پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کا شکار ہو گئی،اس کے بانی چیئرمین کو بادل ناخواستہ اپنا عہدہ چھوڑ نا پڑا ہے ، بلے کا نشان بچاتے بچاتے پی ٹی آئی چیئرمین سے محروم ہو گئی ہے،اس میں شک نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹر اس تبدیلی کو تسلیم نہیں کر یں گے لیکن اس کے باوجود اس کی حقیقت سے انکار نہیں کر سکیں گے اور یوں پی ٹی آئی کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا ایک ایسا عمل شروع ہو گا جو عام انتخابات کے آتے آتے پی ٹی آئی کو ایک کمزور سیاسی جماعت میں بدل دے گا۔

9مئی کا سانحہ عمرا ن خان کے لئے خوفناک ثابت ہو ا ہو یا نہ ہوا ہو، پی ٹی آئی کے لئے موت کا پیغام ثابت ہوا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ اس سے جڑے ہوئے بڑے بڑے نامور الیکٹ ایبلز اس سے منہ موڑ چکے ہیں،بلکہ جن کے بغیر پی ٹی آئی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ، وہ یا تو پارٹی سے علیحدہ ہو گئے ہیں یا پھر سیاست سے ہی دستبردار ہو گئے ہیں۔پی ٹی آئی کے حامی ابھی تک صورتحال کی سنگینی کو نہیں سمجھ سکے ہیں، کیونکہ سوشل میڈیا پر تسلسل کے ساتھ اِس بات کا پرچار کیا جا تا رہا ہے کہ عمران خان ملک کے بلاشرکت غیرے مقبول ترین لیڈر ہیں اور جب بھی انتخابات ہوں گے ، لوگ جوق در جوق گھروں سے نکل آئیں گے اور عمران خان کھمبے کو بھی کھڑا کرے گا تو لوگ اس کو ووٹ دیں گے ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو یہ دعویٰ پی ٹی آئی کی چیئرمینی کے معاملے پر ہی دھڑام سے زمیں بوس ہو گیا ہے۔

روبوٹ ویٹریس کی صلاحیت سے دیکھنے والےحیران

پی ٹی آئی کی چیئرمینی شروع دن سے متنازع رہی ہے۔ اس کا آغاز تب ہی ہو گیا تھا جب شاہ محمود قریشی نے اپنے بھائی مرید حسین قریشی کو یہ کہہ کر پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تھی کہ وہ مڈل ایسٹ کے صحرا میں کسی جرنیل سے ملنے جا رہے ہیں اور بہت جلد پی ٹی آئی کی چیئرمینی ان کے پاس ہو گی ، اس لئے بہترین وقت ہے کہ مرید حسین جلدی سے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیا ر کر لو۔ تاہم عمران خان نے شاہ محمود قریشی کی بجائے پارٹی کا نظم و نسق کور کمیٹی کے حوالے کرنے کو ترجیح دی اور خود شاہ محمود قریشی سائفر کے مقدمے میں ان کے ہمراہ جیل میں چلے گئے۔

مریم نواز سےاختلاف ہے نہ ناراضی، ن لیگ کی سوچ سے اتفاق نہیں کرتا،شاہد خاقان عباسی

شاہ محمود قریشی کے بعد خیال کیا جا رہا تھا کہ علیمہ خان عمران خان کی عدم موجودگی میں پارٹی کی چیئرپرسن مقرر ہو جائیں گی، لیکن بشریٰ بی بی ان کی راہ کی دیوار بن کر کھڑی ہو گئیں۔ حالیہ دنوں میں اس حوالے سے دونوں کے درمیان کشیدگی کی خبریں اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ عمران خان دونوں سے ہی زچ آگئے تھے اور انہوں نے اپنے تئیں پارٹی کی قیادت وکلاءکے حوالے کرکے ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دینے کی کوشش کی اور سمجھے کہ ملک بھر سے الیکٹ ایبلز کی عدم موجودگی میں اگر وکلاءقیادت ان کے ساتھ آن کھڑی ہوئی تو وہ عوام کو باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے ملک کی پڑھی لکھی اور آئین اور قانون کو سمجھنے والی قیادت ان کے ساتھ آن کھڑی ہوئی ہے اِس لئے عوام ان کی پارٹی کو ووٹ دے کر کامیاب کروائیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ٹی وی اینکر ندیم ملک نے معروف کارپوریٹ وکیل سلمان اکرام راجہ سے پوچھا کہ کیا وہ پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ سکتے ہیں تو وہ اپنی خوشی کو چھپاتے ہوئے بولے کہ وہ اس امکان کو مسترد نہیں کرتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ عمران خان کے پیچھے کارفرما قوتوں نے بھاری فیسوں کے عوض نہ صرف ملک کی وکلاءقیادت کو عمران خان کے مقدمات کی پیروی کے لئے تیار کرلیا ہے بلکہ انہیں سیاسی محاذ پر بھی اہم رول دے کر دوبارہ سے عمران خان کو اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کرنے کا پروگرام بھی بنا چکی ہیں۔ تاہم یہاں بھی معاملہ اُلٹا پڑگیا کہ عمران خا ن کے ساتھ جڑے ہوئے تمام وکلاءنے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی ٹھان لی اور ہر کوئی اڈیالہ جیل سے باہر نکل اپنی اپنی ہانکنے لگا اور یوں عوام نے دیکھا کہ چیئرمینی کے معاملے پر پی ٹی آئی وکلاءجوتیوں میں دال بانٹ رہے ہیں۔

