ناں عمران خان کی طرح مخالفین کوگالیاں دینے کا شوق ناں بلاول بھٹو ایسا اقتدار کے لئے اوتاولا پن، ناں آصف زرداری کی طرح ایک کے بعد ایک انٹرویو اور ناں صبح و شام قوم سے خطاب، نواز شریف ایسے کیوں ہو گئے ہیں؟ ان کا حال تو یہ ہے اس کے باوجود کہ وہ وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار سمجھے جا رہے ہیں، کسی ٹی وی چینل یا کسی جغادری صحافی کو ابھی تک ایک انٹرویو نہیں دیا ۔ گزشتہ دنوں ایک سنیئر صحافی،جو ہر اعلیٰ سے اعلیٰ سرکاری و غیر سرکاری تقریب کا لازمی حصہ ہوتے ہیں، سے پوچھا کہ کیا ان کی نواز شریف سے ملاقات ہوئی ہے تو کہنے لگے کہ ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ پھر پوچھا کہ آیا کسی اور نامور اور سنیئر صحافی کی ملاقات ان کے علم میں ہے تو اس پر بھی نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہنے لگے کہ لگتا ہے کہ نواز شریف صحافیوں سے نالاں ہیں کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے بدلتے ہی اس برادری نے کیسے اپنا قبلہ تبدیل کرلیا تھا۔ اس پر ہمیں یاد آیا کہ چند ہفتے قبل سلیم صحافی صاحب نے ایک کمرے میں بیٹھ کر سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا انٹرویو کیا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ صافی صاحب نے نواز شریف سے انٹرویو کی درخواست کی ہو گی اور انہوں نے آہستگی سے اسحٰق ڈار کو آگے کر دیا ہو، اس کے بعد ڈار صاحب مہر بخاری کو بھی انٹرویو دیتے پائے گئے تھے اور اب تو نون لیگ کی جانب سے میڈیا کے محاذ پر بالکل خاموشی ہے، ایک نواز شریف ہی کیا، مریم نواز اور شہباز شریف بھی میڈیا سے پرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تحریک انصاف کو بلوچستان ہائیکورٹ کی جانب سے بلے کا نشان واپس لینے کے خلاف حکم امتناع ملا اور شاہزیب خانزادہ نے نون لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کو انٹرویو کیا تو بالاصرار پوچھا کہ آخر نون لیگ کی پالیسی کیا ہے کیونکہ وہ الیکٹرانک میڈیا پر نظر آتی ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر ایکٹو ہے جبکہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔دوسری جانب اس کے باوجود کہ عمران خان پابند سلاسل ہیں، پی ٹی آئی میڈیا اور سوشل میڈیا پر حاوی ہے،اس پر رانا ثناء اللہ نے پوچھا کہ کیا انتخابات میڈیا کے ٹاک شوز پر ہونے ہیں یا سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کو گن کر کسی پارٹی کے جیتنے یا ہارنے کا اعلان ہونا ہے۔ شاہزیب خانزادہ کا اندر کا دکھ کھل کر سامنے آگیا اور کہنے لگے کہ مریم اورنگ زیب جب وزیر اطلاعات تھیں تو وقت نہ دیتی تھیں اور اب بالکل ہی خاموش ہیں جس پر رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ 10جنوری کے بعد نواز شریف بھی میدان میں نظر آئیں گے اور ان کی پارٹی بھی ہر دو محاذوں پر موجود ہو گی۔ کچھ ایسی ہی بات گزشتہ شب سنیئر صحافی نصرت جاوید بھی کر رہے تھے کہ صبح سے شام تک میڈیاپر پی ٹی آئی ڈسکس ہو رہی ہوتی ہے، کبھی بلے کا نشان چھن جانے پر تو کبھی نشان واپس مل جانے پر، کبھی سائفر کا فلوس اڑجانے پر تو کبھی شاہ محمود قریشی کو ادھکڑ عمر میں پولیس کے ہاتھوں دھکے کھانے پر لیکن نون لیگ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔

ایک اور امریکی ریاست نے ڈونلڈ ٹرمپ کو پرائمری الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا

شاہزیب خانزادہ اور نصرت جاوید کی بات سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا میڈیا نواز شریف یا ان کی پارٹی کی جانب سے پی ٹی آئی کی بدحالی پر بیان بازی کو کس قدر ترسا ہوا ہے کیونکہ انہیں بات کرنے کے لئے کوئی بہانہ نہیں مل رہا ہے۔ میڈیا کی اب بھی شدید خواہش لگتی ہے کہ ادھر نواز شریف کہیں کہ ’حضور یہ ہیں وہ ذرائع‘اور وہ شام کے پروگراموں میں ارشاد بھٹی اور عارف حمید بھٹی کے ہاتھوں اس فقرے کی گت بنوا کر نواز شریف کے خلاف اپنے دل کا ساڑ نکالیں لیکن انہیں ایسا کوئی موقع نہیں مل رہا۔

