چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے سارے رولز آف بزنس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سینیٹر دلاور خان کو 8فروری کو ہونے والے انتخابات کو ملتوی کرنے کی ”سازش“ رچانے کا موقع دے دیا۔ اس سے قبل یہ سازش پی ٹی آئی کی جانب سے ہوئی تھی جب اس کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں آراوز کی تعیناتی کے خلاف درخواست دائر ہوئی تھی ۔ تب پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر کہتے پائے گئے تھے کہ ایسی درخواست نہیں دائر ہونی چاہئے تھی اور اب سینیٹر شیریں رحمن کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی کو قرارداد کی مخالفت کرنی چاہئے تھی۔

مولانا فضل الرحمان اہم ترین دورے پر آج کابل روانہ ہوں گے

کیا عجب حسن اتفاق ہے کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی یکے بعد دیگرے انتخابات کو التوامیں ڈالنے کی سازش کرتی پکڑی گئی ہیں ۔کیا 2018ءکی طرح ابھی بھی زرداری نیازی بھائی بھائی ہیںاور کوئی فرق ہے تو بس یہ کہ 2018ئکے انتخابات میں پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کی بی ٹیم بنی ہوئی تھی اور اب پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے ۔

پی ٹی آئی کا اصرار ہے کہ وہ پنجاب سمیت ملک بھر کی مقبول جماعت ہے اور اسے پورا اعتماد ہے کہ 8فروری کو اس کے ووٹر سپورٹر پولنگ اسٹیشنوں کا رخ اس انداز میں کریں گے کہ لگ پتہ جائے گا لیکن کیا کیا جائے کہ پی ٹی آئی کو ایسا ہی اعتماد 9مئی کو بھی تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کی خبر سن کر لوگ دیوانہ وار گھروں سے نکل آئیں گے اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے لیکن آن گراﺅنڈ صرف تربیت یافتہ ، تنخواہ دار اورحلف اٹھانے والے کارکن ہی باہر نکلے جنھوںنے فوجی تنصیبات پر چڑھائی کردی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر 8فروری کو بھی ایسا ہی ہوا تو پی ٹی آئی کے پاس سوائے دھاندلی کا شور مچانے کے اور کیا بچے گا؟ یہی وجہ ہے کہ مخصوص ٹی وی اینکرز 2018ءمیں جتنا زور نواز شریف کو نااہل ثابت کرنے میں لگارہے تھے اس سے زیادہ زور اب عمران خان کو اہل کرنے میں صرف کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بار بار کہتے پائے جاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے بغیر 8فروری کے انتخابات کی کیا ساکھ ہو گی؟ ان کاخیال ہے کہ ان کا یہ چورن بک جائے گا لیکن دوسری جانب نواز شریف، جنرل عاصم منیر اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی کچی گولیاںنہیں کھیلے ہوئے جن میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ تینوں کے تینوں نے عمران خان کی حکومت کے ہاتھوں گہرے زخم کھائے ہوئے ہیں اور اب وہ کسی صورت عمران خان اور ان کے پیچھے کارفرما قوتوں کو کھل کھیلنے کا موقع دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اور جانتے ہیں کہ کس طرح انتخابات کی ساکھ کو یقینی بنانا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اس وقت ان کی طرف کھڑا ہے ۔اسی لئے مخصوص ٹی وی اینکروں کو اس بات کا قلق ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے ملک بھر میں جو تشویش پائی جاتی ہے، وہ چیف جسٹس کے ریمارکس سے نہیں جھلکتی، جبکہ عوام کا ماننا ہے کہ تشویش نظر آئے نہ آئے ، سپریم کورٹ میں قانون کی عملداری ہوتی ضرور نظر آ رہی ہے ۔ جس طرح انگریزی میں کہاجاتا ہے کہ جہاں بہت سارے خانسامے اکٹھے ہو جائیں وہاں کھانے کا ناس ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح پی ٹی آئی میں اتنے وکلاءاکٹھے ہو گئے ہیں کہ اس پارٹی کا ناس مچ گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں بھی ایسے وکلاءکی تعداد حد سے بڑھ کر ہے جن کا ماضی میں پیپلز پارٹی سے تعلق رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے پی ٹی آئی کس برتے پر کہتی ہے کہ وہ عوام کی نمائندہ جماعت ہے جب ان کی نمائندگی وہ لوگ کر رہے ہیں جن کو عوام کی اکثریت پیپلز پارٹی کی صورت میں مسترد کر چکی ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا؟

