پاکستانی عدلیہ کے ایک حصے کو ان دنوں انصاف سے نہیں اپنی ساکھ سے مطلب ہے تو دوسرے کو انصاف سے کم اور تحریک انصاف سے زیادہ مطلب دکھائی دیتا ہے۔ تصور کیجئے کہ اگر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال تحریک انصاف کو 9 مئی سے قبل انتخابات لے کر دینے میں کامیاب ہو جاتے تو آج پی ڈی ایم کی جماعتوں سمیت عوام کے ایک بڑے حصے کی کیا درگت بن چکی ہوتی۔

اب بھی اگر ایک طرف سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نظام انصاف کی ساکھ بحال کرنے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب لاہور اور پشاور ہائیکورٹس میں موجود 'باقیات' تحریک انصاف کو بحال کرنے میں جتی ہوئی ہیں اور پرو پی ٹی آئی فیصلے کر رہی ہیں۔ یہی نہیں خود پی ٹی آئی بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی ناقد بنی ہوئی ہے اور سیاسی حلقوں میں ان کی رشتہ داریاں بھی زیر بحث ہیں۔ ایسے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اصل چیلنج خود عدالتی بنچوں کی تطہیر ہے۔

یوکرین کا روس پر جوابی حملہ، 14 افراد ہلاک

ہمارے ہاں نظام عدل کی اینٹ پہلے دن سے ٹیڑھی رکھ دی گئی جب جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت آئین ساز اسمبلی کو چلتا کرکے ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا جنازہ نکال دیا تھا۔ اگر تب ہمیں ایک متفقہ آئین مل جاتا اور سیاستدانوں کو ملکی باگ ڈور سنبھالنے کا حق مل جاتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ تب سے ملکی سیاست پر اسٹیبلشمنٹ کی تجاوزات کی ایسی بھرمار ہوئی کہ ہر دس سال بعد عوام اینٹی انکروچمنٹ آپریشن تو کرتی ہے مگر اگلے دس سالوں میں پھر سے تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ آج سپریم کورٹ جائزہ لے رہی ہے کہ کس طرح ماضی کی سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو ناحق پھانسی پر لٹکا دیا تھا اور کیا واقعی تب کے جج صاحبان دبا_¶ کا شکار تھے۔ اگر واقعی عدالت اسی نتیجہ پر پہنچی تو عوام کا پاکستان کے نظام انصاف پر رہا سہا اعتبار بھی جاتا رہے گا۔ پہلے ہی لوگ باتیں کرتے ہیں کہ جج صاحبان جھگڑے کی زمین خرید کر خود ہی اپنے حق میں فیصلے بھی دے لیتے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر قانون فواد چودھری کی جانب سے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے لئے ”ٹرک کھڑا ہے،اس کا کیا کرنا ہے “کے استعارے کو کیا کیا معنی نہیں پہنائے گئے ہیں۔ اسی طرح جب عمران خان مسرت چیمہ سے کہتے پائے گئے کہ ان کی ضمانت کے لئے ”اعظم, سے بات کرو“ تو خواجہ آصف نے حامد میر کے پروگرام میں بتایا تھا کہ پولیس”اعظم “کا کوڈ ورڈ چیف جسٹس کے لئے استعمال کرتی ہے۔ بعد کے واقعات نے اس بات کو سچ بھی ثابت کر دیا جب عمران خان کو کمرہ عدالت میں دیکھتے ہی سابق چیف جسٹس بندیال کے دل کا چور ان کی زبان پر آ گیا اور وہ بے اختیار پکار اٹھے ”گڈ ٹو سی یو!“

وہ حلقہ جہاں سب سے زیادہ کاغذاتِ نامزدگی مستردہوئے

اب بھی عدلیہ کے فیصلوں اور تبصروں کو سن اور پڑھ کر لگتا ہے کہ وہ لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر عمران خان کو بے جا ریلیف اور لاڈلا کے نام پر نواز شریف کے ساتھ بے انصافی کو انصاف کا نام دیئے ہوئے ہے اور میڈیا کا ایک حصہ بھونپو بنا ہوا ہے اور دوسری جانب عوام اپنی جائیدادوں کے تنازعے عدالتوں میں لے جانے سے کتراتے پائے جاتے ہیں۔ ریاست طیبہ میں انصاف کی ایسی صورت حال کیونکر ممکن ہے!