بہرحال سوال پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف ایسے کیوں ہو گئے ہیں حالانکہ ان کے بارے میں تو کہا جاتا تھا کہ وہ میڈیاکو لفافے لگانے والے سیاستدان ہیں، کبھی بتایا جاتا تھا کہ ان کے ہاتھ سے کسی جرنلسٹ نے گھڑی اتروالی تھی تو کبھی کہا جاتا تھاکہ کسی صحافی کو ایک پلاٹ دیا گیا تو بڑے میاں صاحب نے کہا کہ ایک نہیں دو دیں تاکہ وہ ایک کو بیچ کر دوسرے پر گھر بناسکے وغیرہ وغیرہ! پھراسی طرح مرحوم رؤف طاہر بتایا کرتے تھے کہ کس طرح نواز شریف جاتی عمرہ کے لان میں لگائے گئے ٹینٹ میں رات کو محفل لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی میاں محمد بخش کا کلام سنتے ہیں تو کبھی کسی کے لطیفے پر کھلکھلا کر ہنستے پائے جاتے ہیں۔ جن دنوں عمران خان اور طاہرالقادری نے ڈی چوک پر دھرنا دیا ہواتھا تب جناب امتیاز عالم نے بتایا کہ صحافیوں کے ساتھ ایک ملاقات میں نواز شریف نے علامہ طاہرالقادری کے حوالے سے ایک لطیفہ سنا کر محفل کو ہنسنے پر مجبور کردیا تھا۔

لندن ائیرپورٹ پر تیز ہواؤں نے جہاز کو ہلا کر رکھ دیا

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف نے عمر کے اس حصے میں اور لندن کی جلاوطنی کے دوران اپنے ماضی کا بخوبی جائزہ لیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہین کہ انہوں نے سیاست کی دوڑ میں اپنے پیارے کھو دیئے۔ ان کے ماں باپ اوراہلیہ ان کی سیاست پر قربان ہو گئے۔ اس نتیجے نے انہیں مغموم ہی نہیں کیا اندر سے بجھا کر رکھ دیا ہے اور اب جبکہ پارٹی کی خواہش ہے کہ اس کے سربراہ کو چوتھی بار ملک کا وزیر اعظم بننے کا ٹائٹل مل جائے اور اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ وہ امید نو بن کر اسے کو عوام کی خونخوار نظروں سے ریسکیو کروائیں تو نواز شریف نے سیاسی بیٹھکیں شروع تو کردی ہیں لیکن وہ سیاسی طور پر ابھی بھی متحرک نہیں ہوئے ہیں جو ہمارے ملک کے نظام انصاف کے منہ پر زناٹے دار طمانچے سے کم نہیں ہے!

والد کو الیکشن لڑنے سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے، شاہ محمود قریشی کی بیٹی کا بیان

QOSHE -          نواز شریف ایسا کیوں ہو گیا؟ - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         نواز شریف ایسا کیوں ہو گیا؟

10 0
29.12.2023

ناں عمران خان کی طرح مخالفین کوگالیاں دینے کا شوق ناں بلاول بھٹو ایسا اقتدار کے لئے اوتاولا پن، ناں آصف زرداری کی طرح ایک کے بعد ایک انٹرویو اور ناں صبح و شام قوم سے خطاب، نواز شریف ایسے کیوں ہو گئے ہیں؟ ان کا حال تو یہ ہے اس کے باوجود کہ وہ وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار سمجھے جا رہے ہیں، کسی ٹی وی چینل یا کسی جغادری صحافی کو ابھی تک ایک انٹرویو نہیں دیا ۔ گزشتہ دنوں ایک سنیئر صحافی،جو ہر اعلیٰ سے اعلیٰ سرکاری و غیر سرکاری تقریب کا لازمی حصہ ہوتے ہیں، سے پوچھا کہ کیا ان کی نواز شریف سے ملاقات ہوئی ہے تو کہنے لگے کہ ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ پھر پوچھا کہ آیا کسی اور نامور اور سنیئر صحافی کی ملاقات ان کے علم میں ہے تو اس پر بھی نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہنے لگے کہ لگتا ہے کہ نواز شریف صحافیوں سے نالاں ہیں کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے بدلتے ہی اس برادری نے کیسے اپنا قبلہ تبدیل کرلیا تھا۔ اس پر ہمیں یاد آیا کہ چند ہفتے قبل سلیم صحافی صاحب نے ایک کمرے میں بیٹھ کر سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا انٹرویو کیا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ صافی صاحب نے نواز شریف سے انٹرویو کی درخواست کی ہو گی اور انہوں نے آہستگی سے اسحٰق ڈار کو آگے کر دیا ہو، اس کے بعد ڈار صاحب مہر بخاری کو بھی انٹرویو دیتے پائے گئے تھے اور اب تو نون لیگ کی جانب سے میڈیا کے محاذ پر بالکل خاموشی ہے، ایک........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play