پچھلے چند روز سے پاکستان کا بیشتر حصہ دن کے بیشتر حصے میں دھند کے اندر غائب رہتا ہے اور عوام کی اکثریت اس دھند سے متاثر ہو رہی ہے۔ شام ڈھلے سے اگلی دوپہر تک موٹر ویز کے متعدد علاقے بند رہتے ہیں جس سے کام پر جانے والوں کے لئے مشکلات کے علاوہ تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات، ہسپتالوں کی طرف سفر کرنے والے بیماروں اور دوسرے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ادھر نگران حکومتیں بالخصوص پنجاب کی نگران حکومت پچھلے کئی ہفتوں سے سر توڑ کوشش کر رہی ہے کہ اس دھند سے جان چھڑائی جا سکے، لیکن حکومت کی تمام کوششیں ابھی تک رائیگاں ہی نظر آتی ہیں. ہمارے حکمرانوں کا مسلہ یہ ہے کہ یہ آنے والے وقت کی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے سب وقتی حربے استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں دنیا سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یورپ کی کئی حکومتیں بالخصوص اسیکنڈنیوین ممالک کئی دہائیوں سے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے عوام کو بروقت معلومات فراہم کیں اور عوام سے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف مدد کی اپیل کی، جس کے نتیجے میں آج ان ممالک میں یہ مسئلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے شروع سے ہی حقیقی مسائل کا ادراک کیا نہ ان کے حل کے لئے کوئی منصوبہ بندی کی۔ سب حکومتوں نے سطحی سیاست کو اپنایا اور وقتی فوائد کے زیر اثر اقدامات کرتے رہے، جس طرح پرویز مشرف دور میں جگہ جگہ سی این جی اسٹیشن بنوا دئیے گئے یہ نہ سوچا کہ ہمارے ملک میں گیس کے ذخائر کتنے ہیں یا نئے ذخائر تلاش کرنے کا کام کتنا ہو رہا ہے۔ بعد میں نہ صرف ملک سے سی این جی ناپید ہوئی بلکہ جگہ جگہ لگے سی این جی اسٹیشن بیکار ہو گئے۔ میرا موضوع دھند ہے تو عرض یہ کرنا ہے کہ دہائیوں کی بے ترتیبی کو ہفتوں میں درست نہیں کیا جا سکتا، اب جو ہو چکا اس کو بھگتنا پڑے گا لیکن ہمیں مستقبل کی فکر کرنی چاہئے اور مستقبل کو سامنے رکھ کر 5،10،15 اور 25 سالہ پالیسیاں ترتیب دینا ہوں گی۔

بھینسوں، بندروں اور ہرنوں کو کھا جانے والی چھپکلی

اس کے لئے چند ایک تجاویز گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے ملک کے طول و عرض پر پھیلے کوڑے کے ڈھیروں کو سنبھالیں اور کوڑے کی ری سایئکلنگ کا فوری انتظام کیا جائے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان ریلوے سمیت پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو درست کریں، کوڑے کی ری سائیکلنگ سے گیس پیدا کر کے اسی گیس سے بسیں چلائی جا سکتی ہیں، جن سے آلودگی پر قابو ڈالا جا سکتا ہے۔ نیز اگر عام آدمی کو اچھی پبلک ٹرانسپورٹ مل جائے تو پھر سڑکوں پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے رش کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ تیسرے نمبر پر گھروں کے اندر پانی کے بے جا استعمال کو روکنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ہر گھر کے اندر 10 گھروں جتنا پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ ہاتھ منہ دھوتے وقت، دانت صاف کرتے یا شیو کرتے ہوئے ٹونٹی کو کھول کر رکھنے سے بیسیوں لیٹر پانی فضول میں بہایا جاتا ہے۔اگر حکومت مختلف طریقوں سے عوام میں اس کا شعور پیدا کرے کہ گھروں میں پانی کے بے جا استعمال کو روکنا ہے۔ تو اس میں بہتری آ سکتی ہے۔ اس کے بعد درختوں کو لگانا اور درختوں کی حفاظت کرنا بھی آلودگی پر قابو پانے کے لئے بے حد ضروری ہے۔ پاکستان کی آبادی کی اکثریت آج بھی دیہات پر مشتمل ہے جہاں اکثر علاقوں میں چولہے بھی لکڑی سے جلائے جاتے ہیں اور جنگل سے لکڑی کی کٹائی بھی جاری رہتی ہے اگر ان دیہات کو مختلف طریقوں سے گیس پیدا کرنے کی ترغیب دی جائے اور لکڑی کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے تو اس سے ماحولیاتی آلودگی کو بچایا جا سکتا ہے، اس کے بعد مختلف فیکٹریوں اور بھٹہ خشت سے اٹھنے والے دھوئیں اور آلودگی کو روکنے کے لئے درست اقدامات کی ضرورت ہے۔ مندرجہ بالا تجاویز پر عمل کروانے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے میڈیا مہم کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں، مساجد اور لوکل کونسلوں سے بھی کام لیا جا سکتا ہے،اس حوالے سے میں جو آخری بات کہنا چاہتا ہوں وہ بڑھتی آبادی پر قابو پانا ہے۔جب تک ہم اپنی تیزی سے بڑھتی آبادی پر قابو نہیں پاتے اس وقت تک بے شمار مسائل سر اٹھاتے رہیں گے اور کسی بھی شعبے کی منصوبہ بندی کرنا مشکل ہوگا۔

