کافر اپنی دانش اپنے علم سے چاند پر جا پہنچا اور ہم رہے چاند کا نظارہ کرتے۔ کافر اپنی محنت لگن سے ترقی کی دوڑ میں کہیں کا کہیں جا پہنچا اور ہم صرف ان کا منہ تکتے رہ گئے۔ مسلمان ہمیشہ سے ایسے کاہل اور ناکام نہیں تھے مسلمانوں کا علم و فضل میں کوئی ثانی نہیں تھا،بلکہ میں سمجھتا ہوں یورپ کی ترقی مسلمانوں کی رہین منت ہے، لیکن وہ کل کی بات تھی آج کے حالات کچھ اور ہیں کل کا مسلمان فتوحات کے سلسلے دراز کرتا جاتا، لیکن آج کافر ہم پر مسلط ہے آج صیہونی قوتیں ہمارے علاقوں پر قابض ہیں اور ہم بے بس ہیں آج حالات یہ ہیں کہ قبلہ اول کو تو یہودیوں نے مقفل رکھا اور ہم کچھ بھی نہیں کرسکے یہودیوں نے پیغمبروں کی سرزمین پر آگ اور باروود کی بارش کردی اور ہم مجبور لاچار رہے غزہ کا یہ حال کر دیا کہ میتوں کی تدفین کی جگہ نہ رہی،سڑکوں اور گلیوں میں اجتماعی تدفین کی جانے لگی ہے غزہ کی گلیوں میں لاشوں کے اس قدر ڈھیر ہیں کہ گذرنے کو راستہ نہیں بچا زخمی ہیں آہ و فغاں ہے کوئی درد سے کراہ رہا ہے تو کوئی اپنے گھر والوں کی شہادت پر گریہ کناں ہے ایک سوز ہے سوگ ہے بھوک ہے پیاس ہے گھر گھر موت کا رقص ہے گھر تو اب غزہ میں کیا رہے اسرائیلیوں نے اس قدر بم باری کی ہے کہ گھر چٹیل میدان بن گئے ہیں، جس سمت نگاہ دوڑائیے روتے سسکتے بلکتے بچے ہیں یا بچوں کے لاشے ہیں پھولوں سے نازک بچے تتلیوں سی بچیوں کے لاشے ہیں مائیں بچی ہیں نہ باپ رہے ہیں جو بچ گئے ہیں ان کا کچھ بھی نہیں بچا سب لٹ چکا انکی آنکھوں میں کوئی رمق باقی نہیں رہی زندگی ان کے لئے کوہ گراں بن چکی ہے، جس کا بار ان کے ناتواں کندھوں سے اٹھایا نہ جائے گا چہار جانب کہرام ہے۔جب حالات اس نہج تک پہنچ جائیں اور مسلمان ہر طرح کے وسائل سے مالامال ہو کر بھی بے بس ہوں تو یہ خیال آتا ہے کہ مسلمان کس منہ سے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں کہ قبلہ اول تو یہودیوں کے زیر تسلط ہے۔

