عوام کا راستہ روکنا ملکی مفاد میں نہیں ہے
یوں تو پاکستان میں 76 برس سے حقیقی جمہوریت کا خواب ادھورا ہے۔ 32 برس برائے راست آمریت اور 40 سال آمریت نما جمہوریت نے عوام کو یا تو فیصلے کا اختیار ہی نہیں دیا اور اگر کبھی عوام کو موقع ملا تو عوامی فیصلے کو قبولیت نہ ملی، اسی لیے اب پاکستان کے سارے دانشور اور تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اقتدار کے لیے مقبولیت اور قبولیت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ آج تک جس بھی سیاسی راہنما نے مقبولیت کے زعم میں مقتدرہ سے اپنا راستہ جدا کیا اس کی قسمت میں پھر جیل یا جلاوطنی ہی آئی ہے، جبکہ ایک لیڈر کو تختہ دار پر بھی چڑھا دیا گیا لیکن اس بار تو حد ہی ہو گئی ہے۔ پہلے مائنس ون کی باتیں ہوتی تھیں۔ جیسے 2018 میں بھی مائنس ون کے ساتھ ہی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ لیکن اس بار تو مائنس ون سے بھی بات نہیں بن پا رہی تو پھر ایک جماعت کو نفی کر کے انتخابات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ اب تو پاکستان کے وکلاء، دانشوروں اور سول سوسائٹی سمیت ہر سمت سے یہ آوازیں آنے لگی ہیں کہ ایک جماعت کو باہر رکھ کر 2024 کے انتخابات کسی بھی طرح منصفانہ رہیں گے نہ ملک میں پائیدار جمہوریت کا تصور کیا جا سکے گا اور جو بھی حکومت بنے گی اس کے پاس اخلاقی جواز ہوگا نہ وہ کامیاب ہو سکے گی اور اس ساری صورتحال کا نقصان پاکستان کو ہوگا۔
خیبر؛کسٹمز عملے کی کارروائی، 11 ہزار ممنوعہ بھارتی ادویات برآمدچند روز پہلے پاکستان کے ایک نامور سنئیر صحافی اور کالم نگار انصار عباسی نے تو اپنے ایک بلاگ میں بات واضح کر دی ہے کہ........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website