اس دھماچوکڑی میں الیکشن کمیشن نے ایک نیکی کا کام یہ کیا ہے کہ پرائیویٹ ٹی وی چینلوں پر جھوٹے سروں کی آڑ میں پی ٹی آئی کے لئے ہونے والے پراپیگنڈے پر پابندی لگادی ہے۔ اگرچہ اس پر ہمارا مین سٹریم میڈیا بہت سیخ پا ہورہا ہے لیکن اگر ہمسایہ ملک بھارت کا الیکشن کمیشن انتخابات سے قبل وہاں کے وزیراعظم مودی کے بارے میں بننے والی فلم کی نمائش پر پابندی عائد کر سکتاہے کہ اس سے ووٹروں کی رائے متاثر ہونے کا خطرہ ہے تو پاکستان میں غیر سائنسی بنیادوں من مرضی کے ٹی وی سروں پر پابندی عائد ہونے پر اس قدر سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے ، خاص طور پر جب ٹی وی پر بیٹھے ہوئے تجزیہ کار اور اینکر صاحبان کھلے بندوںنواز شریف سے دشمنی اور باقیوں سے دوستی کا حق ادا کرتے نظر آرہے ہوں۔

سوئی سدرن گیس کمپنی نے 48 گھنٹوں کے لیے سی این جی سٹیشن بند کرنے کا اعلان کردیا

پی ٹی آئی کو قوی امید تھی کہ عمیر نیازی ایڈووکیٹ کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس ہونے ،خرم لطیف کھوسہ کی گرفتاری اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے موقع پر وکلاءکی گرفتاریوں پر وکلاءکی تحریک بپا ہو جائے گی لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ وکلاءبرادری کے کان پر جوں تک نہیں رینگی،اور یہ ویسی ہی صورت حال بن گئی ہے جب ارشد شریف کے قتل اور عمران ریاض کی گرفتاری پر عمران خان شکوہ کناں ہوا کرتے تھے کہ صحافی برادری ان واقعات پر احتجاج کے لئے کیوں نہیں نکلی، حالانکہ صحافی ہوں ،و کلاءہوں یا عام عوام ، وہ تو اس وقت بھی نہیں نکلے تھے جب وزیر آباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا ۔ تعجب ہے کہ پھر بھی ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ عمران خان پاکستان کے انتہائی مقبول سیاستدان ہیں ۔ کیا نامعقول بات ہے کہ بار بار الٹ ثابت ہونے کے باوجود بتایا جا رہاہے کہ عمران خان مقبول سیاستدان ہیں !

رضا ہارون نے پاکستان پیپلز پارٹی میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کردیا

QOSHE -        زرداری نیازی بھائی بھائی؟ - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       زرداری نیازی بھائی بھائی؟

15 0
07.01.2024

چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے سارے رولز آف بزنس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سینیٹر دلاور خان کو 8فروری کو ہونے والے انتخابات کو ملتوی کرنے کی ”سازش“ رچانے کا موقع دے دیا۔ اس سے قبل یہ سازش پی ٹی آئی کی جانب سے ہوئی تھی جب اس کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں آراوز کی تعیناتی کے خلاف درخواست دائر ہوئی تھی ۔ تب پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر کہتے پائے گئے تھے کہ ایسی درخواست نہیں دائر ہونی چاہئے تھی اور اب سینیٹر شیریں رحمن کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی کو قرارداد کی مخالفت کرنی چاہئے تھی۔

مولانا فضل الرحمان اہم ترین دورے پر آج کابل روانہ ہوں گے

کیا عجب حسن اتفاق ہے کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی یکے بعد دیگرے انتخابات کو التوامیں ڈالنے کی سازش کرتی پکڑی گئی ہیں ۔کیا 2018ءکی طرح ابھی بھی زرداری نیازی بھائی بھائی ہیںاور کوئی فرق ہے تو بس یہ کہ 2018ئکے انتخابات میں پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کی بی ٹیم بنی ہوئی تھی اور اب پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے ۔

پی ٹی آئی کا اصرار ہے کہ وہ پنجاب سمیت ملک بھر کی مقبول جماعت ہے اور اسے پورا اعتماد ہے کہ 8فروری کو اس کے ووٹر سپورٹر پولنگ اسٹیشنوں کا رخ اس انداز میں کریں گے کہ لگ پتہ جائے گا لیکن کیا کیا جائے کہ پی ٹی آئی کو ایسا ہی اعتماد 9مئی کو بھی تھا کہ عمران........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play