ہم خواب دیکھتے ہیں۔رات بستر پر خوابوں کی رنگین اور دلکش وادیاں ہمیں تمام محرومیوں سے بے نیاز کرکے ایک رات کیلئے شہزادہ بنا دیتی ہیں جسے آپ خوابوں کا شہزادہ بھی کہہ سکتے ہیں خوابوں کے شہزادے ہر رات اپنی خوابگاہ میں آنکھیں موندتے ہی شہزادے بن جاتے ہیں اور صبح ہوتے ہی حقائق کی تلخیاں رگ جاں میں کڑواہٹیں گھول دیتی ہیں لیکن خوابوں کے شہزادے پھر بھی خوش ہوتے ہیں کہ انہیں نیند تو آتی ہے لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو بستر کی ہر کروٹ پر آہ بھر کر رہ جاتے ہیں کہ انہیں نیند بھی نہیں آتی کہ وہ سو کر خواب ہی دیکھ سکیں ایک اضطراری کیفیت میں مبتلا بستر پر کروٹیں بدلتے جب تھک جائیں تو اٹھ کرآسمان کو دیکھنے لگتے ہیں جس پر چمکتا ہوا چاند ہے جگمگاتے ہوئے ستارے ہیں اور وہ چاند ستاروں کو دیکھتے ہوئے خواب دیکھنے لگتے ہیں اسے آپ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا کہہ سکتے ہیں بظاہر انکی نظر چاند ستاروں پرہوتی ہے لیکن تخیل کی دنیا انہیں کہیں اور پہنچا دیتی ہے جہاں آرزوؤں کی دنیا آباد ہوتی ہے اس دنیا کی تتلیاں اسے اپنا طواف کرتی محسوس ہوتی ہیں خواہشوں کے جگنو دور تک راستوں کو روشن کئے ہوتے ہیں خوشیاں بانہیں پھیلائے اپنی طرف آنے کے اشارے کرتی ہیں اور جونہی وہ انکی طرف قدم اٹھاتا ہے تو تخیل ٹوٹ کر اسے افسردہ اور آزردہ کردیتا ہے۔آسمان سے نظریں ہٹاتے ہوئے وہ سوچتا ہے کہ اپنے خوابوں کی تعبیر آخر کیسے پائے؟ یہی سوچ اسے تھکا دیتی ہے اور تھکی ہوئی سوچ سے مضمحل وہ پھر اپنے بستر پر دراز ہو جاتا ہے جہاں پھر سے کروٹوں کا سلسلہ صبح تک اسے بیدار رکھتا ہے دن بھر وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے مارا مارا پھرتا ہے اور تھک کر شام ہوتے ہی بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی راہ لیتا ہے اور صبح وشام کا یہ سلسلہ مہینوں سالوں میں بدلتا ہے لیکن اسکے حالات نہیں بدلتے ہم نئے سال میں داخل تو ہوچکے ہیں لیکن سال کے بدلنے سے بھی ہمارے حالات نہیں بدلتے حالات کے آگے جیسے کسی نے کوئی بند باندھ رکھا ہے حالات بدلیں بھی تو کیسے کہ ایک ہی کلاس میں پڑھنے والی ایف ایس سی کی دو طالبات میں سے کم نمبر لینے والی ڈاکٹر بن جاتی ہے اور زیادہ نمبروں والی گھر بیٹھے سوچتی ہے کہ کیا پیسہ تعلیم سے زیادہ اہم ہے؟جس کے زور پر کم نمبر لینے والی پرائیویٹ کالجز یونیورسٹیز میں داخلہ لے کر ایم۔بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرکے مریضوں کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے

محکمہ موسمیات کی 4جنوری سے بارش کی پیش گوئی

جو پرائیویٹ یونیورسٹیز اسکے ساتھ بھاری بھرکم فیسیں لے کر کرتی ہیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہاں تعلیم یافتہ ہونا لازم نہیں دولت مند ہونا ضروری ہے تاکہ آپ لاکھوں روپے لگا کر ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ تو پھر ڈگریوں کی سیل کیوں نہیں لگادی جاتی کہ پیسے دیجئے ڈگریاں لیجئے بلکہ سیل ہی تو لگی ہے ہر کوئی پیسہ پھینکتا ہے اور تماشا دیکھتا ہے اور پڑھے لکھے لوگ اس تماشے کو دیکھتے ہوئے کڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں کاش انہوں نے تعلیم نہیں پیسہ کمایا ہوتا اور یہی سوچ کرپشن کی راہیں ہموار کرتی ہے کچھ کرپشن کے کیڑے بھی ہوتے ہیں جنکے پاس سب کچھ ہے اچھی نوکری، گھر، گاڑی لیکن وہ کرپشن کئے بغیر قرار نہیں پاتے اور کرپشن کے یہ کیڑے پاکستان کے ہر محکمے میں پائے جاتے ہیں ان زہریلے کیڑے مکوڑوں نے ہمارے محکموں کو پامال کرکے رکھ دیا ہے۔ آپکا کام میرٹ پر ہوتا ہے لیکن یہ کیڑے آپکا کام ہونے نہیں دیتے تعلیم۔صحت جیسے محکمے بھی ان کیڑوں سے پاک نہیں کئے گئے اور محکموں میں چھوٹی سی چھوٹی پوسٹ پر تعینات یہ کیڑے بڑے بڑے افسروں تک رسائی رکھتے ہیں اور کرپشن کا پھیلتا ہوا عفریت چھوٹے ملازموں سے بڑے افسروں تک جا پہنچتا ہے اور جب کرپشن چھوٹوں سے بڑوں تک پہنچتی ہے تو چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جاتا ہے ان چھوٹے بڑے کیڑوں نے پاکستان کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے اور پاکستان کو اس حصار سے کوئی نکالتا ہوابظاہر نظر بھی نہیں آتا البتہ انتخابات آتے جاتے ہیں یہی سلسلہ قیام پاکستان سے ہنوز جاری ہے۔اس وقت پھر پاکستان میں انتخابات کی نوید سنائی دے رہی ہے کسی کو الیکشن التواء کا شکار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کوئی انتخابات کو ابھی سے متنازعہ قرار دے رہا ہے تو پھر حالات کیسے بدلیں گے۔ سال تو بدل رہے ہیں لیکن حالات نہیں بدل رہے۔میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے حالات کی تاریخ پر غور کرتا ہوں تو چائنہ سے امریکہ تک سب کے حالات ایسے ہی مخدوش تھے لیکن سب نے ترقی کا ایک ہی اصول اپنایا وہ ہے محنت اور'دیانتداری'سب نے دیانتداری سے کام لیا اور ترقی یافتہ ممالک کہلوائے دیانتدار صرف حکمران ہی نہیں بلکہ عوام نے بھی دیانتداری کو اپنا شعار بنایا اپنے قوانین پر عمل کیا محنت کی سچی لگن سے چلتے رہے اور چلتے چلتے ترقی کی اس منزل پر آپہنچے کہ آج دنیا امریکہ چائنہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک کو رشک سے دیکھتی ہے

سپریم کورٹ؛ مسلم لیگ ق کے سابق ایم این اے خادم حسین کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہلی درست قرار

بلکہ آج ہمارے پاکستانی ایسے ممالک میں اپنا محفوظ مستقبل تلاش کررہے ہیں وہاں رہنے زندگی گذارنے کو ترجیح دے رہے ہیں صد حیف کہ پاکستان کہ جسے لازوال قربانیوں کے بعد اس لئے حاصل کیا کہ یہاں سب آزادانہ طور پر رہ سکیں اور ہم نے اس پاکستان کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ جسکا بس چلتا ہے وہ یہاں سے چلتا بنتا ہے کوئی لندن۔کوئی امریکہ کوئی کینیڈا تو کوئی یورپ میں پناہ لینے کیلئے پر تول رہا ہے چائنہ جب ترقی کے مراحل طے کررہا تھا تو وہاں کے حکمرانوں نے کرپشن کا خاتمہ کیا ملک کو مقدم جانا وہاں کے عوام نے بھی ترقی حاصل کرنے کے لیے کھانے میں سادہ غذائیں شروع کردی تھیں پھر جا کر ترقی کے راستے دکھائی دئیے ہمارے ہاں آج چھہتر ستتر سالوں بعد بھی سیاستدان اور عوام کی ذہنی حالت خود غرضیوں کے سمندر میں غوطے کھا رہی ہے ہم میں سے کوئی کسی سیاسی جماعت کا ہے کوئی کسی جماعت اور کوئی کسی کا ہم نہ اپنے ہیں نہ اپنے ملک کے ہماری وابستگیاں سیاستدانوں اور اپنے مفادات سے جڑی ہیں ہم اپنے ملک سے مخلص نہیں ہیں جس شخص کا کسی سیاسی قائد سے قریبی تعلق ہے وہ اچھی نوکری کا حقدار ٹھہرتا ہے اور اچھے کاروبار کا بھی جسکا کوئی عزیز کسی بھی محکمے میں افسر ہے وہ اچھی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے یا جس کے۔پاس محکموں میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑوں سے کچھ تعلق ہے تو وہ انکی مٹھی گرم کرکے میٹھا مستقبل پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو حالات کیسے بدلیں گے جب تک حالات نہیں بدلتے سالوں کے بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔نئے سال پر پرانا قطعہ ملاحظہ فرمائیے:

پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات اور بلے کا نشان کیس، پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

اے دوست مسیحاؤں کے احوال وہی ہیں

بیمار وہی ان کے مہہ و سال وہی ہیں

ہم پہ جو مسلط تھے وہی لوگ ہیں اب تک

جو روگ تھے کل تک ہمیں تاحال وہی ہیں

QOSHE -        چھوٹے بڑے کیڑے - ندیم اختر ندیم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       چھوٹے بڑے کیڑے

9 0
03.01.2024

ہم خواب دیکھتے ہیں۔رات بستر پر خوابوں کی رنگین اور دلکش وادیاں ہمیں تمام محرومیوں سے بے نیاز کرکے ایک رات کیلئے شہزادہ بنا دیتی ہیں جسے آپ خوابوں کا شہزادہ بھی کہہ سکتے ہیں خوابوں کے شہزادے ہر رات اپنی خوابگاہ میں آنکھیں موندتے ہی شہزادے بن جاتے ہیں اور صبح ہوتے ہی حقائق کی تلخیاں رگ جاں میں کڑواہٹیں گھول دیتی ہیں لیکن خوابوں کے شہزادے پھر بھی خوش ہوتے ہیں کہ انہیں نیند تو آتی ہے لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو بستر کی ہر کروٹ پر آہ بھر کر رہ جاتے ہیں کہ انہیں نیند بھی نہیں آتی کہ وہ سو کر خواب ہی دیکھ سکیں ایک اضطراری کیفیت میں مبتلا بستر پر کروٹیں بدلتے جب تھک جائیں تو اٹھ کرآسمان کو دیکھنے لگتے ہیں جس پر چمکتا ہوا چاند ہے جگمگاتے ہوئے ستارے ہیں اور وہ چاند ستاروں کو دیکھتے ہوئے خواب دیکھنے لگتے ہیں اسے آپ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا کہہ سکتے ہیں بظاہر انکی نظر چاند ستاروں پرہوتی ہے لیکن تخیل کی دنیا انہیں کہیں اور پہنچا دیتی ہے جہاں آرزوؤں کی دنیا آباد ہوتی ہے اس دنیا کی تتلیاں اسے اپنا طواف کرتی محسوس ہوتی ہیں خواہشوں کے جگنو دور تک راستوں کو روشن کئے ہوتے ہیں خوشیاں بانہیں پھیلائے اپنی طرف آنے کے اشارے کرتی ہیں اور جونہی وہ انکی طرف قدم اٹھاتا ہے تو تخیل ٹوٹ کر اسے افسردہ اور آزردہ کردیتا ہے۔آسمان سے نظریں ہٹاتے ہوئے وہ سوچتا ہے کہ اپنے خوابوں کی تعبیر آخر کیسے پائے؟ یہی سوچ اسے تھکا دیتی ہے اور تھکی ہوئی سوچ سے مضمحل وہ پھر اپنے بستر پر دراز ہو جاتا ہے جہاں پھر سے کروٹوں کا سلسلہ صبح تک اسے بیدار رکھتا ہے دن بھر وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے مارا مارا پھرتا ہے اور تھک کر شام ہوتے ہی بوجھل قدموں کے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play