تھا عالم جبر کیا بتاویں ……بادشاہ چھت پر آیا تو؟
تحسین کے ڈونگرے برسائے۔ بادشاہ سلامت کے فلک شگاف نعروں میں تعطل تب آیا جب بادشاہ نے ظالم ملکہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنا تاج اس کے سر پر رکھ دیا اور حکم دیا کہ آج سے ملکہ کا ہر فیصلہ میرا فیصلہ ہے۔ عوام کے چہروں پر زردی اتر آئی۔ قاضی نے اپنے نالائق بیٹے کو مسند پر بٹھا کر کہا کہ آج سے میرا بیٹا بھی میرے فیصلوں میں برابر کا شریک ہے۔ مظلوم کی آہ گھٹ گئی۔ امام نے اپنے آوارہ بیٹے کے سر پر پر اپنا عمامہ رکھتے ہوئے اسے امامت کا حصہ دار بنایا۔ لوگوں کے چہروں پر خوف در آیا۔ اختیارات کی یہ بندر بانٹ بندر کی بلا طویلے کے سر رکھنے والی تھی۔ شاعر نے تو محبوب کے لیے کہا تھا کہ"لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں " لیکن یہ ہر اس بے اختیار شخص پر صادق آتا ہے جو نہایت چالاکی سے یا جہالت سے تخت پر برابری کا دعوی دار بن بیٹھتا ہے اور با اختیار اسے عشق میں کامیابی گردانتا ہے۔ اختیارات کی شفاف تقسیم ہر دور میں ایک سوالیہ نشان رہی ہے۔ بادشاہوں کی غیر مشروط غلامی سے نالاں اختیارات کے بلا شرکت غیرے حق ملکیت کے خواہاں نظر آنے لگے۔ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام ہے سو پانی بھی پنسال میں ہی آ جاتا ہے۔ خدا جانے پنسال کو اقربا پروری کا نام کس نے دیا اور اختیارات کو ٹافیاں سمجھ کر انصاف نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر ریوڑیوں کو اپنوں کے پھٹے دامن میں کیونکر بھرنا چاہا۔ اس روایت کا بانی کوئی........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website