بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ وفاقی حکومت میں اپنے حاضر سروس دوستوں کی تعداد اب کم ہوتی جا رہی ہے۔ بصورتِ دیگر اُس خبر کا اپ ڈیٹ پیش کر دیتا جو دس سال ہوئے میرے ذہن کو جھنجھوڑ کر بھی ذرائع ابلاغ پر کِسی ٹَکر کا موضوع نہیں بن سکی تھی ۔ کھوجی صحافیوں نے اِس کا پیچھا کیا نہ ٹاک شو تجزیہ کاروں کی رائے سامنے آئی ۔ یہاں تک کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی ، جو محنت کشوں، عورتوں اور اقلیتوں کے حق میں لب کشائی سے کبھی نہیں چوکتا ، اِس خبر کا نوٹس نہ لیا ۔ ظاہر ہے میری ہاں میں ہاں ملانے سے پہلے آپ حقائق جاننا چاہیں گے،چونکہ پس منظر کی نشان دہی کے لئے کالم نگار کو ایک سرکاری دستاویز کا حوالہ دینا پڑ رہا ہے، جس پر ’افشائے راز کا قانون‘ حرکت میں آ سکتا ہے ،لہٰذا اُسے احتسابی عدالت سے بچانے کی خاطر تصور کر لیجئے کہ کہانی کے کردار فرضی ہیں۔

نگراں حکومت نے کھاد کی مصنوعی قلت کا نوٹس لے لیا

اِس دلچسپ دستاویز پر جو اسلام آباد کے ایک سرکاری ادارے میں ’واش روم کا غلط استعمال‘ کے عنوان سے جاری ہوئی ، وفاقی حکومت کے ایک جوائنٹ سیکرٹری کے دستخط تھے۔ فرمایا : ’ ’زیر دستخطی کے ذاتی مشاہدے کے مطابق ایک سے پندرہ گریڈ کے اہلکار ایسا واش روم استعمال کرتے ہوئے پائے گئے ہیں،جو لا اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکرٹریٹ کے افسران کے لئے مخصوص ہے ۔ مثال کے طور پر ، ایک نائب قاصد کو ( جو ایک مقبول مگر اب متنازعہ سیاستدان کا ہم نام تھا) زیر دستخطی نے دو مرتبہ افسروں کا واش روم برتتے دیکھا ۔ یہ حرکت سرکاری آداب کے منافی ہونے کے باعث ، گریڈ ایک سے پندرہ تک کے تمام اہلکاروں کو ایسا نہ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے ۔ اگر آئندہ کوئی اہلکار افسران کا واش روم استعمال کرتے ہوئے پایا گیا تو اُس کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے گی۔‘ ‘ اعلان ختم ہوا ۔

چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف وزیراعظم ہاؤس طلب

خبر پڑھتے ہی مجھے وہ واقعہ یاد آ یا جب اپنی ایک عمر رسیدہ عزیز ہ کے انتقال پر ہمارا سارا خاندان ایک غیر متوقع بحران سے دوچار ہو گیا تھا۔ وجہ یہ کہ تمام بڑے شہروں کی جدید بستیوں کی طرح ڈی ایچ اے لاہور میں بھی آپ کا حق ِ تدفین آپ کے حقِ ملکیت سے وابستہ ہے ۔ اگر زندگی میں اپنا مکان نہیں تو مرنے کے بعد قبر کے لئے بہادر شاہ ظفر کی پیروی میں کوئی اور جگہ ڈھونڈیں یا ثابت کریں کہ لواحقین کسی ذاتی گھر یا پلاٹ کے مالک ہیں ۔ ہماری بزرگ خاتون کی بیٹی اِس دوسری کیٹگری میں شامل تھیں، لیکن ماں کو ماں ثابت کرنے کے لئے دو مقامات سے گزرنا پڑا۔ پہلے تو اسٹیشن کمانڈر کے دفتر میں مرحومہ کا شناختی کارڈ دکھا کر انہیں بلوچ رجمنٹ کے ایک مرحوم میجر کی بیوی ثابت کیا گیا ۔ پھر بیٹی کی شادی سے پہلے کی تعلیمی سند پیش کی گئی جس میں میجر صاحب کا نام بطور والد درج تھا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

لا اینڈ جسٹس کمیشن کے مذکورہ سرکلر اور ڈی ایچ اے کے قوائد و ضوابط کا باہمی تعلق بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ہے۔ پھر یہ نازک پہلو بھی اہم ہے کہ موت و حیات کے مسائل بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ کی کمی نہیں ۔ البتہ واش روم کی بات چلانے کی خاطر انگریزی کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ ناخوشگوار حقائق کو اُجاگر کرنے یا اُن کی شدت گھٹا دینے کے لئے گوروں کے لسانی حربے زیادہ پُر تاثیر ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ گندگی کے احساس کو کم کرنے کے لئے ہم نے پہلے تو لیٹرین ترک کی اور ٹائلٹ کا لفظ اپنایا۔ پھر واش روم ، ریسٹ روم، اُن سے آگے لیڈیز اینڈ جنٹلمین اور کہِیں کہیِں کِنگز اینڈ کویِنز تک کا سفر جاری ہے۔اسی طرح اُس حرکت کے لئے جس کا ذکر مقامی زبان میں بدتہذیبی ہے، اہلِ مغرب نے ’کال آف نیچر‘ کہا ۔ اردو میں کہیں گے ’فطرت کا بلاوا‘۔