اعلیٰ عدلیہ میں جس طرح ججوں کی سلیکشن ہوتی ہے، اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ وکلاءمیں سے ججوں کی تلاش کا طریقہ ہمیں بہت مہنگا پڑتا ہے کیونکہ اس عمل میں سے قاضی فائز عیسیٰ ایسے موتی خال خال ہی ملتے ہیں۔ قانون جاننے اور انصاف کے تقاضوں کو سمجھنے میں فرق ہوتا ہے۔ وہی وکیل جو اپنے کلائنٹ کے لئے ہر طرح کے سچ جھوٹ کو جائز جان کر وکالت چمکاتے ہوئے ناموری پا لے، وہ انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر اپنے ماضی اور مزاج سے کیسے پیچھا چھڑوا سکتا ہے؟ اس کے برعکس قاضی القضاءکے عہدہ جلیلہ پر فائز ہونے کے لئے جس طبعی میلان اور مزاج کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا تقاضا کچھ اور ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ پی ٹی وی کے مارننگ شو کی معروف میزبان عائشہ ثناءنے بتایا کہ وہ فتویٰ کے حصول کے لئے جامعہ اشرفیہ گئیں تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ مفتی صاحب ایک چھوٹے سے حجرے میں چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ارد گرد کتابوں کا ڈھیر لگا ہو تھا۔ عائشہ ثناءنے مدعا بیان کیا، فتویٰ لیا اور واپس مڑنے سے قبل ان سے کہا کہ مولوی صاحب آپ میرے مارننگ شو میں تشریف لائیں تو انہوں نے مسکرا کر کہا”بیٹی ہم ٹی وی والے مولوی نہیں ہیں۔“

پنجاب کے بعد خیبرپختونخوا میں بھی سکولوں کی چھٹیوں میں توسیع

ججوں کا انتخابی طریقہ کار تبدیل کیا جائے۔ ان کی تربیت بطور جج کے ایام نوجوانی سے کی جائے اور تربیت کے آغاز سے ہی مناسب مشاہرہ مقرر کیا جائے۔ یہ ادارہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی طرز پر قائم ہو جہاں ججوں کو جملہ قوانین کی تربیت دی جائے ناں کہ فوجداری کے وکیل کو فوجداری جج اور دیوانی مقدمات کے وکیل کو دیوانی ججج مقرر کردیا جائے اور کارپوریٹ وکیل کو کمپنی جج لگا دیا جائے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک نامور وکیل نے اپنے نالائق وکیل بیٹے سے متعلق بات کرتے ہوئے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر اس کی وکالت نہ چل سکی تو میں اس کو جج لگوادوں گا۔ اسی طرح سرکاری وکلاءکو جج کے طور پر تعینات کرنے کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیئے کیونکہ وہ جج بن کر بھی سرکار کی وکالت میں جتے رہتے ہیں اور عوام کے حقوق کی پاسداری پس پشت ڈالے رکھتے ہیں ۔

چاہت فتح علی خان کے کاغذات نامزدگی مسترد ،وجہ کیا بنی ؟ جانیے

ججوں کو ہی ججوں کا احتساب بھی نہیں سونپ دینا چاہئے ۔ اس کے لئے ایک علیحدہ اتھارٹی بنائی جائے جو ججوں کے فیصلوں کی بو کو سونگھتی رہے اور فیصلوں کے جائزہ کا اختیار بھی رکھتی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ انصاف کا سستا اور فوری حصول بھی یقینی بنایا جائے جس کے لئے وکلاءکی فیسوں کو بھی ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

QOSHE -      پاکستان کا ججی نظام - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

     پاکستان کا ججی نظام

12 0
31.12.2023

پاکستانی عدلیہ کے ایک حصے کو ان دنوں انصاف سے نہیں اپنی ساکھ سے مطلب ہے تو دوسرے کو انصاف سے کم اور تحریک انصاف سے زیادہ مطلب دکھائی دیتا ہے۔ تصور کیجئے کہ اگر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال تحریک انصاف کو 9 مئی سے قبل انتخابات لے کر دینے میں کامیاب ہو جاتے تو آج پی ڈی ایم کی جماعتوں سمیت عوام کے ایک بڑے حصے کی کیا درگت بن چکی ہوتی۔

اب بھی اگر ایک طرف سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نظام انصاف کی ساکھ بحال کرنے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب لاہور اور پشاور ہائیکورٹس میں موجود 'باقیات' تحریک انصاف کو بحال کرنے میں جتی ہوئی ہیں اور پرو پی ٹی آئی فیصلے کر رہی ہیں۔ یہی نہیں خود پی ٹی آئی بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی ناقد بنی ہوئی ہے اور سیاسی حلقوں میں ان کی رشتہ داریاں بھی زیر بحث ہیں۔ ایسے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اصل چیلنج خود عدالتی بنچوں کی تطہیر ہے۔

یوکرین کا روس پر جوابی حملہ، 14 افراد ہلاک

ہمارے ہاں نظام عدل کی اینٹ پہلے دن سے ٹیڑھی رکھ دی گئی جب جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت آئین ساز اسمبلی کو چلتا کرکے ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا جنازہ نکال دیا تھا۔ اگر تب ہمیں ایک متفقہ آئین مل جاتا اور سیاستدانوں کو ملکی باگ ڈور سنبھالنے کا حق مل جاتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ تب سے ملکی سیاست پر اسٹیبلشمنٹ کی تجاوزات کی ایسی بھرمار ہوئی کہ ہر دس سال........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play