے گھوڑے سے شروع ہوئی تھی ۔ مجھے تو یہ ’ہرڈل ریس‘ الجھا ہوا دھاگہ پکڑنے کی نیک دلانہ مگر اضطراری کوشش لگتی ہے ۔ کہیِں یہ نہ ہو کہ گھڑ سوار خود تو اِدھر رہے اور گھوڑا پار نکل جائے ۔

QOSHE -    کہیںگھوڑا پار نہ نکل جائے - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

   کہیںگھوڑا پار نہ نکل جائے

11 1
03.12.2023

مرزا غالب نے کہا تھا کہ ’رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دےکھئے تھمے‘ مگر چھ سال ہوئے جب سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ سنتے ہی ہمارے دوست اور دانشور حماد غزنوی نے ’رخشِ عمر‘ کو ’رخشِ عدل‘ سے تبدیل کر دیا ۔ تھی تو یہ تخلیقی حرکت ، لیکن آج کل خواہش کے باوجود ترمیم شدہ مصرع دُہراتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ اِس لیے کہ کیا پتا شعر و ادب کی کوئی خصوصی عدالت پچھلی تاریخ ڈال کر اِس شعری تحریف کو قابلِ دست اندازیءپولیس سمجھ لے اور یوں حماد غزنوی اور شاہد ملک دونوں دھر لیے جائیں۔ پہلے آدمی پر الزام ہوگا کہ شعر کی ’بھن تروڑ‘ کرکے اُسے اپنی مرضی کے معانی پہنائے۔ دوسرا یوں پکڑا جائے گا کہ کسی کے خلاف توہین آمیز بیان دُہرانے والا بھی توہین کا مرتکب ہوتا ہے ، جیسے اخبار سے وابستہ ازالہءحیثیت عرفی کے کیس میں رپورٹر ہی نہیں بلکہ ایڈیٹر ، پرنٹر ، پبلشر کو بھی پارٹی بنا لیتے ہیں ۔

روبوٹ ویٹریس کی صلاحیت سے دیکھنے والےحیران

یوں پھنستے تو ہم دونوں ہیں۔پھر بھی مقدمہ چلاتے ہوئے عدالت کو ایک فنی پیچیدگی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہی مصرع میں رد و بدل کرنے سے کیا مرزا غالب کی دل آزاری ہوئی یا اُن کے گھوڑے کی ۔ سوال کے یہ مضمرات یوں اہم ہیں کہ اکثر لا افسران کے نزدیک کسی ایسے شخص کی براہِ راست توہین ممکن ہی نہیں جو دنیا سے جا چکا ہو ۔ گھوڑے کی بات اور ہے کہ وہ اسلامی روایات کی علامت بھی ہے اور ایک زندہ سلامت عسکری جانور بھی ۔ پطرس بخاری نے بناسپتی گھوڑے کے مقابلہ میں اصلی گھوڑے کی پہچان یہ بتائی تھی کہ دکان پر اسی کا گوشت بکتا ہے اور زین کس کر کھایا جاتا ہے ۔ پطرس بخاری کے مضمون کا عنوان تھا ’لاہور کا جغرافیہ‘ ۔ چونکہ تاریخ اور جغرافیہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، لہذا نئے زمانے کا لکھاری کہہ سکتا ’لاہور کا جغرافیہ اور راولپنڈی کی تاریخ‘ ۔

مریم نواز سےاختلاف ہے نہ ناراضی، ن لیگ کی سوچ سے اتفاق نہیں کرتا،شاہد خاقان عباسی

........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play