پاکستان کا اسرائیل سے غزہ پر ظالمانہ اور غیرانسانی حملے روکنے کا مطالبہ

اِس اصطلاح سے میری واقفیت ایک نیم فوجی کالج کے انگریز پرنسپل کے توسط سے ہوئی جنہوں نے امتحانی ہدایات میں پیشگی انتباہ کر دیا تھا کہ امیدواروں کو ٹیسٹ کے دوران ’میجر یا مائینر کال آف نیچر‘ کے لئے جانے کی اجازت نہیں ہو گی ۔ میرا دماغ زیادہ چکرایا تھا داخلہ مل جانے پر، جب گھر سے روانہ ہوتے ہوئے ضروری اشیاءکی فہرست میں ’ہاﺅس وائف‘ کا لفظ بھی دیکھا۔ مختصر نام تھا ’ہاﺅزف ۔ والد نے، جو دوسری جنگِ عظیم دیکھ چکے تھے، میری پریشانی کو بھانپتے ہوئے تسلی دی کہ یہاں خاتونِ خانہ نہیں بلکہ سوئی دھاگے کی تھیلی مراد ہے تاکہ بٹن ٹوٹ جائے تو نیا لگایا جا سکے ۔ بٹن ٹوٹنا اور نیا لگا لینا تو ٹیکنکل مسئلہ ہے لیکن کوئی شخص فطرت کا بلاوہ سُن کر اِس بنیادی تقاضے پر ’حاضر جناب‘ کیسے کہتا ہے ، اِس کا دارو مدار قدروں کے نظام پر ہو گا جس میں ہر طرح کی اقدار شامل ہیں۔

جنگ میں420فوجی ہلاک،2ہزار سے زائد معذور ہوگئے،اسرائیل

سب سے پہلے گھر وں کے تعمیراتی ڈیزائن کو لیں ۔ میری نسل کے اُن لوگوں کو جو اب خوشحالی کی اداکاری کر رہے ہیں شاید کبھی گلی محلے کے اُن مکانوں میں رہنے کا اتفاق ہوا ہو جہاں نیم تاریک غسل خانہ سیڑھیوں کے عین نیچے ہوا کرتا اور بیت الخلاءسب سے اوپر والی چھت کے ایک ناقابل ِ عبور کونے میں۔ دیہات میں اوپن ائیر تھیٹر کی بدولت گلاب دین کے ادھ پکے گھر اور چودھری نبی احمد کی کشادہ کوٹھی میں صفائی ستھرائی کا الگ الگ طبقاتی پروٹوکول نافذ تھا۔ کیا پتا آپ کی عمودی حرکت پذیری نے دیسی ٹائلٹ سے لے کر یورپی طرز کے کموڈ پر فائز ہونے کے مرحلے چھوٹی عمر میں طے کر لئے ہوں ۔ اُس صورت میں یہ سمجھنا آسان ہو گا کہ گریڈ ایک سے پندرہ اور اس سے اوپر کے افسروں کی بود و باش کا اصل فرق ہے کیا ۔ اِسی فرق کو مٹانے کے لئے ہی ہمارے بچپن میں عبوری دارالحکومت راولپنڈی کے ایک غریب پرور ہوٹل کے باہر یہ بورڈ جلی حروف میں آویزاں تھا : ’پُرسکون ماحول ، فلش سسٹم ، لذیذ کھانے ۔‘

لرننگ ڈرائیونگ لائسنس ایپ کے ذریعے بنانے کا فیصلہ

ذاتی حوالے سے سرکاری کوارٹر سے ’بنگلہ‘ میں پہنچنے کے عمل میں اپنے ہی گھر میں ’آئی او آر‘ اور ’بی او آر‘ کی تقسیم دیکھی۔ یعنی فطری بلاوے کے ضمن میں آزادی سے پہلے ہندوستانی اور انگریز فوجیوں کے درمیان امتیازی لکیر جس کے لئے ’انڈین ادر رینکس ‘ اور ’برٹش ادر رینکس‘ کی اصطلاحات تھیں۔ نئے دَور میں سیکنڈری بورڈ اور کیمبرج ایجوکیشن کے سکولوں کی طرح یہ اشارہ اُن جدا گانہ باتھ روموں کی طرف ہے جن میں سے ایک میں ایشیائی طرز کی سیٹ نصب تھی، جبکہ دوسرے میں برطانوی کموڈ اور ذرا ہٹ کر نہانے کا شاور ۔اِس صورتحال نے ہمارے اپنے گھر میں ’پاکی پلیدی‘ سے متعلق کئی ابتدائی بحثوں کو جنم دیا ۔ بلاوے پر ’حاضر جناب‘ کہتے ہوئے کموڈ کو باقاعدہ کرسی سمجھ کر اعتماد سے بیٹھ جانا پسندیدہ فعل نہ سمجھا گیا۔ سو، بعض مہمان انکل کموڈ کی اوپری سطح پر جوتوں سمیت یوں پاﺅں ٹکا کر بیٹھ جاتے،گویا سرکس کا کرتب دکھا رہے ہیں۔ ساتھ ہی غسل کرتے ہوئے کموڈ کی قربت نفسیاتی آلودگی کا باعث بنتی، جیسے صاف پانی پر گندگی کے چھینٹے پڑ رہے ہوں۔

