الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے دو ماہ کا وقت باقی ہے نجانے کیوں الیکشن کی گہماگہمی نظر نہیں آرہی۔ نہ تو لیڈروں میں کوئی بات نظر آرہی ہے اور نہ ہی عوام میں ابھی تک کسی قسم کا تاثر پایا جارہا ہے۔ عوام تو اپنی روزی روٹی کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔

معروف شاعر یوسف مثالی نے کیا خوب لکھا ہے:

مری راتوں میں اب بھی چاندنی مطلب نہیں رکھتی

میں اب بھی چودھویں کے چاند کو روٹی سمجھتا ہوں

عوام پچھلے الیکشنوں کو سامنے رکھتے ہوئے بیزار ہوچکے، یہی وجہ ہے عوام کے جذبات ٹھنڈے ہیں۔ اب تو عوام کو نہ روٹی مل رہی ہے نہ کپڑا اور نہ ہی مکان۔ تصورِاسلامی کے مطابق ایک فلاحی مملکت اس کی ذمہ دار ہے کہ ان بنیادی ضرورتوں کو پورا کرے۔ معاشی دائرے میں ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ اُسے رہنے کے لیے گھر تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا، پیٹ کے لیے روٹی اور صاف پانی میسر ہو۔ عوام تو اب پورا مہینہ بلوں کے لیے پیسے اکٹھے کرتے ہیں اکثر لوگوں کو قرض لے کر بل دیتے بھی دیکھا ہے، ان حالات میں عوام سے جب بھی ووٹ کی بات کی تو اُن کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا وہ حالات کو کوستے ہیں اور آنے والوں سے بھی کوئی امید نہیں رکھتے۔ عوام کی سوچ بھی غلط نہیں کیونکہ لیڈر عوام کو سبز باغ ہی دکھاتے آئے ہیں۔

پی ایس ایل سیزن 9 میں ریکارڈ توڑ غیر ملکی کھلاڑیوں نے رجسٹریشن کروالی ، فہرست سامنے آ گئی

ملک کے معاشی حالات کو سدھارنے کے لیے ہمیں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک سچے پاکستانی لیڈر کی ضرورت ہے جو کام کرکے دکھائے۔ ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو عوام کا اعتماد بحال کرے۔ہم نے تو 75سال صرف تجربات کرنے میں گزار دئیے ہیں۔ ہمیں دنیا میں ملک کی ساکھ کو بحال کرنا ہے اگر ملک میں سرمایہ کاری کو لانا ہے تو قانون پر عملدرآمد کروانا ہوگا۔ سیکورٹی کا نظام بہتر کرنا ہوگا سخت سزاؤں کا قانون بنانا ہوگا تاکہ سرمایہ لگانے والے کو مکمل تحفظ میسر ہو ملک کی انڈسٹری کو بحال کرنا ہوگا ایکسپورٹ انڈسٹری کو چھوٹ دینا ہوگی۔ ایکسپورٹ جتنی زیادہ ہوگی زرِمبادلہ اُتنا ہی زیادہ آئے گا تو ملک میں مہنگائی کم ہوتی جائے گی۔ ہمیں اپنی زراعت پر بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے زرعی زمینوں پر رہائشی سکیمیں اور کالونیاں بنا کر فروخت کرنا شروع کر دیں، اس طرح کی رہائشی سکیموں پر فوری پابندی کی بھی ضرورت ہے۔ درختوں کے کاٹنے کی وجہ سے ہمارا ملک ماحولیاتی آلودگی کا بھی شکار ہوتا جارہا ہے، ہمارے لیڈر یہ سب جانتے ہیں اُنہیں ان سب باتوں کا ادراک بھی ہے مگر سمجھ نہیں آتا کہ جو کچھ جلسوں میں کہا جاتا ہے جن کی بنا پر عوام اُنہیں خوشی خوشی ووٹ دینے جاتے ہیں وہ سب وعدے وفا ہوتے ہوتے کیوں رہ جاتے ہیں۔

