انتخابات کابگل بج گیا، میدان سجنے کو ہے ، کاغذات نامزدگی داخل کرانے کا مرحلہ شروع اور ہر کوئی نہ صرف محتاط ہوگیا ہے بلکہ سچ پوچھئے تو محتاط ہونا بھی چاہئے کیونکہ آئندہ انتخابات سایوں کے درمیان لڑے جائیں گے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے گھر پر کریکر حملہ خطرے کی وہ گھنٹی ہے جو آئندہ دنوںمیں ملک کو کسی بھی سمت لے جا سکتی ہے ۔ پی ٹی آئی کو شکائت پیدا ہوگئی ہے کہ اس کے امیدواروں سے مبینہ طور پر کاغذات نامزدگی چھینے جا رہے ہیں حالانکہ ایک کاغذات نامزدگی ہی کیا ، پی ٹی آئی سے توامیدوار تک چھینے جا چکے ہیں۔ پی ٹی آئی ”میں چھت سنبھالتاتھاکہ دیوارودر گئے“ ایسی صورت حال کی شکار ہے ، ابھی تو اس کے انتخابی نشان کا بھی پھڈا پڑا ہے اور پی ٹی آئی کے ہر حواری کو دھڑکا لگا ہوا ہے کہ بلے کا نشان چھین کر الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے ہاتھ میں بلی کا نشان تھمادے گی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کبھی پیپلز پارٹی سے تلوار کا نشان لے کر تیر اور نون لیگ سے سائیکل کا نشان لے کر شیر تھمادیا گیا تھا۔

سیالکوٹ میں پی ٹی آئی رہنما آر او آفس سے گرفتار

ادھر پی ٹی آئی کے حامی ٹی وی اینکروں اور تجزیہ کاروں کا عالم یہ ہے کہ جوں جوںانتخابات کی سنجیدگی ماحول پرطاری ہونا شروع ہوئی ہے اور خبریں آنے لگی ہیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہاتھ کی صفائی کا عمل تیز ہوگیا ہے تو وہ ایک دوسرے سے سرعام سوال جواب کرتے نظرآتے ہیں کہ کیا ہم ٹاک شو کر رہے ہیں یا کوئی کامیڈی شو کر رہے ہیںکیونکہ ’چکوال انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک اسٹڈیز‘ نے تو انہیں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا لولی پاپ چوسنے کو دیا ہوا تھا او راب جبکہ انتخابات کا شیڈول آیا ہے تو پتہ چلا کہ پی ٹی آئی کے پاس تودل بچا ہے اور نہ جان ، لیڈر بھی اندر، بلے کا نشان بھی خطرے میں اور کاغذات نامزدگی چھیننے کا عمل علیحدہ ، اب یہ لوگ ٹی وی ٹاک شو میں نہیں بلکہ کسی حیرت کدہ میں بیٹھے محسوس ہوتے ہیں جن کے اردگرد چیزیں خودبخود الٹ پلٹ ہوتی جا رہی ہیں اور وہ سوائے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔بعض ایک تو عثمان ڈار کی والدہ کی وڈیو کو لے کر خواجہ آصف سے پوچھتے پائے جاتے ہیںکہ گرفتاریوں کاکلچر کب ختم ہوگاحالانکہ یہ وہی جغادری اینکر پرسن اور صحافی ہیں جو 2018کے انتخابات میں وسیم اکرم کو عمران خان کی تصویر والی شرٹ پہنا کر اپنے انتخابات کے دن لائیو ٹاک شو میں لے کر بیٹھے ہوئے تھے اور نون لیگ کے اسحٰق ڈار فون کرکے ان سے اس کھلی دھاندلی پر اپنا احتجاج ریکارڈ کر وارہے تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت کو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مٹی میں رولتے ہوئے عمران خان کی زبان بولتے اور دونوں بڑی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کو چور ڈاکو کہہ کر پکارتے تھے اگر انہوں نے میثاق جمہوریت کی قدر کی ہوتی اور اسٹیبلشمنٹ کا راستہ روکا ہوتا تو آج عثمان ڈار کی والدہ کے ڈرامے کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے جھوٹے سوانگ نہ رچانے پڑتے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان کے ناپاک ارادوں کو ملیا میٹ نہ کر رہے ہوتے ، ملک ترقی کر رہا ہوتا اور عوام خوش حال ہوتے لیکن یہ لوگ سستے میں بک گئے اور سمجھے کہ نواز شریف کا خاتمہ بالخیر انہی کے ہاتھوں ہونے والا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے تین چارہ ماہ قبل یورپی یونین کا دورہ کیا اور بقول شخصے ان کے ذمے پاکستان میں ہونے والے اگلے عام انتخابات کو متنازع بنانے کا ٹاسک لگا ہے جن کو کامیابی سے منعقد کرنے کے لئے کیا اسٹیبلشمنٹ ،کیا عدلیہ ، کیا نواز شریف ،کیا آصف زرداری اور کیا مولانا فضل الرحمن ، ہر کوئی کمربستہ نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ہضم ہی نہیں ہو رہا ہے کہ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نون لیگ میں جاتے جاتے کیونکر پیپلزپارٹی کو پیارے ہو گئے کیونکہ ان کے نزدیک تو نون لیگ جیت رہی ہے اور نہ ہی پیپلز پارٹی جیت رہی ہے ۔یہ لوگ تو اپنے تئیں پی ٹی آئی کو ابھی سے جتوائے بیٹھے ہیں جبکہ جتنے بھی الیکٹ ایبلز ہیں وہ پی ٹی آئی سے یوں بدکے ہوئے ہیں جیسے گھوڑا بُو چھوڑ دینے والے چارے سے بدکا ہوتا ہے۔

