نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے ویژن کے مطابق انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی ہدایت پر صوبہ بھر کہ تھانوں کی قلیل مدت میں جدید طرز پر اپ گریڈیشن کردی گئی ہے۔پنجاب کی تھانوں کی اپ گریڈیشن کا مقصد پولیس کے رویہ اور کلچر تبدیل کرنا ہے تاکہ شہری تھانوں میں جاکر خود کو محفوظ سمجھیں،صوبہ بھر کے تمام اضلاع میں ایک ایک جدید پولیس سٹیشن کا افتتاح پہلے ہی ہوچکا تھا، 737 تھانوں کو دو بلین روپے خرچ کرکے ایک ماہ میں اپ گریڈ کیا گیاہے، 80 فیصد لوگ تھانوں میں کریکٹر سرٹیفکیٹ اور دیگر ڈاکومنٹس کیلئے آتے ہیں، کیو آر کوڈ کے ذریعے پانچ لاکھ شہریوں نے رائے دی جس میں 97 فیصد رائے مثبت ہے۔آئی جی پنجاب نے پنجاب بھر کے 36 اضلاع کے ایک ایک سپیشل انیشئیٹو پولیس ا سٹیشن کا آن لائن افتتاح بھی کیا۔واضح رہے کہ تھانہ کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ ایک ماہ کی قلیل مدت میں مکمل کیا گیا ہے،تھانوں کی انتظار گاہ میں معیاری فرنیچر، فرنٹ ڈیسک، انفارمیشن ایل سی ڈیز، اور جدید کمرے بنائے گئے ہیں، آئی جی پنجاب نے نئے تھانوں کے تمام حصوں کامعائنہ بھی کیا اور قلیل مدت میں جدید طرز پر اپ گریڈیشن کو سراہا،آئی جی پنجاب نے دیگر تمام تھانوں کی اپ گریڈیشن کا کام جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی،انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہاکہ تھانوں کے تفتیشی کمروں کو بھی خوبصورت بنایا گیا ہے اور پبلک فرینڈلی ماحول کو یقینی بنایا گیا ہے،پنجاب بھر میں تھانوں کی ایس آئی پیز کی سطح پر اپ گریڈیشن کی گئی ہے، اپ گریڈیشن تھانہ کلچر کی تبدیلی کی طرف اہم قدم ہے، چاہتے ہیں کہ شہریوں کو تھانوں میں تحفظ کا احساس ہو، برسوں کے کام مہینوں میں مکمل کر رہے ہیں۔ تمام کریڈٹ پنجاب کے سی پی اوز، ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز کو جاتا ہے، 14 ہزار سے زائد بچے پولیس کے والنٹیر اور فرینڈز آف پولیس ہیں اور یہ دو ہفتوں کا کورس ہے، شہریوں کو بہترین ماحول اور سروس ڈیلیوری کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔

تھائی لینڈ کا غیرملکی سیاحوں کیلئے ویزہ فری انٹری کا اعلان

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

کیا خوب امیرِ فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا

تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا

تر آنکھیں تو ہو جاتی ہیں پر کیا لذت اس رونے میں

جب خونِ جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے

1917 کا زمانہ تھا، پاکستان اور ہندوستان بننے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ لاہور میں شاہ عالم چوک میں 3 مرلہ مسجد مسلمانوں نے ایک ہی رات میں بنائی، اس مسجد کو ”مسجد شب بھر“ کا نام دیا گیا۔ یہ بڑا مصروف علاقہ تھا۔ ہندو بضد تھے کہ یہاں مندر بنے گا اور مسلمان کہتے تھے کہ یہاں مسجد کی جگہ ہے۔ یہ کیس عدالت میں چلا گیا۔ انگریز جج نے اس وقت یہ کہا کہ وہ کل یہ جگہ خود چیک کرے گا، اور موقع پر جو صورت حال ہوگی اسی کو قائم کر دیا جائے گا، اگر مندر ہوا تو مندر ہی رہے گا اور اگر مسجد ہوئی تو مسجد ہی رہے گی۔مسلمانوں نے فیصلہ کیا اگر ایک ہی رات میں مسجد بنا دی جائے تو فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آئے گا۔ الحمدللہ فجر کی اذانوں سے سے پہلے ہی مسلمانوں نے 3 مر لہ مسجد تعمیر کر لی۔ جب انگریز جج دوپہر کو موقع پر آیا تو اس نے دیکھا کہ مسلمان صفیں بچھا کر نماز ادا کر رہے ہیں۔ تو یوں فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہو گیا۔علامہ اقبال کا مشہور شعر اسی مسجد کے بارے میں ہے۔کہتے ہیں، انصاف وہ ہے جو نظر آئے۔ ہمارے بد نصیب ملک میں انصاف تو نیست و نامود ہے لیکن اس کا تسلسل نا انصافی اور لاقانونیت کی صورت میں بڑے آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔جس کے نتیجے میں احساس عدم تحفظ اور محرومی تھانوں میں جنم لیتی اور یہیں محروم طبقے کے خلاف ظلم و بربریت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔مدعی کو ملزم اور ملزم کو مجرم سمجھنے والے پولیس کے اس طبقہ نے تھانوں کو وحشت اور دہشت کدہ بنا دیا۔شریف شہری کے لئے تھانے جانے کا تصور اس قدر ہوش باختہ عمل ہوتا ہے جیسے اسے گوانتاناموبے جانا ہے جہاں اسے انصاف نہیں بلکہ اسے مدعی سے ملزم ثابت کرنے کے لئے کسی خود ساختہ جرم میں پابند سلاسل کیا جاسکتا ہے۔لوگوں کے پولیس کے بارے اس قسم کے خدشات من کھڑت کہانیاں یا مفروضے نہیں بلکہ پولیس کی "سماج دشمن کارکردگی" اس سے کہیں زیادہ سنگین اور پر تشدد ہوتی ہے جسے نہ تو لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایسے الفاظ متعارف ہوئے ہیں جن سے پولیس کے مظالم کا نشانہ بننے کی پیاس بجھائی جا سکتی ہو۔دنیا کے مہذب ممالک میں تھانے امن، سکون، انصاف اور قانون کے محافظ کی علامت کی طور پر مانے اور جانے جاتے ہیں۔وہاں پولیس سمیت تمام مقتدر حلقے قانون کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہیں۔کسی کو کسی بھی حالت میں استثنی حاصل نہیں ہوتی۔سب اپنے اپنے ملک کے قانون کے تابع ہوتے ہیں۔لیکن ہمارے ملک میں نہ قانون پر عمل درآمد ممکن ہے اور نہ ہی قانون کی کوئی حیثیت ہے۔اگر کوئی حیثیت ہے تو صرف قانون نافذ کرنے کا اختیار رکھنے والوں کو ہوتا کہ وہ موم کی اس ناک کو جس طرف چاہیں، موڑ دیں۔ ایک پولیس انسپکٹر اور سب انسپکٹر کے ساتھ ساتھ تفتیشی آفیسراندھے اختیارات کے حامل ہوتے ہیں۔جب چاہیں مقدمے کا رخ مجرم کی طرف مدعی کے خلاف موڈ دیتے ہیں۔چرس کو مٹی، شراب کو پانی اور ہیروئین کو نمک میں تبدیل کرنے میں قدرت رکھتے ہیں۔یہاں تک کہ ان کی جانب سے تیار کئے گئے ایسے کاغذات کی قانونی حیثیت کو کسی سطح پر چیلنج کرنا ممکن نہیں ہوتا۔اسی لئے اس تاثر کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی جرم پولیس کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔اور بڑے بڑے منظم گروہ اور جرائم کے دھندے انہیں کے دم قدم سے قائم ہیں۔آج تھانے کی عمارتوں کو نہیں تھانوں میں ہر جرم کی قیمت کے خاتمے کی ضرورت ہے جس کا تعین جرم کی سنگینی کے مطابق کیا جاتا ہے۔کسی بھی جرم کی تفتیش کے دوران اس کی قانونی حیثیت اور سنگینی کو زیر بحث نہیں لایا جاتا بلکہ ظالم اور مظلوم یعنی ملزم اور مدعی کی مالی حیثیت کے مطابق انصاف کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔جو زیادہ "بولی" لگائے گا، "انصاف" اسی کے پلڑے میں جائے گا۔حال ہی میں ڈاکٹر ہسپتال میں ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دینے والے دو سینئر جرنلسٹوں مدثر تتلہ اورمجاہد شیخ کے ساتھ ایک ڈی آئی جی کی موجودگی میں وردی کی طاقت کا بہیمانہ استعمال ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔

لاہور میں مفت کھانا نہ دینے پر پولیس اہلکاروں کا ہوٹل ملازم پر تشدد

QOSHE -         تھانے نہیں وردی کی طاقت کے بہیمانہ استعمال کو اپ گریڈ کرنا ہوگا - یونس باٹھ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        تھانے نہیں وردی کی طاقت کے بہیمانہ استعمال کو اپ گریڈ کرنا ہوگا

31 0
08.01.2024

نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے ویژن کے مطابق انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی ہدایت پر صوبہ بھر کہ تھانوں کی قلیل مدت میں جدید طرز پر اپ گریڈیشن کردی گئی ہے۔پنجاب کی تھانوں کی اپ گریڈیشن کا مقصد پولیس کے رویہ اور کلچر تبدیل کرنا ہے تاکہ شہری تھانوں میں جاکر خود کو محفوظ سمجھیں،صوبہ بھر کے تمام اضلاع میں ایک ایک جدید پولیس سٹیشن کا افتتاح پہلے ہی ہوچکا تھا، 737 تھانوں کو دو بلین روپے خرچ کرکے ایک ماہ میں اپ گریڈ کیا گیاہے، 80 فیصد لوگ تھانوں میں کریکٹر سرٹیفکیٹ اور دیگر ڈاکومنٹس کیلئے آتے ہیں، کیو آر کوڈ کے ذریعے پانچ لاکھ شہریوں نے رائے دی جس میں 97 فیصد رائے مثبت ہے۔آئی جی پنجاب نے پنجاب بھر کے 36 اضلاع کے ایک ایک سپیشل انیشئیٹو پولیس ا سٹیشن کا آن لائن افتتاح بھی کیا۔واضح رہے کہ تھانہ کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ ایک ماہ کی قلیل مدت میں مکمل کیا گیا ہے،تھانوں کی انتظار گاہ میں معیاری فرنیچر، فرنٹ ڈیسک، انفارمیشن ایل سی ڈیز، اور جدید کمرے بنائے گئے ہیں، آئی جی پنجاب نے نئے تھانوں کے تمام حصوں کامعائنہ بھی کیا اور قلیل مدت میں جدید طرز پر اپ گریڈیشن کو سراہا،آئی جی پنجاب نے دیگر تمام تھانوں کی اپ گریڈیشن کا کام جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی،انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہاکہ تھانوں کے تفتیشی کمروں کو بھی خوبصورت بنایا گیا ہے اور پبلک فرینڈلی ماحول کو یقینی بنایا گیا ہے،پنجاب بھر میں تھانوں کی ایس آئی پیز کی سطح پر اپ گریڈیشن کی گئی ہے، اپ گریڈیشن تھانہ کلچر کی تبدیلی کی طرف اہم قدم ہے، چاہتے ہیں کہ شہریوں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play