لباس تبدیل کرلیں، ثنا جاوید کے ایک ہی لباس پہننے پر ناظرین سیخ پا ہوگئے

آج بھی ہر چینل پر جو مباحثے ہورہے ہیں اُن میں عام آدمی کے لیے کیا بات کی جاتی ہے کیا کوئی نئی بات کی جاتی ہے، وہی گھسی پٹی باتیں سن سن کر عوام تنگ آچکے، سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے سوا کچھ نہیں کرتے، پرانی داستانیں بارباردہرائی جاتی ہیں، بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے والے کو ایک جھونپڑی یا سائیکل پر سفر کرنے والے کی پریشانیوں سے کیا غرض ہوسکتی ہے۔ جب بھی الیکشن آتے ہیں آپ کے پارٹی نمائندے آپ کے دروازے پر کبھی کبھار نظر آہی جاتے ہیں مگر الیکشن جیتنے کے بعد کیا وہ کبھی اپنے ووٹر کے پاس آئے یا اُس کی کوئی بھی جائز بات سنی گئی…… کبھی نہیں …… وہ کبھی اپنے حلقے کے حالات کو جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ ووٹر کو جب کام پڑتا ہے وہ گھنٹوں اُن کے دروازے پر کھڑا رہتا ہے، اُن کے گھر کے بیسیوں چکر کاٹتا ہے مگر وہ صاحب گھر سے جلدی میں نکلتے ہیں میٹنگ کا بہانہ بناتے ہیں اور یہ جا وہ جا…… ووٹر منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔

مبینہ غیر شرعی نکاح کیس:سابق چیئرمین پی ٹی آئی بشریٰ بی بی کے گھر آتے تھےاور دونوں کمرے میں چلے جاتے تھے،گواہ محمد لطیف کا عدالت میں بیان

ان سب باتوں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم اپنے لیڈر کا انتخاب سوچ سمجھ کر نہیں کرتے۔ہم اُن سے کوئی سوال نہیں کرتے کہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد ہمارے لیے ہمارے علاقے کے لیے کیا اصلاحات لے کر آرہے ہیں۔ وہ اپنے مقابل کے لیڈر سے کن معاملات میں بہتر ہیں جس کی وجہ سے ہم اُنہیں اپنا لیڈر چنیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بہرہ مند کیا ہے۔ ہمیں باہر سے ماہرین بلا کر نہیں کہنا چاہیے کہ ہمارے نظام کو ٹھیک کردو ملک میں بے انتہا ذہین اور قابل لوگ موجود ہیں یہ کام حکومت کا ہے۔ نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کریں نہ کہ وہ مایوسی میں اپنا ملک چھوڑ کر باہر چلے جائیں۔ نوجوانوں اور اُن کے والدین کو بھی اُن کا مستقبل یہاں تاریک نظر آنے لگا ہے۔ ماں باپ اس پریشانی کے عالم میں بچوں کے خوبصورت مستقبل کے لیے اُنہیں باہر کے ملکوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے ملک کے عوام اپنی فلاح و بہبود کے خواہش مند ہیں اور یہ خواہش بری نہیں یہ ایک فطری خواہش ہے انسان کو زندہ رہنے اور اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے سب سے زیادہ خود ہی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کا فرض ہے کہ اُن کا ہر عمل ایسا ہو جس میں کسی کا نقصان نہ ہو بلکہ فلاح ہو ایسے سیاست دانوں کو سب عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایسے سیاستدان جو خودغرض ہوتے ہیں اپنی بھلائی مگر دوسروں کا نقصان کرتے ہیں اُن کو کبھی پسندیدگی سے نہیں دیکھا جاتا کسی بھی معاشرے کی ترقی اور کامیابی کا اصول یہ ہے کہ ایک کی بھلائی میں ہی سب کی بھلائی ہو۔ جس معاشرے میں اعتماد و اعتبار کی فضا ہو وہاں افراد سکون محسوس کرتے ہیں اور ان کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ وہ نہایت بے فکری اور یکسوئی سے اپنی صلاحیتوں کے مطابق اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور خوب ترقی کرتے ہیں۔ ان کی ترقی سے اجتماعی فلاح کے سوتے پھوٹتے ہیں۔جب کسی معاشرے کی عوام کو صحیح بنیادوں پر پھلنے پھولنے اور آگے بڑھنے کے مواقع میسر آجائیں تو سمجھئے کہ اجتماعی فلاح کا عمل شروع ہوگیا ہے۔

