اس سے پہلے یہ بتایا جائے کہ8 فروری کو ہونے والے انتخابات کا نتیجہ کیا ہوگا،ایک بات سن لیجئے کہ 2018 میں کہا جاتا تھا کہ عمران خان کو ایک موقع ملنا چاہیئے، اب 2024 میں یہی لوگ کہتے پائے جاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو موقع تو ملنا چاہیئے۔ لگتا ہے کہ اس قسم کی تکرار کرنے والوں نے 2018 کے انتخابات سے ملک کی جو درگت بنی تھی اس سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ پشاور ہائیکورٹ نے بلے کا نشان بحال کردیا ہے حالانکہ بلا چھوڑ اگر پی ٹی آئی کو تین چار ہاکیاں بھی مل جائیں تو بھی آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی سے کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں ایک ہی شخص کو ٹکٹ سے نواز دیا

پشاورہائیکورٹ کا بھی باواآدم ہی نرالا ہے، پہلے حکم امتناع جاری کر دیا تھا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کی پٹیشن پر فیصلہ نہ دے، پھرایک ہفتے بعد حکم جاری کردیاکہ فیصلہ دے اور اب کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں، پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات میں مداخلت نہیں کر سکتا، ایسا ہی ہے تو پھر پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کی بھی کیا ضرورت ہے؟ بھلے کروائے، بھلے ناں کروائے الیکشن کمیشن کون ہوتا ہے اس پر کاروائی کرنے والا!

ہمیں توان دنوں شدت سے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی یاد آتے ہیں جو جھوم جھوم کر گایا کرتے تھے کہ جب آئے گا عمران، سب کی جان، بنے گا نیا پاکستان!!!حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مر جھاگئے! ہماری مانیں تو عیسیٰ خیلوی صاحب کو اب گانا چاہئے کہ جب آئے گا مولانا فضل الرحمٰن، صدر پاکستان، بنے کا نیا پاکستان!یوں بھی اب پی ٹی آئی گرڈ نے پاؤں کی مٹی چھوڑنا شروع کر دی ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ اس سمت پہلا اشارہ ہے جو کبھی غلام محمود ڈوگر کیس کی آڑ میں قبل ازوقت انتخابات کی راہ نکالنے کا ڈرامہ رچایا کرتے تھے تو کبھی پرویز الٰہی کا سواگت کرتے پائے جاتے تھے۔سچ پوچھیں تو اب اگلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی اتنی ہی اہمیت رہ گئی ہے جتنی لاہور سے کراچی جاتے ہوئے راستے میں ساہیوال آنے کی ہوتی ہے۔ایک مرتبہ ساہیوال گزر جائے تولوگوں کی نظر کراچی پر ہوتی ہے۔ اسی طرح 8گزرگیاتو پاکستانی عوام کی نظر اگلے وزیر اعظم کے حلف اٹھانے پر ہوگی، پی ٹی آئی کیا کہتی تھی، کیا کہتی ہے اورکیاکہے گی، یہ سب قصہ ماضی بن جائے گا!

پنجاب حکومت کا نوجوانوں کو روزگار کیلیے کینیڈا بھیجنے کا اعلان

اب آتے ہیں اصل سوال کی جانب کہ 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ دیکھا جائے تو انتخابات ازخود گزشتہ پانچ برس سے درپیش سیاسی صورت حال کا ایک نتیجہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ انتخابات میں سے وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جس کی تمنا گزشتہ پانچ برس سے کی جارہی ہوتی ہے۔ پاکستانی عوام گزشتہ پانچ برسوں میں تمنا کرتے رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کم ہونی چاہئے، ڈالر کی اونچی اڑان قابو میں آنی چاہئے، ملک میں نوکریوں کے مواقع پیدا ہونے چاہئیں، غیر ملکی سرمایہ کاری آنی چاہئے۔ اس تناظر میں عوام اسی پارٹی کو چنیں گے جس سے انہیں یہ سب کچھ کر دکھانے کی توقع ہو۔ اس پارٹی کو نہیں چنیں گے جو پہلے کہتی ہو کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے اور پھر یو ٹرن لے کر آئی ایم ایف کے قدموں میں جا بیٹھے اور ایک ایسا معاہدہ کر بیٹھے جس سے ملک میں بجلی اور گیس کی قیمتوں کو آگ لگ جائے۔

