نگران ہوں یا منتخب سبھی عوام سے ”بہت پیار“ کرتے ہیں اور دن رات ان کا نام لے کر آہیں بھرتے اور اعلان پر اعلان کئے جاتے ہیں کہ ان کو عوامی مفاد سے زیادہ کچھ اہم نہیں اور وہ سب عوام کی فکر میں دُبلے ہو رہے ہیں،ان عوام کا اپنا یہ حال ہے کہ اکثریت ذہنی خلفشار کا شکار اور ادنیٰ روز گار کی فکر میں مرے جا رہے ہیں۔ حکمران ہیں کہ وہ ہر روز ان کے لئے مہنگائی کا ٹیکہ تیار رکھتے اور آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق لگا دیتے ہیں۔ابھی گزشتہ روز ہی بتایا گیا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی اور بڑھ گئی ہے سروے آف پاکستان کے اس ہفتہ وار جائزے میں بتا دیا گیا کہ انڈے اور دالیں تک مزید گراں ہو گئی ہیں۔دوسری طرف ہر ماہ بجلی کے نرخ بڑھا کر ٹیکہ لگایا جاتا ہے اور اسے فیول ایڈجسٹمنٹ کا نام دیا گیا،پٹرولیم مصنوعات سستی ہوتی ہیں یا نہ ہوں یہ ٹیکہ ہر ماہ لازم ہے جبکہ مستقل نرخوں میں کئی بار اضافہ کیا گیا اور مزید تیاری ہے۔یہی حال قدرتی گیس کا ہے،172فیصد اضافے کے بعد اب مزید175 فیصد اضافہ مانگ لیا گیا ہے،یہ فارمولا شاید گیس کی قلت پر قابو پانے کا ہے کہ گیس اگر نہیں تو اتنی مہنگی کر دو کہ صارفین گھبرا کر استعمال ہی سے توبہ کر لیں،اب تو یہ حالات بھی ہیں کہ گیس کی لوڈشیڈنگ جاری ہے، صبح اور شام کو ملتی ہے، رات کو صبح تک بند کر دی جاتی ہے اس کے نتیجے میں مہنگی گیس استعمال کر کے گرم پانی حاصل کرنے کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے اور ٹھنڈے پانی سے غسل کرنا ہوتا ہے۔شاید گیس والے ہمیں اِس دور میں پہنچانا چاہتے ہیں جب انگیٹھی پر ایک دیگچی پانی گرم کر کے پانی کی پوری بالٹی سے نہا لیا جاتا تھا یا پھر مساجد کے کنوئیں کے ساتھ لگائے غسل خانے استعمال ہوتے تھے،پھر ذرا ترقی ہوئی تو نلکے لگ گئے اور پھر تازہ پانی سے نہانے کا لطف آنے لگا کہ پانی معتدل ہوتا تھا،لیکن گیس مل جانے کے بعد گیزر بھی خریدے گئے اور متعلقہ محکمے ہی کے تعاون سے استعمال شروع ہوا، لیکن اب یہ بہت بڑی عیاشی ہو گئی، شاید قدرتی گیس کی کمپنیوں اور حکومت کا معاہدہ ہو گیا ہے کہ گیس مہنگی کر دی جائے کہ نچلا متوسط طبقہ اور غریب لوگ گیزر کو بھول جائیں اور متمول لوگ ہی یہ استعمال کر سکیں۔

نگراں حکومت نے کھاد کی مصنوعی قلت کا نوٹس لے لیا

آج سیاست سے ہٹ کر عوامی سیاست(مسائل) کا ذکر ضروی ہو گیا، ان دِنوں الیکٹرونک میڈیا پر اشتہار چل رہے ہیں کہ لوگ اپنی آمدنی اور ملکیت کے گوشوارے داخل کرائیں جو ایسا نہیں کرے گا اس کے بجلی اور فون کے کنکشن کاٹ لئے جائیں گے۔اس مقصد کے لئے تخصیص یہ ہے اور انتباہ کیا جا رہا ہے کہ نان فائیلر کے ضروری استعمال والے کنکشن کاٹ یا بند کر دیئے جائیں گے اس کے لئے لفظ فائیلر اور نان فائیلر استعمال کیا جا رہا ہے اور جس نوعیت کی اشتہاری مہم چلائی جا رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو ٹیکس گذار ہیں وہ تو فائیلر ہیں ان کو وقت ِ مقررہ پر اپنے گوشوارے داخل کرا دینا چاہئیں اور جو یہ نہیں کرتے ان کو ایسا کرنا چاہئے ورنہ ”جبر“ سہنا ہو گا۔اب جو لفظ فائیلر اور نان فائیلر استعمال کیا جا رہا ہے اس کے مطابق پوری قوم اور ہر فرد پر گوشواروں کی پابندی ہے۔اب ذرا غور فرمائیں تو معلوم ہو گا کہ جو تو ٹیکس کی اہلیت رکھتے اور ٹیکس جمع نہیں کراتے ان سب کو ٹیکس نیٹ میں لانا مقصود ہے،لیکن ان میں تو وہ حضرات بھی شامل ہیں جن کی آمدنی ٹیکس کی حد سے نیچے ہے اور ان پر انکم ٹیکس نہیں لگتا۔ اعلان کے مطابق گوشوارے ان کو بھی داخل کرنا ہوں گے، اس اصول کے مطابق تو ہر شہری نادہندہ ہے کہ جن پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اور وہ نان فائیلر (ٹیکس گذار) وہ بھی زد میں آ جائیں گے کہ پبلسٹی اور اعلانات سے واضح کر دیا گیا ہے کہ گوشوارے تو سب کو جمع کرانا ہوں گے۔اب تو یہ خدشہ اور بڑھ گیا کہ حکومت پاکستان نے شاہ سے بڑھ کر شاہ سے زیادہ وفادار ہونے کا ثبوت دیا اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے پوری قوم ہی کو اِس میں شامل کر لیا ہے وہ سر پر اینٹیں اُٹھا کر رکھنے والا ہی کیوں نہ ہو۔میرے جیسے حضرات جو ٹیکس کی شرح کے مطابق عمل کرتے اور خود کو پابند سمجھتے ہیں وہ گوشوارے داخل کرنے پر مجبور ہوں گے،حالانکہ میری تنخواہ کے مطابق مجھ پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا،جب ٹیکس کی شرح کے مطابق ہم بھی ٹیکس نیٹ میں آتے تھے تو ہمارا آجر ادارہ ہمارے بھی گوشوارے داخل کراتا اور انکم ٹیکس کی شرح کے مطابق سابق ٹیکس تنخواہ میں سے کاٹ لیا جاتا تھا۔

چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف وزیراعظم ہاؤس طلب

یہ سلسلہ وفاقی بجٹ کے تناسب سے چلتا ہے کہ تنخواہ دار طبقہ بھی اِسی تناسب سے متاثر ہوتا ہے اور یہ طبقہ ٹیکس سے بچ ہی نہیں سکتا۔یوں ایک نئے خوف و ہراس کی فضاءہے، میرے جیسے صارفین کی مجبوری دیکھیں کہ مختلف اشیائے ضرورت پر سرکار نے ٹیکس لگا رکھا ہے اور وہ وصول بھی ہو جاتا ہے کہ کٹوتی پہلے ہو جاتی ہے، ہم جو بھی شے خریدتے اس پر انکم ٹیکس بھی لاگو ہے،ہماری آمدنی کو شاید مالِ غنیمت جان لیا گیا ہے کہ بالواسطہ ہر خریداری حتیٰ کہ بجلی کے بل پر بھی انکم ٹیکس دیتے ہیں، لیکن نان فائیلر(ٹیکس کی شرح کے مطابق ہم پر لاگو نہیں ہوتا) کی وجہ سے ہم ریفنڈ بھی کلیم نہیں کرتے، جبکہ بڑے بڑے ادارے آسانی سے پیشگی کاٹے گئے انکم ٹیکس کی رقوم ری فنڈ کرا لیتے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

یہ سب اِس لئے کیا جاتا ہے کہ ایف بی آر والے حقیقی ٹیکس گذاروں کو تلاش نہیں کر پاتے اور نہ ہی تاجر طبقے سے وصول کر پاتے ہیںاِس لئے سارا بوجھ ہم جیسے لوگوں پر منتقل کرنے کے لئے ہی یہ فائیلر اور نان فائیلر کی تک بندی کی گئی اور تو اور سرکاری طریقہ یہ ہے کہ بجلی کے بل میں ٹی وی ٹیکس لگ کر آتا ہے۔

QOSHE - فائیلرز اور نان فائیلر کی تشریح کریں!  - چوہدری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

فائیلرز اور نان فائیلر کی تشریح کریں! 

12 1
10.12.2023

نگران ہوں یا منتخب سبھی عوام سے ”بہت پیار“ کرتے ہیں اور دن رات ان کا نام لے کر آہیں بھرتے اور اعلان پر اعلان کئے جاتے ہیں کہ ان کو عوامی مفاد سے زیادہ کچھ اہم نہیں اور وہ سب عوام کی فکر میں دُبلے ہو رہے ہیں،ان عوام کا اپنا یہ حال ہے کہ اکثریت ذہنی خلفشار کا شکار اور ادنیٰ روز گار کی فکر میں مرے جا رہے ہیں۔ حکمران ہیں کہ وہ ہر روز ان کے لئے مہنگائی کا ٹیکہ تیار رکھتے اور آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق لگا دیتے ہیں۔ابھی گزشتہ روز ہی بتایا گیا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی اور بڑھ گئی ہے سروے آف پاکستان کے اس ہفتہ وار جائزے میں بتا دیا گیا کہ انڈے اور دالیں تک مزید گراں ہو گئی ہیں۔دوسری طرف ہر ماہ بجلی کے نرخ بڑھا کر ٹیکہ لگایا جاتا ہے اور اسے فیول ایڈجسٹمنٹ کا نام دیا گیا،پٹرولیم مصنوعات سستی ہوتی ہیں یا نہ ہوں یہ ٹیکہ ہر ماہ لازم ہے جبکہ مستقل نرخوں میں کئی بار اضافہ کیا گیا اور مزید تیاری ہے۔یہی حال قدرتی گیس کا ہے،172فیصد اضافے کے بعد اب مزید175 فیصد اضافہ مانگ لیا گیا ہے،یہ فارمولا شاید گیس کی قلت پر قابو پانے کا ہے کہ گیس اگر نہیں تو اتنی مہنگی کر دو کہ صارفین گھبرا کر استعمال ہی سے توبہ کر لیں،اب تو یہ حالات بھی ہیں کہ گیس کی لوڈشیڈنگ جاری ہے، صبح اور شام کو ملتی ہے، رات کو صبح تک بند کر دی جاتی ہے اس کے نتیجے میں مہنگی گیس استعمال کر کے گرم پانی حاصل کرنے کا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play