پر وہ جو کہتے ہیں ’سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے‘ ۔ نئی سہولتیں گھریلو دو قومی نظریہ سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئیں ۔ اتنی طاقتور کہ اب ہماری نئی نسل کو ایشیائی طرز کی سیٹ پر بیٹھ کر مسلم شاور استعمال کرنا پڑ جائے تو انکل کو سرکس کا ’لم ڈھینگ ‘ سمجھنے والے خود سرکس کے بونے بن کر رہ جائیں ۔ یوں گھر، دفتر اور شاپنگ مال میں بہت کچھ تبدیل ہو گیا۔ سیڑھیوں والے غسل خانے کی جگہ ہر کمرے کا اٹیچڈ باتھ ، لوہا کوٹنے والی ٹائپ رائٹر کی بجائے کمپیوٹر ،اوپر نیچے جانے کے لئے برقی زینے اور لفٹیں ۔ ہاں ، باقی دنیا کے برعکس ہماری اسلامی جمہوریہ میں اگر نہیں بدلا تو گریڈوں کا امتیاز نہیں بدلا۔ چنانچہ تاحال لازم ہے کہ ڈیفنس میں تدفین کا طلبگار صاحبِ جائیداد ہو اور فطرت کے بلاوے پر سیکرٹیریٹ میں ڈھنگ کی جگہ ڈھونڈنے والا پہلے اپنی افسری کا ثبوت لائے، وگرنہ انضباطی کارروائی ہو کر رہے گی۔

QOSHE -     فطرت کا بلاوااور انسانی حقوق - شاہد ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    فطرت کا بلاوااور انسانی حقوق

9 0
10.12.2023

بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ وفاقی حکومت میں اپنے حاضر سروس دوستوں کی تعداد اب کم ہوتی جا رہی ہے۔ بصورتِ دیگر اُس خبر کا اپ ڈیٹ پیش کر دیتا جو دس سال ہوئے میرے ذہن کو جھنجھوڑ کر بھی ذرائع ابلاغ پر کِسی ٹَکر کا موضوع نہیں بن سکی تھی ۔ کھوجی صحافیوں نے اِس کا پیچھا کیا نہ ٹاک شو تجزیہ کاروں کی رائے سامنے آئی ۔ یہاں تک کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی ، جو محنت کشوں، عورتوں اور اقلیتوں کے حق میں لب کشائی سے کبھی نہیں چوکتا ، اِس خبر کا نوٹس نہ لیا ۔ ظاہر ہے میری ہاں میں ہاں ملانے سے پہلے آپ حقائق جاننا چاہیں گے،چونکہ پس منظر کی نشان دہی کے لئے کالم نگار کو ایک سرکاری دستاویز کا حوالہ دینا پڑ رہا ہے، جس پر ’افشائے راز کا قانون‘ حرکت میں آ سکتا ہے ،لہٰذا اُسے احتسابی عدالت سے بچانے کی خاطر تصور کر لیجئے کہ کہانی کے کردار فرضی ہیں۔

نگراں حکومت نے کھاد کی مصنوعی قلت کا نوٹس لے لیا

اِس دلچسپ دستاویز پر جو اسلام آباد کے ایک سرکاری ادارے میں ’واش روم کا غلط استعمال‘ کے عنوان سے جاری ہوئی ، وفاقی حکومت کے ایک جوائنٹ سیکرٹری کے دستخط تھے۔ فرمایا : ’ ’زیر دستخطی کے ذاتی مشاہدے کے مطابق ایک سے پندرہ گریڈ کے اہلکار ایسا واش روم استعمال کرتے ہوئے پائے گئے ہیں،جو لا اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکرٹریٹ کے افسران کے لئے مخصوص ہے ۔ مثال کے طور پر ، ایک نائب قاصد کو ( جو ایک مقبول مگر اب متنازعہ سیاستدان کا ہم نام تھا) زیر دستخطی نے دو مرتبہ افسروں کا واش روم برتتے دیکھا ۔ یہ حرکت سرکاری آداب کے منافی ہونے کے باعث ، گریڈ ایک سے پندرہ تک کے تمام اہلکاروں کو ایسا نہ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے ۔ اگر آئندہ کوئی اہلکار افسران کا واش روم استعمال کرتے ہوئے پایا گیا تو اُس کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے گی۔‘ ‘ اعلان ختم ہوا ۔

چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف وزیراعظم ہاؤس طلب

خبر پڑھتے ہی مجھے وہ واقعہ یاد آ یا جب اپنی ایک عمر رسیدہ عزیز ہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play