ان دنوں سرد ہواؤں کا راج ہے۔ یخ بستہ جھونکے جسم سے لپٹ کر دل میں کئی امنگیں جگا جاتے ہیں لیکن کارزارِ سیاست میں گرمی ہے اور سیاست کی یہ گرمی صرف انہی دنوں پر موقوف نہیں یہاں ہمیشہ ہی ایسا چلن رہا ہے اور سیاست؟ تو سیاست محبوبانہ طرز سے رقیبانہ سفر طے کر چکی ہے۔اس لئے اکثر سیاست دانوں کا شعار ہے کہ سیاست کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیجئے ملکی ترقی۔ عوامی خوشحالی اور جمہوریت کے نام پر جمہور کو اس قدر مجبور کیجئے کہ یہ ایک مخمصے کا شکار ہوکر رہ جائیں انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح اور درست غلط کے اسی کھیل میں سیاست دان سیاسی شطرنج کی چال چلتے جارہے ہیں جس میں سیاسی کھلاڑیوں کو کافی حد تک کامیابیاں ملتی رہی ہیں،ہر بار شکست صرف عوام کو ہوئی ہے اور شکست خوردہ عوام ہاتھ مل کررہ جاتے ہیں کہ عوامی مسائل جوں کے توں ہیں۔

پاکستان کا شاندار کم بیک، آسٹریلیا کی پوری ٹیم 318 رنز پر آوٹ کر دی

ایسا نہیں کہ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا بلکہ ایسا ہے کہ بعض اوقات ہم خود ہی مسائل کا حل نہیں چاہتے اور جب ہمارے اندھے اعتماد کے باوجود کوئی ہماری توقعات ہر پورا نہیں اترتایا ہمارے مسائل کا حل تلاش نہیں کرتا تو دل جس قدر دکھتا ہے اسکا اندازہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا، ہم پاکستان کے عوام کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے کہ ہم,عوام, نے اپنے سیاسی رہنماؤں پر اندھا اعتماد کیا ہے اس قدر اندھا کہ راہ چلتے ہم ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتے گئے لیکن ہم نے اپنے سیاسی قائدین کا ساتھ نہ چھوڑا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کا فرمان عالیشان ہے۔ سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو ایک پتھر سے دو بار ٹھوکر کھائے۔ اور ہم نے دو بار نہیں ان پتھر دل سیاستدانوں سے سو بار ٹھوکریں کھائی ہیں لیکن ہمیشہ ہم نے اپنے ووٹ کی دولت کو ان سیاستدانوں کی جھولی میں ڈال دیا ہے جس دولت سے مالا مال ہو کر یہ سیاستدان راج سنگھاسن پر جا بیٹھے اور مسند نشیں ہوتے ہی انہوں نے اپنے عوام کو ایسے فراموش کیا کہ عوام انکا منہ ہی دیکھتے رہ گئے اور پھر کیا ہوا؟اقتدار کا گھوڑا سرپٹ دوڑا اس قدر دوڑا کہ جب دوڑ دوڑ کر تھک کر بیٹھ گیا تو وہی سیاستدان جو عوام کے ووٹ کی دولت پاکر راج سنگھاسن پر بیٹھے تھے عوام کو لچھے دار باتوں میں الجھا کر پھر سے گمراہ کرکے نئے سرے سے نئے وعدوں کے ساتھ دوسری بار بھی انکے ووٹ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور یہ سلسلہ نصف صدی سے جاری ہے اس وقت ملک میں نگران حکومت اپنے جوبن پر ہے وفاقی اور صوبائی سطح پر وزیراعظم اور اور وزیر اعلی عوام کو اپنے جلووں کی بہار دکھا رہے ہیں لیکن عوام کے شعور پر نگران حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی جو کاری ضرب لگائی تھی اسکی ٹیسیں ابھی تک انکے ذہن و دل سے اٹھ رہی ہیں جناب انوار الحق کاکڑ صاحب نے آتے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو اضافہ کیا اس نے عوام کی چیخیں نکلوا دیں رہی سہی کسر بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے پوری کردی بجلی کی قیمتیں بھی اس قدر بڑھا دی گئیں کہ پورا پاکستان بجلی کی۔قیمتوں میں اضافے پر سراہا احتجاج ہوا شہریوں نے خود کشیاں کیں ماؤں نے بجلی کے بل ادا کرنے کیلئے اپنی بیٹیوں کا جہیز تک بیچ ڈالا باپ ایک بل کی ادائیگی کیلئے دن بھر مارا مارا پھرا لیکن ایک بل جمع کرانے کی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا اور جب وہی بل اور بھی اضافے سے دوسرے ماہ آگیا تو لوگوں کا کیا حشر ہواسب نے دیکھا بھوک اور ننگ بڑھی والدین نے اپنے بچوں سمیت اپنی جانیں دیں کسی نے زہر پھانک لیا تو کسی نے خود کودریاکی موجوں میں بہا دیا لیکن حکمرانوں کی جانب سے عوام کو رتی برابر ریلیف نہ دیا گیا بلکہ اس میں اور بھی اضافہ ہوا بجلی کی قیمت بڑھا دی گئی اور عوامی احتجاج اور خود کشیوں کے باوجود بجلی کی قیمتوں میں کمی کی بجائے اضافہ عوام کو آئینہ دکھانا تھا کہ یہ ہے آپ عوام کی حقیقت۔۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا؟