دہشتگردی کے مقدمے میں نامزد پی ٹی آئی رہنما گرفتار، نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا

اب جبکہ علی گوہر خان پارٹی کے چیئرمین بن چکے ، انہیں پارٹی کا ایک اور عثمان بزدار کہہ کر پکارا جانے لگا ہے کہ جس طرح بزدار نے پنجاب میں پارٹی کا بھٹہ بٹھا دیا تھا،گوہر خان ملک بھر میں پارٹی کا بھٹہ بٹھا دیں گے ۔ خاص طور پر جب اکبر ایس بابر بھی تیر و تفنگ کے ساتھ میدان میں اُتر آئے ہیں تو عین ممکن ہے کہ دونوں کے درمیان ہونے والی کشمکش معاملے کو دوبارہ سے الیکشن کمیشن کے پاس لے جائے جہاں سے اکبر ایس بابر پارٹی کا بلے کا نشان جیتنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ایسا ہوا تو یہ پارٹی کے کفن میں آخری کیل ثابت ہو گا۔

کراچی سے منشیات سعودی عرب منتقل کرنے کی کوشش ناکام، چالاک ملزم گرفتار

دیکھا جائے تو عمران خان کے سامنے ان کا اپنا کہا ہوا ہی ایک دیوار بن کر کھڑا ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے پر خودکشی کو ترجیح دیں گے ، پھر انہیں اپنا تھوکا چاٹنا پڑا۔ وہ فوجی قیادت کو میر جعفر اور میر صادق کہتے تھے اور پھر مذاکرات کے لئے منتیں ترلے کرتے پائے گئے۔ وہ موروثی سیاست پر لعن طعن کرتے تھے اور آج اسی سبب قیادت ان کے ہاتھ سے نکل کر پیپلز پارٹی کے پاس چلی گئی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے تین ماہ میں پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنے آپ کو سیاسی طور پر بحال کرسکتی ہے یا نہیں، کیونکہ آصف زرداری کمال مہارت سے پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ پر ہاتھ تو صاف کر چکے ہیں۔

پی آئی اے کا ایک اور فضائی میزبان کینیڈا میں لاپتہ

QOSHE -      پی ٹی آئی بیوہ ہو گئی - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     پی ٹی آئی بیوہ ہو گئی

7 0
03.12.2023

پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کا شکار ہو گئی،اس کے بانی چیئرمین کو بادل ناخواستہ اپنا عہدہ چھوڑ نا پڑا ہے ، بلے کا نشان بچاتے بچاتے پی ٹی آئی چیئرمین سے محروم ہو گئی ہے،اس میں شک نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹر اس تبدیلی کو تسلیم نہیں کر یں گے لیکن اس کے باوجود اس کی حقیقت سے انکار نہیں کر سکیں گے اور یوں پی ٹی آئی کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا ایک ایسا عمل شروع ہو گا جو عام انتخابات کے آتے آتے پی ٹی آئی کو ایک کمزور سیاسی جماعت میں بدل دے گا۔

9مئی کا سانحہ عمرا ن خان کے لئے خوفناک ثابت ہو ا ہو یا نہ ہوا ہو، پی ٹی آئی کے لئے موت کا پیغام ثابت ہوا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ اس سے جڑے ہوئے بڑے بڑے نامور الیکٹ ایبلز اس سے منہ موڑ چکے ہیں،بلکہ جن کے بغیر پی ٹی آئی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ، وہ یا تو پارٹی سے علیحدہ ہو گئے ہیں یا پھر سیاست سے ہی دستبردار ہو گئے ہیں۔پی ٹی آئی کے حامی ابھی تک صورتحال کی سنگینی کو نہیں سمجھ سکے ہیں، کیونکہ سوشل میڈیا پر تسلسل کے ساتھ اِس بات کا پرچار کیا جا تا رہا ہے کہ عمران خان ملک کے بلاشرکت غیرے مقبول ترین لیڈر ہیں اور جب بھی انتخابات ہوں گے ، لوگ جوق در جوق گھروں سے نکل آئیں گے اور عمران خان کھمبے کو بھی کھڑا کرے گا تو لوگ اس کو ووٹ دیں گے ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو یہ دعویٰ پی ٹی آئی کی چیئرمینی کے معاملے پر ہی دھڑام سے زمیں بوس ہو گیا ہے۔

........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play