پاکستان کا المیہ شروع دن سے رہا ہے جو بھی حکومت آتی ہے وہ عوام کو سہولت دینے کا پلان بناتی ہے اور ساتھ ہی عوام کو پتہ چلتا ہے سہولت یا عوام کا فائدہ اس منصوبے میں کم تھا عوام کو لوٹنے کا پروگرام زیادہ تھا۔ مجھے یاد ہے لندن پلٹ ہماے ہر د لعزیز گورنر پنجاب چودھری سرور نے حلف اٹھایا اور عوام میں نکلے، عوامی بننے کا شوق اُنہیں شروع سے ہی تھا انہوں نے ہسپتالوں کے دورے کئے، اُنہیں معلوم ہوا ہسپتالوں میں موٹر سائیکل حادثات کا شکار نوجوان سب سے زیادہ آتے ہیں، زخمی نوجوانوں کے حادثہ کی زیادہ وجہ ہیلمٹ نہ پہننا ہے گورنر پنجاب نے اخلاص سے صوبہ بھر میں موٹر سائیکل سواروں کے لئے ہیلمٹ لازمی قرار دیا اور ہزاروں ہیلمٹ مفت تقسیم کیے اُنہی دِنوں سوشل میڈیا میں ایک خبر وائرل ہوئی گورنر پنجاب کا سارا منصوبہ ہیلمٹ فروخت کرنے کا تھا، حالانکہ مجھے اس خبر سے اتفاق نہیں تھا۔