ہم قیام پاکستان کے بعد کے حالات کا جائزہ لیں تو شرما کررہ جائیں یہاں جو بھی اقتدار میں آیا اس نے حالات کا عارضی حل تلاش کیا مستقل بنیادوں پر پاکستان کے استحکام کا کسی نے کچھ نہیں سوچا نہ عوام کی خوشحالی کسی کو منظور رہی ہم نے ایٹم بم بنا لیا لیکن معاشی استحکام کے لئے ہم کچھ نہیں کرسکے ہر بار ہم نے آئی ایم ایف کے آگے دست طلب دراز کیا اتنا دراز کیا کہ ہمارا پھیلا ہوا ہاتھ دنیا بھر میں صاف دکھائی دیا اور ہاتھ پھیلاؤ پالیسی کو سلسلہ طویل ہوکر یہاں تک آپہنچا کہ ہاتھ پھیلانا گویا ہمارا ٹریڈ مارک بن کررہ گیا اب تو دنیا ہمیں قرض دینے سے بھی گریزاں ہے دنیا اس احتمال سے ہمیں قرض دینے سے گریز کرتی ہے کہ ہم اس قرض کو واپس کرنے کے اہل بھی ہونگے کہ نہیں نتیجتاً کیا ہوابجلی۔پٹرول بلکہ جہاں جہاں حکمرانوں کے خیال کا پرندہ پرواز کرتا ہے عوام پر ٹیکس پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے اب بجلی کے بلوں میں عوام پر جو ٹیکس لگا دئیے گئے ہیں کیا وہ جائز بھی ہیں؟لیکن جائز ناجائز دیکھتا ہی کون ہے یہی وجہ ہے کہ عوام کو جائز ناجائز ہر طرح سے لوٹا جارہا ہے عوام کے لیے کوئی راہ نہیں بچی کہ جتنا بڑا احتجاج بجلی کی قیمتوں کے اضافے پر عوام کرچکے ہیں جتنی جانیں عوام گنوا چکے ہیں اس کے بعد بھی حکمران جب عوام کے احتجاج یا خود کشیوں کو خاطر میں نہیں لائے تو اب عوام کے لئے ایک ہی راستہ بچا ہے وہ آنے والے عام انتخابات میں درست فیصلے کا راستہ ہے اگر عوام نے اب کے بار بھی درست فیصلہ نہ کیا تو عوام کو زندگی گذارنے کے لیے اپنے گھر فروخت کرنا پڑجائیں گے اور رہنے کے لیے پھر جنگلوں کا رخ کرنا ہوگا کہ یہ شہر تو رہنے کے لئے جو خراج مانگتے ہیں وہ دینے کے لیے عوام کے پاس اب کچھ نہیں باقی نہیں بچا۔

ملک میں فارمی انڈوں کی قیمت میں ایک مرتبہ پھر اضافہ، فی درجن نرخ 400روپے سے تجاوز کر گئے

QOSHE -        شہر تو خراج مانگتے ہیں  - ندیم اختر ندیم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       شہر تو خراج مانگتے ہیں 

11 0
27.12.2023

ان دنوں سرد ہواؤں کا راج ہے۔ یخ بستہ جھونکے جسم سے لپٹ کر دل میں کئی امنگیں جگا جاتے ہیں لیکن کارزارِ سیاست میں گرمی ہے اور سیاست کی یہ گرمی صرف انہی دنوں پر موقوف نہیں یہاں ہمیشہ ہی ایسا چلن رہا ہے اور سیاست؟ تو سیاست محبوبانہ طرز سے رقیبانہ سفر طے کر چکی ہے۔اس لئے اکثر سیاست دانوں کا شعار ہے کہ سیاست کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیجئے ملکی ترقی۔ عوامی خوشحالی اور جمہوریت کے نام پر جمہور کو اس قدر مجبور کیجئے کہ یہ ایک مخمصے کا شکار ہوکر رہ جائیں انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح اور درست غلط کے اسی کھیل میں سیاست دان سیاسی شطرنج کی چال چلتے جارہے ہیں جس میں سیاسی کھلاڑیوں کو کافی حد تک کامیابیاں ملتی رہی ہیں،ہر بار شکست صرف عوام کو ہوئی ہے اور شکست خوردہ عوام ہاتھ مل کررہ جاتے ہیں کہ عوامی مسائل جوں کے توں ہیں۔

پاکستان کا شاندار کم بیک، آسٹریلیا کی پوری ٹیم 318 رنز پر آوٹ کر دی

ایسا نہیں کہ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا بلکہ ایسا ہے کہ بعض اوقات ہم خود ہی مسائل کا حل نہیں چاہتے اور جب ہمارے اندھے اعتماد کے باوجود کوئی ہماری توقعات ہر پورا نہیں اترتایا ہمارے مسائل کا حل تلاش نہیں کرتا تو دل جس قدر دکھتا ہے اسکا اندازہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا، ہم پاکستان کے عوام کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے کہ ہم,عوام, نے اپنے سیاسی رہنماؤں پر اندھا اعتماد کیا ہے اس قدر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play