پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کے دور کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں جرم ثابت نہ ہونے کی بنیاد پر معصوم قرار دیتے ہوئے جس طرح سپریم کورٹ نے اسے رائی کا پہاڑ ثابت کیا ہے اس سے ہمیں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے راولپنڈی کے راجہ بازار میں لہرائے جانے والے خط کا معاملہ بھی ایک ڈرامہ لگنے لگا ہے جس کو لہراتے ہوئے بھٹو نے کہا کہ سفید ہاتھی کا خط آگیا ہے ، وہ مجھے عبرت ناک مثال بنانا چاہتا ہے ۔ عوام کا عمومی تاثر یہی ہے کہ جس طرح بھٹو جلسے میں امریکہ کو للکار کر لیڈر بن گئے تھے اسی طرح عمران خان سائفر کو لہرا کر لیڈر بن گئے ہیں بلکہ بھٹو سے بھی بڑے لیڈر بن گئے ہیں اور اب وہ کھمبے کو بھی کھڑا کریں گے تو وہ فروری 2024کے عام انتخابات جیت جائیں گے۔ ہمیں کہنے دیجئے کہ جس طرح سائفر کا مقدمہ درج ہونے پر عمران خان ہیرو سے زیرو ہو گئے تھے سپریم کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کرکے دوبارہ زیرو سے ہیرو کردیا ہے۔ معزز ججوں نے ایک مرتبہ بھی نہیں پوچھا کہ عمران خان نے جعلی کاغذ لہرا کر عوام سے جھوٹ کیوں بولا اور انہیں بے وقوف کیوں بنایا؟یعنی سائفر کو عمران خان سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرے تو حلال اور کوئی دوسرا کرے تو حرام !

پی سی بی کو میڈیا رائٹس فروخت کرنے سے روک دیاگیا

’ہم کوئی غلام ہیں؟‘ کی تکرار تو اب بھی پورا پاکستان نہیں بھولا ہوگا کہ کس طرح اس پر عمران خان کے حق میں سوشل میڈیا پر میم بنے تھے اور گاڑیوں کے پیچھے سٹیکر لگا کر پرچار کیا جاتا تھا ۔ یہی نہیں بلکہ اس سے قبل محض ایک ٹی وی انٹرویو میں Absolutely Notکا شوشہ چھوڑ کر پراپیگنڈہ کیا جانے لگا کہ عمران خان نے امریکہ کو یہ بات کہہ دی ہے جس کی سزا مل رہی ہے ۔ پی ٹی آئی کے نزدیک اس ٹی وی ٹاک شو کا ہوسٹ کوئی عام امریکی نہیں بلکہ امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو تھا جس کے بعد عمران خان کا بوریا بستر گول کرنے کا پروگرام بن گیا ۔ ہم عوام کو بھی کس کس طرح جنرل فیض حمید اور ان کے حواریوں نے بیوقوف بنایا تھا، کوئی ہے جو اس جرم کا حساب لے گا؟

خواجہ آصف کا عثمان ڈار کی والدہ کے الزام کی تحقیقات کا مطالبہ

واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔ ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔ اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیراعظم سامنا کر رہے تھے۔ سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کی جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سرکاری خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز) کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا۔

کمسن بیٹیوں کو واشنگ مشین کے ٹب میں ڈبو کر ہلاک کرنے والے کو سزائے موت

اول تو سپریم کورٹ نے 184(3)کے تحت عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست کو سنا اور پریکٹس اور پروسیجر قانون کی دھجیاں اڑائیں جس میں کہا گیاتھاکہ تب تک کوئی معاملہ 184(3)کے تحت نہیں سنا جائے گا جب تک تین سنیئر ججوں کی کمیٹی فیصلہ نہیں کرے گی کہ آیا ایسی کوئی درخواست قابل سماعت ہے بھی یا نہیں اور دوسرا نقطہ ہے کہ اس فیصلے کے فوراً بعد میڈیا پر ٹرینڈ شروع ہو گیا کہ پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی ۔ کسی نے بھولے سے ذکر نہیں کیا کہ 2018میں سپریم کورٹ نے ایسی ہی لیول پلیئنگ فیلڈ نون لیگ کے لئے کیوں یقینی نہیں بنائی تھی ؟ سچ پوچھئے تو ہمیں تویہ آرمی چیف کے دورہ امریکہ کے اثرات لگتے ہیںکہ نوازشریف کے علاوہ آصف زرداری اور عمران خان کو بھی ، خواہ وقتی طور پر سہی، مگر اکاموڈیٹ کرنا پڑا ہے۔ ایک اور بحث یہ چل نکلی ہے کہ سوشل میڈیا کے پریشر میں ایک بار پھر ثابت کردیا کہ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے۔

پرویز الہٰی طبی معائنے کے بعد ہسپتال سے دوبارہ جیل منتقل

پاکستان میں جنرل مشرف کے دور سے جمہوریت کی طرف Transitionکا سلسلہ شروع ہوا تھاجو آج تک مکمل ہو کر نہیں دے رہا ۔ پاکستانیوں کے نصیب میں مکمل جمہوریت ہے ہی نہیں ، انہیں ایسی ہی لولی لنگڑی جمہوریت کے ساتھ نباہ کرنا پڑے گا ، یہ صدقے کی شادی والامعاملہ ہے جس میں سے خال خال ہی لعل پیدا ہوتے ہیں ، ورنہ تو اکثر و بیشتر لولے ہی جنم لیتے رہتے ہیں جس کی عمدہ مثال ہمارے سیاسی رہنما ہیں!

QOSHE -      بھٹو کا خط بھی ڈرامہ تھا؟ - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     بھٹو کا خط بھی ڈرامہ تھا؟

7 1
24.12.2023

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کے دور کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں جرم ثابت نہ ہونے کی بنیاد پر معصوم قرار دیتے ہوئے جس طرح سپریم کورٹ نے اسے رائی کا پہاڑ ثابت کیا ہے اس سے ہمیں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے راولپنڈی کے راجہ بازار میں لہرائے جانے والے خط کا معاملہ بھی ایک ڈرامہ لگنے لگا ہے جس کو لہراتے ہوئے بھٹو نے کہا کہ سفید ہاتھی کا خط آگیا ہے ، وہ مجھے عبرت ناک مثال بنانا چاہتا ہے ۔ عوام کا عمومی تاثر یہی ہے کہ جس طرح بھٹو جلسے میں امریکہ کو للکار کر لیڈر بن گئے تھے اسی طرح عمران خان سائفر کو لہرا کر لیڈر بن گئے ہیں بلکہ بھٹو سے بھی بڑے لیڈر بن گئے ہیں اور اب وہ کھمبے کو بھی کھڑا کریں گے تو وہ فروری 2024کے عام انتخابات جیت جائیں گے۔ ہمیں کہنے دیجئے کہ جس طرح سائفر کا مقدمہ درج ہونے پر عمران خان ہیرو سے زیرو ہو گئے تھے سپریم کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کرکے دوبارہ زیرو سے ہیرو کردیا ہے۔ معزز ججوں نے ایک مرتبہ بھی نہیں پوچھا کہ عمران خان نے جعلی کاغذ لہرا کر عوام سے جھوٹ کیوں بولا اور انہیں بے وقوف کیوں بنایا؟یعنی سائفر کو عمران خان سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرے تو حلال اور کوئی دوسرا کرے تو حرام !

پی سی بی کو میڈیا رائٹس فروخت کرنے سے روک دیاگیا

’ہم کوئی غلام ہیں؟‘ کی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play