گوگل سرچ 2023 : شاہ رخ کی ’جوان‘ نے پوری دنیا میں تیسری پوزیشن حاصل کرلی

مسلمان اللہ سے نادم بھی نہیں ہیں کہ یہودیوں نے غزہ کی ہر گلی محلے میں کربلا برپا کر رکھی ہے اور ہم مذمتوں سے آگے نہیں بڑھ رہے فلسطین کے کومل بچوں کو اسرائیلی بموں کی آگ نے موم کی طرح پگھلا کررکھ دیا ہے جی چاہتا ہے اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالیں انہیں اپنے ناخنوں سے نوچ لیں کہ جو منظر یہ آنکھیں فلسطینی بچوں پر ہونے والے مظالم دیکھ چکی ہیں۔ایک باپ اپنے معصوم جگر گوشے کی نعش کو اپنے بازوؤں میں بھینچ کر اسے پیار کررہا ہے جیسے وہ زندہ ہو اس کم سن بچے کا منظر بھی آنکھوں میں ثبت ہوکر رہ چکا ہے جو اپنے چھوٹے بھائی کو وقت شہادت کلمہ پڑھا رہا تھا،جو باپ اپنے بچوں کے چیتھڑے بوری میں ڈالے گریہ کر رہا تھا کہ اس کے بچے شہید ہوگئے اس کے اندر لگنے والے زخموں کا کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا ایسے ہزاروں مناظر دنیا کے مسلمانوں کا ضمیر آزما چکے ہیں۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے قبل مسلمان کافروں کے ظلم سے زچ ہوچکے تھے آپ کے قبول اسلام کے بعد مسلمانوں کو چھپ کر نماز پڑھتے کی حاجت نہ رہی مسلمان کھل کر مسجد الحرام میں نماز پڑھنے لگے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہیبت سے پہاڑ بھی لرز جاتے اور زمین کانپ اٹھتی کیا آج عالم اسلام میں کوئی ایسا حکمران ہے جو مسلمانوں کو کافروں کے مظالم سے بچائے؟حضرت عمر فاروق ؓ کے خط کی تحریر نے تو دریائے نیل کا پانی رواں دواں کردیا تھا اور آج کے مسلمان حکمران غزہ میں زندگی کو رواں نہ کرسکے آج کافر مسلمانوں کا اس قدر خون بہا رہے ہیں کہ جس سے ندیاں بہہ نکلیں اب کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی جیسا ہے جو قبل اول کو یہودیوں سے آزاد کراسکے؟حماس نے ایسا کرنے کی جرأت کی ہے تو دنیا کے ٹھیکیدار اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے رہی ہے، حالانکہ دہشت گرد تو خود امریکہ ہے اور وہ ہیں جو اسرائیل کو مسلمانوں کے قتل عام کے لئے دھڑا دھڑ خطرناک ہتھیار دئیے جارہے ہیں

پاکستان جرنلسٹس فورم کے سینئر ممبرعارف شاہد کے برادر نسبتی احمد سلیم انتقال کر گئے

اور دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کافر بھی اس جرم اس زیادتی پر بول اُٹھے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں کہ بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام بند کیا جائے اور مسلم حکمران اب بھی نہیں سمجھ رہے میں اپنے دو ماہ کے کالموں میں یہ بات تیسری بار رقم کررہا ہوں کہ عالم اسلام کے حکمرانوں کو عرب لیگ کے اجلاس میں ہی اپنا اپنا پر امن جوہری پروگرام شروع کرنے کا اعلان کر دینا چاہئے تھا اور اس اعلان کے ہوتے ہی اسرائیل امریکہ اور یورپ کے ہوش ٹھکانے آجانے تھے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کیا ہے تو اس بدمعاشی پر عالم اسلام کو امریکہ کا بائیکاٹ کردینا چاہئے تھا امریکہ سے اپنے تمام تعلقات کو محدود کردینا چاہئے تھا امریکہ کے بھی ہوش ٹھکانے آجانے تھے، لیکن امریکہ، کویت، قطر،مسقط،بحرین اور معاف کیجئے سعودی عرب دیگر اسلامی ممالک میں اس قدر داخل ہوچکا ہے کہ جیسے یہ اسلامی ممالک امریکہ نے ٹھیکے پر لے رکھے ہوں ہر معاملے میں امریکی مداخلت مسلم ممالک میں سرائیت کرچکی ہے امریکی مسلم ممالک میں اس قدر پھیل چکے ہیں کہ مسلم حکمران انہیں کہاں کہاں سے نکالیں گے امریکہ نے شام عراق اور دوسرے اسلامی ممالک پر کن کن ہلاکت انگیزیوں سے کام نہیں لیا عراق پر جب امریکہ چڑھ دوڑا تھا تو کس اسلامی ملک نے امریکہ کا راستہ روکا تھا؟ہم خود ہی تو امریکہ کو راستے دیتے آئے ہیں کہ آئیے اور ہمیں غارت کیجئے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا؟