اسد شفیق نے سلیکشن کمیٹی کنسلٹنٹ بننے کےلیے مزید وقت مانگ لیا

پی ٹی آئی والوں کو یہ بات پلے نہیں پڑ رہی ہے کہ پاکستان بار کونسل سے لے کر سندھ بار کونسل تک ، وکلاءقیادت نے لیول پلیئنگ فیلڈ کا رخ پی ٹی آئی کی بجائے حلقہ بندیوں کی طرف کیونکر موڑ دیاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب پی ٹی آئی بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کے فلسفے سے کتراتی نظر آتی ہے کیونکہ وکلاءقیادت نے انتخابی ماحول کی مرصع کاری کچھ یوں کی ہے کہ خودپی ٹی آئی کو سمجھ نہیںآرہی ہے کہ وہ اس بیان کی حمائت کرے یا مخالفت کرے۔جس انداز سے بار کونسلوں نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو ریسکیو کیا ہے اس پر تو بیرسٹرعلی ظفر بھی کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ یہ بے وقت کی راگنی ہے۔ یہ ڈس انفارمیشن کا موسم ہے ، اس لئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

چیک ری پبلک : یونیورسٹی میں فائرنگ، 15 افراد ہلاک

اس ماحول میں کسی سے بے جا جھگڑنے کی ضرورت نہیں ہے ، ہر ایک کو اپنے غصے پر قابو رکھنا چاہئے ، زیادہ سے زیادہ اپنا نقطہ نظر بیان کردینا اوراگلے کا سن لینا چاہئے کیونکہ انتخابات ایک ایسا جانگسل مرحلہ ہوتا ہے ماضی میں جس کے بعد مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوا تھا اور اس سے اگلے عام انتخابات کے بعد اس وقت کا مقبول ترین لیڈر پھانسی گھاٹ پہنچا دیا گیا تھا اور مخالفین مٹھائیان بانٹ رہے تھے اور جس قلم سے پھانسی کی سزا لکھی گئی اسے خریدنے کے لئے بولیاں لگارہے تھے۔

QOSHE -   محتاط رہئے ، انتخابات کا وقت ہے - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  محتاط رہئے ، انتخابات کا وقت ہے

7 0
22.12.2023

انتخابات کابگل بج گیا، میدان سجنے کو ہے ، کاغذات نامزدگی داخل کرانے کا مرحلہ شروع اور ہر کوئی نہ صرف محتاط ہوگیا ہے بلکہ سچ پوچھئے تو محتاط ہونا بھی چاہئے کیونکہ آئندہ انتخابات سایوں کے درمیان لڑے جائیں گے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے گھر پر کریکر حملہ خطرے کی وہ گھنٹی ہے جو آئندہ دنوںمیں ملک کو کسی بھی سمت لے جا سکتی ہے ۔ پی ٹی آئی کو شکائت پیدا ہوگئی ہے کہ اس کے امیدواروں سے مبینہ طور پر کاغذات نامزدگی چھینے جا رہے ہیں حالانکہ ایک کاغذات نامزدگی ہی کیا ، پی ٹی آئی سے توامیدوار تک چھینے جا چکے ہیں۔ پی ٹی آئی ”میں چھت سنبھالتاتھاکہ دیوارودر گئے“ ایسی صورت حال کی شکار ہے ، ابھی تو اس کے انتخابی نشان کا بھی پھڈا پڑا ہے اور پی ٹی آئی کے ہر حواری کو دھڑکا لگا ہوا ہے کہ بلے کا نشان چھین کر الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے ہاتھ میں بلی کا نشان تھمادے گی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کبھی پیپلز پارٹی سے تلوار کا نشان لے کر تیر اور نون لیگ سے سائیکل کا نشان لے کر شیر تھمادیا گیا تھا۔

سیالکوٹ میں پی ٹی آئی رہنما آر او آفس سے گرفتار

ادھر پی ٹی آئی کے حامی ٹی وی اینکروں اور تجزیہ کاروں کا عالم یہ ہے کہ جوں جوںانتخابات کی سنجیدگی ماحول پرطاری ہونا شروع ہوئی ہے اور خبریں آنے لگی ہیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہاتھ کی صفائی کا عمل تیز ہوگیا ہے تو........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play