سینئر بھارتی اداکار راکیش بیدی کو نوسرباز نے بڑی رقم سے محروم کردیا

حادثات واقعی موٹر سائیکلوں کے زیادہ ہوتے ہیں اور ہماری نوجوان نسل ہی اس کا شکار ہوتی ہے ہمارے ہر دلعزیز وزیراعلیٰ پنجاب جو اپنے آپ کو نگران کہلانا پسند نہیں کرتے نگران کہنا بھی نہیں چاہتے نگران تو دِنوں یا چند مہینوں کا ہوتا ہے انہوں نے تو ریکارڈ کام کر کے محسن سپیڈ کا لقب حاصل کر لیا ہے۔ سابق گورنر پنجاب کی طرح وہ بھی جنونی ہیں جدھر طے کر لیتے ہیں سپیڈ پکڑ لیتے ہیں ہسپتالوں کے بعد ان کی توجہ کا مرکز بھی موٹر سائیکل سوار نوجوان اور بالخصوص بچے بنے اور پھر انہوں نے ٹریفک پولیس کو اس طرف لگایا،ٹریفک پولیس تو ایسے کام ڈھونڈتی ہے اس نگران وزیراعلیٰ کے بچوں کی ڈرائیونگ پر پابندی کی آڑ میں جو کھیل لاہور ٹریفک پولیس نے کھیلا اس کو کسی صورت حوصلہ افزاء قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کمسن بچوں کو پابند ِ سلاسل کرنے اور سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے، ایف آئی آر کے اندراج کا عمل تو کئی دن تک جاری رہا، مگر عملاً ٹریفک پولیس کی جو اپنی اصل ذمہ داری ٹریفک کی بحالی، کی طرف توجہ کم ہی آتی ہے اس کو تو کوئی موقع چاہئے انہوں نے نہیں دیکھا میاں بیوی ہیں یا بہن بھائی،باپ بیٹی ہیں یہ بھی نہیں دیکھا پردے والی فیملی ہے بس ان کو موقع ملنا چاہئے ہیلمٹ نہیں ہے، لائسنس نہیں ہے، عمر کم ہے چالان ہو گا، گاڑی بند ہو گی، موٹر سائیکل بند ہو گی،کاغذات نہیں ہیں موٹر سائیکل اور سوار دونوں بند ہوں گے ساری باتیں کہانی نہیں ہیں میرے پاس عملی ثبوت موجود ہے۔والدین کی مجبوریوں کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے، بچہ گھر سے کیوں نکلنے پر مجبور ہوتا ہے؟ سب چیزوں کو پس ِ پشت ڈالتے ہوئے غریب امیر، بچہ، جوان، بزرگ سب کو لاہور پولیس نے لتاڑ کر رکھ دیا ہے پھر ہوا چلی وزیراعلیٰ نے حکم دیا ہے لرنر لائسنس کم از کم ہونا ضروری ہے وزیراعلیٰ نے پورے لاہور کے نوجوانوں کو لرنر لائسنس کے پیچھے لگا دیا۔ نوجوانوں کو24گھنٹے کھلنے والے خدمت سنٹروں میں سردی کے موسم میں لمبی لمبی قطاروں میں رات12بجے بھی دیکھا، کسی نے وزیراعلیٰ کو بتایا لرنر لائسنس کی فیس60روپے ہے بہت کم ہے اس سے فائدہ اٹھایا جائے پھر اس کی فیس100روپے کرنے کا اعلان ہو گیا، نوجوان جو اشارہ توڑتے ون وے کی خلاف ورزی،ہیلمٹ کے نہ ہونے اور لائسنس نہ ہونے کے بھاری جرمانوں سے تنگ تھے انہوں نے دھڑا دھڑ لرنر لائسنس بنوانا شروع کر دیئے،نگران حکومت کو پتہ چلا یہ منافع بخش کاروبار ہے، ہزاروں نوجوان تمام مراکز میں 24گھنٹے فیس جمع کرا رہے ہیں انہوں نے فوری طور پر لرنر فیس500روپے کر دی ہے لائسنس بنوانا،ہیلمٹ خریدنا سب کچھ تو عوام کو حادثات سے بچانے اور قانون پر عملدرآمد کے لئے کیا جاتا ہے، میرے سمیت عوام یہی سمجھ رہی تھی کہ نگران وزیراعلیٰ کی ساری ایکسر سائز پاکستان کے مستقبل نئی نسل کو محفوظ بنانے کے لئے ہے گزرتے دِنوں کے ساتھ بھید کھل رہا ہے لرنر لائسنس اور اس کی تحریر سے شروع ہونے والا کھیل 60روپے فیس سے500 تک جا پہنچا ہے اور کمر توڑ مہنگائی اور مہنگے تعلیمی اخراجات سے تنگ حکومتیں ہمیشہ لانگ ٹرم پالیسی بناتی ہیں تاکہ عوام کی خواری کم کی جا سکے اور عوام کو گھر بیٹھے زیادہ سے زیادہ سہولتیں باہم پہنچائی جا سکیں اس لئے گزشتہ حکومتوں نے دیگر ممالک کی طرح پاسپورٹ پانچ سال سے بڑھا کر دس سال کرنے کا منصوبہ دیا اور فیسوں میں بھی معمولی اضافہ کیا، ہماری نگران حکومت نے لانگ ٹرم پالیسی کی بچائے ڈنگ ٹپاؤ اور وقتی ریلیف زیادہ سے زیادہ ریونیو اکٹھا کرنے کا منصوبہ متعارف کروایا ہے اس کو اگر کہا جائے عوام کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ لرنر لائسنس فیس تو60روپے سے 100روپے کرنا ٹھیک تھا اب نئے سال سے500 کر دی گئی ہے جو ظلم ہے اِس سے بڑھ کر ہر سال فیس دینا ہو گی یہ ظلم عظیم ہو گا۔ موٹر کار، جیپ کی لائسنس فیس جو950 سالانہ تھی وہ بڑھا کر 1800 روپے سالانہ کر دی گئی ہے،5000 کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، عوام حیران ہیں گزشتہ 75 سالوں میں اتنا اضافہ نہیں ہوا اب اچانک 1000فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ان اقدامات سے نگرانوں کے اچھے کام بھی اب سوالیہ نشان بننے لگے ہیں محسن سپیڈ جلد بازی میں بننے والے انڈر پاسز اور اوور بریج پر بھی کوئی ٹیکس نہ لگا دے۔ نگران حکومت نے منتخب حکومتوں کے رُکے ہوئے کام جلدی میں مکمل کر کے دِل جیت لئے تھے،مگر لرنر لائسنس کی فیسوں میں 100فیصد سے زائد اضافہ اور پھر تمام فیس سالانہ بنیادوں پر ادائیگی کی شرط عجیب منطق ہے۔لائٹ ٹرانسپورٹ کی پانچ سالہ فیس950روپے تھی وہ بھی نئے سال سے 2000روپے کر دی گئی ہے، کہا جا رہا ہے5000روپے ہو گی، معذور افراد کی لرنر لائسنس معاف کر دی گئی ہے اس کی کیا تحسین کی جائے، معذور کتنے فیصد ہیں جو موٹر سائیکل اور کار چلاتے ہیں۔نگران حکومت پنجاب کے عوام الناس کے لئے تازہ ترین کیے گئے اقدامات ایسا لگتا ہے جیسے عوامی خددمت کم اور کاروبار زیادہ ہے۔نگران وزیراعلیٰ کو فیسوں میں اضافے اور پانچ سال کی بجائے تمام فیس سال بعد ادا کرنے کے فیصلے مسلط کرنے کی بجائے مشاورت کے عمل کو آگے بڑھانا ہو گا۔ آئین کی پاسداری کے لئے نوجوانوں کے مستقبل اور زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لئے شروع کیے گئے اقدامات نظر آنا چاہئیں یہ عوامی خدمت، سہولت اور ضرورت کے لئے سب کچھ کیا جا رہا ہے نہ کہ عوام میں حکومتی اقدامات نفرت کا باعث بنیں، عوام میں تاثر جائے کہ لائسنس وہ بچوں کا ہو یا بڑھوں کا جانوں کی حفاظت اور قانون کی بالادستی کے لئے بنائے جا رہے ہیں۔حکومت کو اس تاثر کو زائل کرنا ہو گا،60روپے کی فیس بڑھانا ہے تو100روپے کر دی جائے 500 کرنا،اس سے بڑھ کر ہر سال فیس لینا ظلم عظیم ہے۔ نگران وزیراعلیٰ کو فوری نوٹس لے کر بڑھائی گئی فیسوں کو واپس لینے کا اعلان کرنا چاہئے۔

