محکمہ پولیس جو کہ خالصتاً جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کی بیج کنی کے لیے قائم کیا گیا ہے اور حکومت کی جانب سے عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کے ذریعے انہیں بھرپور وسائل فراہم کیے جاتے ہیں انہیں بہترین سازو سامان، اسلحہ موبائل، دفاتر ودیگر سہولتوں سے آراستہ کیا جاتا ہے جو کہ ان کی بنیادی ضرورت بھی ہے لیکن بدقسمتی سے جرائم کی روک تھام کا یہ اہم ادارہ خود جرائم پیشہ عناصر کا گڑھ بنتا جا رہا ہے گو کہ پورے پاکستان میں محکمہ پولیس کے خلاف عوام کی شکایات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور محکمہ پولیس میں شامل کالی بھیڑوں کے کرتوت اور لوٹ مار اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ محکمہ پولیس کے خلاف شکایات اور ان کی جرائم کی وارداتیں جس تیزی کے ساتھ تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہیں وہ ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ محکمہ پولیس کی جانب سے ان شکایات پر شعبہ جاتی کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کالی بھیڑوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کی تازہ مثال سپر ہائی وے صوبہ سندھ سکرنڈ کے قریب پاکستان کی قومی ٹیم کے دو قومی کرکٹر صہیب مقصود اور عامر یامین کو کراچی سے ملتان جاتے ہوئے پولیس اہلکاروں کی لوٹ مار اور ان سے بھاری رشوت کی وصولیابی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی جانب سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے والے ان دو کرکٹر کو کراچی سے ملتان کا سفر سڑک کے ذریعے کرنا مہنگا پڑگیا اور وہ دونوں قومی ہیرو سکرنڈ پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔ سکرنڈ پولیس کے ان دو پولیس اہلکاروں نے دونوں کھلاڑیوں کی شہرت اور مقام اور اپنے انجام کی پروا کیے بغیر دیدہ دلیری کے ساتھ ان سے 12ہزار روپے طلب کیے اور ان سے آٹھ ہزار روپے رشوت وصول کی۔ قومی کرکٹر صہیب مقصود اور عامر یامین نے پولیس اہلکاروں کو آگاہ کیا کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ہیں لیکن ان ظالم پولیس اہلکاروں نے بھرپور اور روایتی رعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا رحم نہیں کیا اور آٹھ ہزار روپے ان سے رشوت وصول کرلی۔ سوشل میڈیا پر صہیب مقصود نے اپنے ٹوئٹ میں انکشاف کیا کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ سندھ میں نہیں بلکہ پنجاب میں رہتے ہیں۔ زندگی میں پہلی بار کراچی سے ملتان بذریعہ روڈ سفر کیا لیکن سندھ پولیس اتنی کرپٹ ہے کہ ہر 50کلو میٹرکے بعد گاڑیاں روک کر رشوت مانگی جاتی اور پیسے نہ دینے پر پولیس اسٹیشن لے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیخلاف درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا

رشوت کے پیسے دیے جانے کے باوجود 50 کلو میٹر کے بعد اگلے پولیس اسٹیشن کے پولیس اہلکار دوبارہ رشوت اور پیسے مانگتے ہیں۔قومی کرکٹر کے ساتھ سندھ پولیس اہلکاروں کی اس لوٹ مار سے جہاں بین الاقوامی سطح پر ہماری تضحیک ہوئی ہے وہاں پوری قوم کے سر بھی شرم سے جھک گئے ہیں۔ قوم کے ہیروز کے ساتھ پولیس کا اس طرح کا شرمناک رویہ ناقابل برداشت ہے۔ پولیس ان ہیروز کے ساتھ یہ کچھ کر رہی ہے تو عام آدمی کے ساتھ کیا حال اور سلوک کیا جاتا ہوگا۔ صہیب مقصود کے ٹوئٹ کے بعد آئی جی سندھ راجہ رفعت مختار کی ہدایت پر واقعہ کی جانچ پڑتال کی گئی اور قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں سے قومی شاہراہ پر رشوت لینے کے الزام میں چار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر کے لاک اپ کردیا گیا اور چاروں اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایس ایچ او سکرنڈ اور ہیڈ محررکو بھی معطل کردیا گیا ہے۔ پولیس کی یہ کارروائی کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے قبل بھی پیش آنے والے مختلف واقعات پر ان کالی بھیڑوں کیخلاف محکمہ جاتی کارروائی شروع کی جاتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملہ ٹھنڈا ہونے پر کیس دب جاتا اور معافی تلافی کے بعدیہ عناصر پھر دوبارہ دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی کارروائیوں اور سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے اور ان کی لوٹ مار کو کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے۔ محکمہ پولیس میں راجہ رفعت مختار انتہائی اچھی شہرت کے حامل اور تگڑے کمانڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سند ھ کے موجودہ حالات ان کے لیے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہیں۔سندھ میں کمانڈر کی تعیناتی کے وقت زیادہ تر سندھی پولیس افسران کو ہی اس عہدے کے لیے پر فیکٹ قرار دیا جاتا ہے اوران افسران کی وجہ سے ہی عوام پولیس گردی کا شکار ہے۔ ماضی میں جب بھی پنجاب سے اس عہدے کے لیے کسی پولیس آفیسر کا انتخاب کیا گیا تو اس نے ہمیشہ بہتر کارکردگی سے اپنا لوہا منوایا ہے۔امید کی جاتی ہے راجہ رفعت مختاربھی وہاں کی خراب صورتحال ٹھیک کرنے میں کارگر ثابت ہونگے ویسے بھی ان کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ کرائم فائٹراور پولیس کا قبلہ درست کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ قوم کے ہیروزنے سندھ پولیس کا احوال بیان کرتے ہوئے پنجاب میں امن وامان کی صورت حال پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبہ سندھ کی نسبت پنجاب پولیس ڈاکے کم ڈالتی ہے۔