یونان کا ترک شہریوں کے لئے ویزہ فری انٹری کا اعلان

2018میں پی ٹی آئی سے متاثر عوامی حلقے کرپٹ سیاستدانون کو اٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینا چاہتے تھے، ممکن ہے کہ وہ اب بھی ایسا ہی چاہتے ہوں لیکن اب کرپٹ سیاستدانوں سے ان کی مراد صرف نواز شریف ہیں۔ اس فہرست میں سے جناب زرداری کی جانب وہ کچھ زیادہ توجہ دیتے نہیں پائے جا رہے ہیں کیونکہ وہ خود پیپلز پارٹی سے اپنا نظریہ بدل کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔چنانچہ اب وہ نواز شریف سے اس لئے چھٹکارا چاہتے ہیں کہ وہ عمران خان کے حصول اقتدار کی راہ میں رکاوٹ ہے، اس لئے نہیں کہ نواز شریف ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

شاہین آفریدی نے بابراعظم کی خراب فارم پر اپنے تاثرات کا اظہار کردیا

دوسری جانب نون لیگ گزشتہ پانچ برس فوج اور عدلیہ کو نیوٹرل ہونے کا کہتی رہی ہے، اب جبکہ عام انتخابات سر پر ہیں تو وہ فوج اور عدلیہ کی نیوٹریلیٹی کو چیلنج کرتی پائی جاتی ہے کیونکہ یہ دو ادارے جب ذرا سا بھی پی ٹی آئی کو ریلیف دیتے ہیں تو نون لیگ چیخنا شروع کر دیتی ہے کہ اب بھی سہولت کاری ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئندہ انتخابات میں نون لیگ کا مقصد پی ٹی آئی کو کچلنا ہے۔ اگر فوج اور عدلیہ ایسا نہیں کرتے تو نواز شریف خود اقتدار میں آ کر ایسا کرنے کا عندیہ دیتے پائے جاتے ہیں۔

اس ساری صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور نون لیگ میں سے کوئی ایک کامیابی کا رزلٹ ہاتھ میں تھامے 8 فروری کے انتخاب سے باہر نکلے گا۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ نون لیگ ہو، پیپلز پارٹی ہو یا پھر پی ٹی آئی، ہر کوئی فوج اور عدلیہ کے زخم خوردہ ہیں اس لئے یہ ادارے کسی پر بھی اعتماد کرنے کے لئے آسانی سے تیار نہیں ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے کیونکہ نواز شریف اور بلاول بھٹو سمیت اہم سیاسی شخصیات سے امریکی اور برطانوی سفراء کی ملاقاتیں بہت کچھ بتاتی ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ انتخابات میں التوا کی آخری کوشش کرر ہے ہوں کیونکہ ابھی تک عمران خان کو سزا نہیں ہوئی ہے جبکہ عام انتخابات سر پر آن پہنچے ہیں۔ اگر انتخابات ہو جاتے ہیں تو پنجاب میں دو پارٹیوں کے درمیان انتخابات ہونے جا رہے ہیں اس لئے نتیجہ ضرور نکلے گا۔ جب لڑائی دوبدو ہو گی تو ایک کی ہار اور ایک کی جیت ضرور ہو گی۔

کرکٹ وکٹوریہ نے سابق کپتان بابراعظم کو بڑی پیشکش کردی

QOSHE -            الیکشن کا نتیجہ کیا ہوگا؟ - حامد ولید
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

           الیکشن کا نتیجہ کیا ہوگا؟

7 0
12.01.2024

اس سے پہلے یہ بتایا جائے کہ8 فروری کو ہونے والے انتخابات کا نتیجہ کیا ہوگا،ایک بات سن لیجئے کہ 2018 میں کہا جاتا تھا کہ عمران خان کو ایک موقع ملنا چاہیئے، اب 2024 میں یہی لوگ کہتے پائے جاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو موقع تو ملنا چاہیئے۔ لگتا ہے کہ اس قسم کی تکرار کرنے والوں نے 2018 کے انتخابات سے ملک کی جو درگت بنی تھی اس سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ پشاور ہائیکورٹ نے بلے کا نشان بحال کردیا ہے حالانکہ بلا چھوڑ اگر پی ٹی آئی کو تین چار ہاکیاں بھی مل جائیں تو بھی آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی سے کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں ایک ہی شخص کو ٹکٹ سے نواز دیا

پشاورہائیکورٹ کا بھی باواآدم ہی نرالا ہے، پہلے حکم امتناع جاری کر دیا تھا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کی پٹیشن پر فیصلہ نہ دے، پھرایک ہفتے بعد حکم جاری کردیاکہ فیصلہ دے اور اب کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں، پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات میں مداخلت نہیں کر سکتا، ایسا ہی ہے تو پھر پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کی بھی کیا ضرورت ہے؟ بھلے کروائے، بھلے ناں کروائے الیکشن کمیشن کون ہوتا ہے اس پر کاروائی کرنے والا!

ہمیں توان دنوں شدت سے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی یاد آتے ہیں جو جھوم جھوم کر گایا کرتے تھے کہ جب آئے گا عمران، سب کی جان، بنے گا نیا پاکستان!!!حسرت ان غنچوں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play