بیٹی ایرا کی شادی پر عامر خان کا سابقہ اہلیہ کو بوسہ

٭٭٭٭٭

QOSHE -     ڈرائیونگ لائسنس ضرورت یا کاروبار - میاں اشفاق انجم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    ڈرائیونگ لائسنس ضرورت یا کاروبار

13 0
05.01.2024

پاکستان کا المیہ شروع دن سے رہا ہے جو بھی حکومت آتی ہے وہ عوام کو سہولت دینے کا پلان بناتی ہے اور ساتھ ہی عوام کو پتہ چلتا ہے سہولت یا عوام کا فائدہ اس منصوبے میں کم تھا عوام کو لوٹنے کا پروگرام زیادہ تھا۔ مجھے یاد ہے لندن پلٹ ہماے ہر د لعزیز گورنر پنجاب چودھری سرور نے حلف اٹھایا اور عوام میں نکلے، عوامی بننے کا شوق اُنہیں شروع سے ہی تھا انہوں نے ہسپتالوں کے دورے کئے، اُنہیں معلوم ہوا ہسپتالوں میں موٹر سائیکل حادثات کا شکار نوجوان سب سے زیادہ آتے ہیں، زخمی نوجوانوں کے حادثہ کی زیادہ وجہ ہیلمٹ نہ پہننا ہے گورنر پنجاب نے اخلاص سے صوبہ بھر میں موٹر سائیکل سواروں کے لئے ہیلمٹ لازمی قرار دیا اور ہزاروں ہیلمٹ مفت تقسیم کیے اُنہی دِنوں سوشل میڈیا میں ایک خبر وائرل ہوئی گورنر پنجاب کا سارا منصوبہ ہیلمٹ فروخت کرنے کا تھا، حالانکہ مجھے اس خبر سے اتفاق نہیں تھا۔

سینئر بھارتی اداکار راکیش بیدی کو نوسرباز نے بڑی رقم سے محروم کردیا

حادثات واقعی موٹر سائیکلوں کے زیادہ ہوتے ہیں اور ہماری نوجوان نسل ہی اس کا شکار ہوتی ہے ہمارے ہر دلعزیز وزیراعلیٰ پنجاب جو اپنے آپ کو نگران کہلانا پسند نہیں کرتے نگران کہنا بھی نہیں چاہتے نگران تو دِنوں یا چند مہینوں کا ہوتا ہے انہوں نے تو ریکارڈ کام کر کے محسن سپیڈ کا لقب حاصل کر لیا ہے۔ سابق گورنر پنجاب کی طرح وہ بھی جنونی ہیں جدھر طے کر لیتے ہیں سپیڈ پکڑ لیتے ہیں ہسپتالوں کے بعد ان کی توجہ کا مرکز بھی موٹر سائیکل سوار نوجوان اور بالخصوص بچے بنے اور پھر انہوں نے ٹریفک پولیس کو اس طرف لگایا،ٹریفک پولیس تو ایسے کام ڈھونڈتی ہے اس نگران........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play