حکومتوں کے ہتھکنڈے
انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا، سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں سرگرم ہیں۔کہیں امیدواروں کی فہرست کو آخری شکل دی جا رہی ہے،تو کہیں امیدواروں کو نااہلی سے بچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔تحریک انصاف اور عمران خان پر وہی (بلکہ اِس سے بھی کہیں زیادہ) افتاد آن پڑی ہے،جو گزشتہ انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کا جینا حرام کیے ہوئے تھی۔ آج عمران خان پس ِ دیوارِ زنداں ہیں،ان کا سیاسی مستقبل بے یقینی کے بھنور میں ہے۔ سپریم کورٹ،الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کی تمام تر فعالیت کے باوجود بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے،جو نہیں ہونا چاہئے۔ایسا کیوں ہو رہا ہے،اور کون کر رہا ہے،ہمارا مستقبل اس کے صحیح جواب سے بندھا ہے۔آج پرانی فائلوں کی چھان پھٹک کر رہا تھا کہ فروری2020ءمیں لکھا ہوا ایک کالم سامنے آ گیا، دِل میں آیا کہ اِسے ایک بار پھر نذرِ قارئین کر دیا جائے کہ ع نہ تم بدلے، نہ دِل بدلا،نہ دِل کی آرزو بدلی۔
مولانا فضل الرحمان اہم ترین دورے پر آج کابل روانہ ہوں گے....................
چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، اور جاوید ہاشمی کوٹ لکھپت جیل میں جرمِ بغاوت کی سزا بھگت رہے تھے۔نواز شریف اور ان کے خاندان کے کئی افراد جیل کی سلاخیں توڑ کر جدہ جا چکے تھے۔جاوید ہاشمی مسلم لیگ(ن) کے قائم مقام صدر بنائے گئے۔راجہ ظفر الحق کو چیئرمین کا منصب سونپا گیا، دونوں اپنے اپنے رنگ میں اپنا اپنا نقش جمانے لگے۔جاوید ہاشمی جلد ہی گرفتارِ بلا ہو گئے۔وہ براہِ راست جنرل پرویز مشرف کی زد میں تھے، اور ان کے ساتھ ہمدردی یا تعلق کا اظہار موصوف کو ناگوار گذرتا تھا۔انہی کے اقتدار کے دوران جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔یہ واردات لاہور کے ایک تھانے میں ہوئی، اور شنید یہ تھی کہ اس کی نگرانی ایک باوردی افسر کر رہے تھے۔ جنرل پرویز مشرف لاہور........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website