شہباز شریف نے ایک بار پھر چارٹر آف اکانومی کی تجویز پیش کردی

عموماً دیکھا گیا ہے کہ محنت اور جانفشانی سے گھبرانے والے جائز ذرائع کی بجائے ناجائز ذرائع سے دولت حاصل کرنے لگتے ہیں جس سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔ عام آدمی کی زندگی تلخ ہوجاتی ہے اور خود اُن کے لیے بھی نتائج برے ہی نکلتے ہیں۔ جب کوئی بھی انسان ناجائز ذرائع اختیار کرتا ہے تو وہ محنت اور جانفشانی کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اچھے جذبات اور ایثار و اعتماد کی سفاعت سے بھی محروم دکھائی دینے لگتا ہے۔ اُس میں آرام طلبی اور خودغرضی جیسے عیب ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ آج ہماری قوم کی ضرورت محنت اور جانفشانی ہے۔ ہمیں سہولت پسندی کی عادت چھوڑ کر عمل پیہم کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ آج ہم پر برا وقت ضرور ہے مگر ہمارا کل آج سے بہتر ہوگا کیونکہ ہر مصیبت اور مشکلات برداشت کرنے والوں کو اللہ ضرور نوازتا ہے۔

ڈاکٹر فوزیہ کی امریکی جیل میں اپنی بہن عافیہ صدیقی سے ملاقات

QOSHE -       ”میں اب بھی چودھویں کے چاند کو روٹی سمجھتا ہوں“  - ڈاکٹر فوزیہ تبسم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      ”میں اب بھی چودھویں کے چاند کو روٹی سمجھتا ہوں“ 

16 1
05.12.2023

الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے دو ماہ کا وقت باقی ہے نجانے کیوں الیکشن کی گہماگہمی نظر نہیں آرہی۔ نہ تو لیڈروں میں کوئی بات نظر آرہی ہے اور نہ ہی عوام میں ابھی تک کسی قسم کا تاثر پایا جارہا ہے۔ عوام تو اپنی روزی روٹی کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔

معروف شاعر یوسف مثالی نے کیا خوب لکھا ہے:

مری راتوں میں اب بھی چاندنی مطلب نہیں رکھتی

میں اب بھی چودھویں کے چاند کو روٹی سمجھتا ہوں

عوام پچھلے الیکشنوں کو سامنے رکھتے ہوئے بیزار ہوچکے، یہی وجہ ہے عوام کے جذبات ٹھنڈے ہیں۔ اب تو عوام کو نہ روٹی مل رہی ہے نہ کپڑا اور نہ ہی مکان۔ تصورِاسلامی کے مطابق ایک فلاحی مملکت اس کی ذمہ دار ہے کہ ان بنیادی ضرورتوں کو پورا کرے۔ معاشی دائرے میں ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ اُسے رہنے کے لیے گھر تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا، پیٹ کے لیے روٹی اور صاف پانی میسر ہو۔ عوام تو اب پورا مہینہ بلوں کے لیے پیسے اکٹھے کرتے ہیں اکثر لوگوں کو قرض لے کر بل دیتے بھی دیکھا ہے، ان حالات میں عوام سے جب بھی ووٹ کی بات کی تو اُن کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا وہ حالات کو کوستے ہیں اور آنے والوں سے بھی کوئی امید نہیں رکھتے۔ عوام کی سوچ بھی غلط نہیں کیونکہ لیڈر عوام کو سبز باغ ہی دکھاتے آئے ہیں۔

پی ایس ایل سیزن 9 میں ریکارڈ توڑ غیر ملکی کھلاڑیوں نے رجسٹریشن کروالی ، فہرست سامنے آ گئی

ملک کے معاشی حالات کو سدھارنے کے لیے ہمیں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک سچے پاکستانی لیڈر کی ضرورت ہے جو کام کرکے دکھائے۔ ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو عوام کا اعتماد بحال کرے۔ہم نے تو 75سال صرف تجربات کرنے میں گزار دئیے ہیں۔ ہمیں دنیا میں ملک کی ساکھ کو بحال کرنا ہے اگر ملک میں سرمایہ کاری کو لانا ہے تو........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play