پنجاب حکومت نے خدیجہ شاہ کی نظربندی کا حکم واپس لے لیا

آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور اور ان کی صوبہ بھر بالخصوص لاہور میں تعینات ٹیم جن میں سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ،ڈی آئی جی انوسٹی گیشن عمران کشور،ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم کیپٹن لیاقت ملک،ڈی آئی جی آپریشنز سید علی ناصر رضوی،ایس ایس پی سید علی رضا،ایس ایس پی انوسٹی گیشن ڈاکٹر انوش چوہدری اوردیگر ایس پیز صاحبان نے شہر کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔آج صوبہ بھر بالخصوص لاہور میں جو جرائم کی شرح آسمان کو چھورہی تھی اب اس میں نمایا ں کمی ہو نا شروع ہو گئی ہے،انوسٹی گیشن ونگ کی ان تھک محنت سے پیڈنگ پڑے ہوئے تمام مقدمات چالان کردیے گئے ہیں،شہر میں شوٹرز کے ساتھ بڑے مافیا کا خاتمہ کیا گیا ہے، کوئی مقدمہ ایسا نہیں ہے جو لاہور پولیس کے لیے بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہویا انہیں عدالت عظمی یا عدالت عالیہ نے طلب کررکھا ہو۔ سنگین مقدمات میں ملوث اشتہاری مجرمان کو بیرون ملک سے وطن واپس لانے کا سلسلہ بھی جاری ہے،کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایف آئی آر کا اندراج نہیں ہوتا یا ملزمان گرفتارنہیں کیے جارہے، ایف آئی آر کے ساتھ ریکارڈ وقت میں ریکوریاں بھی جاری ہیں۔پولیس خدمت مرکز نے سروسز کی فراہمی میں گزشتہ چند مہینوں میں ایک کروڑ 5لاکھ سے ذائد شہریوں کو پولیس سروسز فراہم کی ہیں۔ایک دن میں ایک لاکھ سے زائد ٹریفک لائسنس بنائے جارہے ہیں۔آج سے آن لائن ٹریفک لائسنس کا سلسلہ بھی شروع کیا جارہا ہے۔ پنجاب پولیس کو سو فیصدٹھیک ہونے کا سرٹیفکیٹ تو نہیں دیا جاسکتا البتہ دیگر صوبوں سے اس کی کارکردگی معیاری اور بہتر ہے۔

سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی 3، شاہ محمود قریشی کی 2 مقدمات میں ضمانتیں منظور

QOSHE -     پنجاب پولیس کا دیگر صوبوں سے موازنہ - یونس باٹھ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    پنجاب پولیس کا دیگر صوبوں سے موازنہ

9 0
11.12.2023

محکمہ پولیس جو کہ خالصتاً جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کی بیج کنی کے لیے قائم کیا گیا ہے اور حکومت کی جانب سے عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کے ذریعے انہیں بھرپور وسائل فراہم کیے جاتے ہیں انہیں بہترین سازو سامان، اسلحہ موبائل، دفاتر ودیگر سہولتوں سے آراستہ کیا جاتا ہے جو کہ ان کی بنیادی ضرورت بھی ہے لیکن بدقسمتی سے جرائم کی روک تھام کا یہ اہم ادارہ خود جرائم پیشہ عناصر کا گڑھ بنتا جا رہا ہے گو کہ پورے پاکستان میں محکمہ پولیس کے خلاف عوام کی شکایات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور محکمہ پولیس میں شامل کالی بھیڑوں کے کرتوت اور لوٹ مار اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ محکمہ پولیس کے خلاف شکایات اور ان کی جرائم کی وارداتیں جس تیزی کے ساتھ تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہیں وہ ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ محکمہ پولیس کی جانب سے ان شکایات پر شعبہ جاتی کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کالی بھیڑوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کی تازہ مثال سپر ہائی وے صوبہ سندھ سکرنڈ کے قریب پاکستان کی قومی ٹیم کے دو قومی کرکٹر صہیب مقصود اور عامر یامین کو کراچی سے ملتان جاتے ہوئے پولیس اہلکاروں کی لوٹ مار اور ان سے بھاری رشوت کی وصولیابی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی جانب سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے والے ان دو کرکٹر کو کراچی سے ملتان کا سفر سڑک کے ذریعے کرنا مہنگا پڑگیا اور وہ دونوں قومی ہیرو سکرنڈ پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔ سکرنڈ پولیس کے ان دو پولیس اہلکاروں نے دونوں کھلاڑیوں کی شہرت اور مقام اور اپنے انجام کی پروا کیے بغیر دیدہ دلیری کے ساتھ ان سے 12ہزار روپے طلب کیے اور ان سے آٹھ ہزار روپے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play