اقرا کنول کو شادی کے بعد پہلا جھٹکا ؟ یوٹیوب چینل ہیک ہوگیا

یہ تو تھی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے چھائی دھند کی بات، لیکن ہمارے ملک پر اس وقت جو سیاسی ماحول پر دھند چھائی ہوئی ہے، اس کا سد ِباب ماحولیاتی آلودگی والی دھند سے بھی زیادہ اہم ہے،جب تک ملک پر اس طرح بے اعتمادی کے بادل اور نفرت کی دھند چھائی رہے گی اس وقت تک ملک کا مستقبل مخدوش رہے گا،ابھی تک 2024ء کے عام انتخابات کی نہ تو وہ گہماگہمی سامنے آئی ہے، نہ کسی کو یہ سمجھ آ رہی ہے کہ آگے کیا کرنا یا کیا ہونا ہے، سیاسی ماحول میں نفرت بے اعتمادی اور بے یقینی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں، ان حالات میں ان انتخابات کو منصفانہ سمجھا جا سکتا ہے نہ آنے والی حکومت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے بلکہ افراتفری میں اضافے کا خدشہ موجود ہے، اس دھند سے نجات کے لیے اس خاکسار کی ایک ہی تجویز ہے۔ کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ خود کو سیاست سے مکمل طور پر الگ کرے اور عوام کو اپنی مرضی سے فیصلے کرنے دئیے جائیں۔ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر کئی سوالیہ نشانات ہیں اور نگران حکومتیں بھی اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے میں کلی طور پر ناکام ہیں۔ عوام کا اداروں پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے،جو ملکی سلامتی کے لئے انتہائی خطرناک ہے، اس لئے اس طرف فوری توجہ دی جانی چاہئے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آئندہ غلطیوں کے ارتکاب سے گریز کیا جانا چاہئے۔

’پہلی محبت 10 سال کی عمر میں ہوئی لیکن مجموعی طور پر کتنی لڑکیوں نے مسترد کیا؟ عامر خان نے انکشاف کردیا

اب ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہے کہ ہمیں اس دو طرفہ دھند سے نجات حاصل کرنی ہے یا یہ دھند اسی طرح پاکستان پر چھائی رہے گی۔

QOSHE -       کیا پاکستان پر ایسے ہی دھند رہے گی؟؟ - مختار چودھری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      کیا پاکستان پر ایسے ہی دھند رہے گی؟؟

11 0
02.01.2024

پچھلے چند روز سے پاکستان کا بیشتر حصہ دن کے بیشتر حصے میں دھند کے اندر غائب رہتا ہے اور عوام کی اکثریت اس دھند سے متاثر ہو رہی ہے۔ شام ڈھلے سے اگلی دوپہر تک موٹر ویز کے متعدد علاقے بند رہتے ہیں جس سے کام پر جانے والوں کے لئے مشکلات کے علاوہ تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات، ہسپتالوں کی طرف سفر کرنے والے بیماروں اور دوسرے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ادھر نگران حکومتیں بالخصوص پنجاب کی نگران حکومت پچھلے کئی ہفتوں سے سر توڑ کوشش کر رہی ہے کہ اس دھند سے جان چھڑائی جا سکے، لیکن حکومت کی تمام کوششیں ابھی تک رائیگاں ہی نظر آتی ہیں. ہمارے حکمرانوں کا مسلہ یہ ہے کہ یہ آنے والے وقت کی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے سب وقتی حربے استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں دنیا سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یورپ کی کئی حکومتیں بالخصوص اسیکنڈنیوین ممالک کئی دہائیوں سے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے عوام کو بروقت معلومات فراہم کیں اور عوام سے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف مدد کی اپیل کی، جس کے نتیجے میں آج ان ممالک میں یہ مسئلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے شروع سے ہی حقیقی مسائل کا ادراک کیا نہ ان کے حل کے لئے کوئی منصوبہ بندی کی۔ سب حکومتوں نے سطحی سیاست کو اپنایا اور وقتی فوائد کے زیر اثر اقدامات کرتے رہے، جس طرح پرویز مشرف دور میں جگہ جگہ سی این جی اسٹیشن بنوا دئیے گئے یہ نہ سوچا کہ ہمارے ملک........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play