غزہ جنگ بندی کی قرارداد صرف امریکہ نے ویٹو کی ہے، جس سے مراد ہے کہ اب کوئی لب کشائی کی جسارت نہیں کرے گا اور جو چند مسلم حکمران منہ کھول رہے ہیں ان کی امریکہ کو کچھ پرواہ نہیں ہے ہمارے مسلم حکمران کہہ کہہ کر نڈھال ہوگئے کہ فلاں کام کا ذمہ دار امریکہ ہے۔فلاں خونریزی کے پیچھے امریکہ ہے کیا ان روائتی اور گنے چنے جملوں کے علاوہ بھی عالم اسلام نے کچھ کیا ہے؟اگر عالم اسلام نے باتوں سے بڑھ کر کچھ کیا ہوتا تو آج غزہ خون میں نہلا نہ دیا گیا ہوتا۔

آج بھی ضرورت اس امر کی ہے عالم اسلام فلسطین کے معاملے میں متحد ہو کر اپنا سخت اور دو ٹوک موقف اختیار کرے اور عرب ممالک فی الفور اپنا جوہری پروگرام کا آغاز کردیں ورنہ مسلمان اپنا مقام تو پہلے ہی کھو چکے ہیں ان کا بچا کھچا بھرم بھی ٹوٹ سکتا ہے۔

وسطی پنجاب میں دھند شروع، موٹروے بند کردی گئی

QOSHE -        آنکھوں میں رمق  - ندیم اختر ندیم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       آنکھوں میں رمق 

11 0
13.12.2023

کافر اپنی دانش اپنے علم سے چاند پر جا پہنچا اور ہم رہے چاند کا نظارہ کرتے۔ کافر اپنی محنت لگن سے ترقی کی دوڑ میں کہیں کا کہیں جا پہنچا اور ہم صرف ان کا منہ تکتے رہ گئے۔ مسلمان ہمیشہ سے ایسے کاہل اور ناکام نہیں تھے مسلمانوں کا علم و فضل میں کوئی ثانی نہیں تھا،بلکہ میں سمجھتا ہوں یورپ کی ترقی مسلمانوں کی رہین منت ہے، لیکن وہ کل کی بات تھی آج کے حالات کچھ اور ہیں کل کا مسلمان فتوحات کے سلسلے دراز کرتا جاتا، لیکن آج کافر ہم پر مسلط ہے آج صیہونی قوتیں ہمارے علاقوں پر قابض ہیں اور ہم بے بس ہیں آج حالات یہ ہیں کہ قبلہ اول کو تو یہودیوں نے مقفل رکھا اور ہم کچھ بھی نہیں کرسکے یہودیوں نے پیغمبروں کی سرزمین پر آگ اور باروود کی بارش کردی اور ہم مجبور لاچار رہے غزہ کا یہ حال کر دیا کہ میتوں کی تدفین کی جگہ نہ رہی،سڑکوں اور گلیوں میں اجتماعی تدفین کی جانے لگی ہے غزہ کی گلیوں میں لاشوں کے اس قدر ڈھیر ہیں کہ گذرنے کو راستہ نہیں بچا زخمی ہیں آہ و فغاں ہے کوئی درد سے کراہ رہا ہے تو کوئی اپنے گھر والوں کی شہادت پر گریہ کناں ہے ایک سوز ہے سوگ ہے بھوک ہے پیاس ہے گھر گھر موت کا رقص ہے گھر تو اب غزہ میں کیا رہے اسرائیلیوں نے اس قدر بم باری کی ہے کہ گھر چٹیل میدان بن گئے ہیں، جس سمت نگاہ دوڑائیے روتے سسکتے بلکتے بچے ہیں یا بچوں کے لاشے ہیں پھولوں سے نازک بچے تتلیوں سی بچیوں کے لاشے ہیں مائیں بچی ہیں نہ باپ رہے ہیں جو بچ گئے ہیں ان کا کچھ بھی نہیں بچا سب لٹ چکا انکی آنکھوں میں کوئی رمق باقی نہیں رہی زندگی ان کے لئے کوہ گراں بن چکی ہے، جس کا بار ان کے ناتواں کندھوں سے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play