فیصلے کا حق
انتخابی سرگرمیوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے،تمام تر قیاس آرائیوں ، اندیشوں اور وسوسوں کے باوجود انتخابی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے گئے ہیں،اور اب ان کی سکروٹنی کا عمل جاری ہے۔تحریک انصاف کے متعلقین اور متوسلین کو شکایات پیدا ہوئی ہیںکہ کئی مقامات پر ریٹرننگ افسر ان کے کاغذات قبول کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہے تھے۔یہ بھی کہا جاتا رہا کہ پولیس امیدواروں کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔یہ الزامات بھی لگائے گئے کہ امیدواروں کے تجویز اور تائید کنندگان کو ہراساں کیا جا رہا ہے لیکن معاملات بے قابو نہیں ہو پائے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے باقاعدہ اعلان ہوا ہے کہ اسے جو47شکایات موصول ہوئی تھیں، سب کو نبٹا دیا گیا ہے۔تمام وہ امیدوار جنہوں نے کاغذات نامزدگی جمع نہ ہونے کے بارے میں شکایات کی تھیں،ان کے کاغذات جمع کرائے جا چکے ہیں۔گویا اب کوئی شکایت کرنے والا ایسا نہیں رہا جس کی شنوائی نہ ہوئی ہو۔کمیشن کا یہ اعلامیہ قابلِ اطمینان ہے،اور اس کی کارکردگی کا ایک واضح ثبوت،لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے رکاوٹیں پیدا کیوں کی جا رہی تھیں،پولیس اہلکاروں کو یہ جسارت کیوں ہو رہی تھی،اور وہ یہ سب کچھ کس کے اشارے پر کر رہے تھے؟اگر شوقیہ مشق شروع کر دی گئی تھی، تو بھی معاملہ افسوسناک ہے،اور اگر نادیدہ عناصر ہدایات دے رہے تھے تو بھی افسوسناک،بلکہ اِس سے بڑھ کر کچھ اور ہے۔وفاق اور تمام صوبوں میں اِس وقت نگران حکومتیں کام کر رہی ہیں، انہیں انتخابی عمل کو شفاف رکھنے کی آئینی ذمہ داری سونپی گئی ہے اگر ان کی موجودگی میں بھی بعض انتظامی کل پرزے غیر ذمہ دارانہ حرکات و سکنات کا مظاہرہ کر سکتے ہیںتوپھر ان کے جواز ہی پر سوالات اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website